نظام قانون کا مذاق نہیں تو اور کیا؟

216

نظام قانون کا مذاق اڑانا تو اس ملک میں پرانی روایت ہے مگر اب تو ایسا لگتا ہے کہ اس نظام کو مکمل برہنہ کیا جارہا ہے۔ لوگ کل یہی تو کہا کرتے تھے کہ ’’سب ڈرامے بازی اور سیاست کے نام پر کھیلی جانے والی چالیں ہیں، بس جنرل راحیل شریف کو ریٹائرڈ ہونے دیں، سب پہلے جیسا ہوجائے گا، اینٹ سے اینٹ بجانے والے آصف زرداری بھی ملک میں واپس آجائیں گے اور ان کے ساتھی بھی، جو لوگ گرفتار ہورہے ہیں وہ بھی رہا ہوجائیں گے‘‘۔ ایسی ذہین قوم جو تجزیاتی باتیں کرتی ہے، وہی ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا پر لطیفے بن رہے ہیں۔ کوئی قوم کو کچھ اس طرح مبارک باد دے رہا ہے کہ ’’ایک مرتبہ پھر آپ سب کو دلی مبارکباد پیش کرنا ہوں دخترِ ملت: ایان علی، فخرسندھ: شرجیل میمن، مفتی: حامد سعید کاظمی، طبیبِ امت: ڈاکٹر عاصم، قوم کو ان سب محسنوں کی رہائی بہت بہت مبارک ہو جن کی قومی خدمات قیامت تک سنہری لفظوں میں لکھی اور یاد رکھی جائیں گی‘‘۔
کوئی طنز کے تیر اس طرح چلا رہا ہے کہ ’’پاکستان میں آپریشن ’’حب الکرپشن‘‘ کامیابی سے جاری ہے اب تک دو ’’چوروں‘‘ کو پکڑ کر ان کی ’’تاج پوشی‘‘ کی جاچکی ہے، باقی کی تلاش جاری‘‘۔ کوئی دل جلا یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ’’تازہ این آر او (NRO) کے بعد اویس مظفر ٹپی کے ملک واپسی کی خبریں، واپسی پر گارڈ آف آنر بھی پیش کیا جائے گا‘‘۔ ٹیوٹر کی سرگرم ڈاکٹر نتاشا نے اپنے ان الفاظ میں حالات پر تبصرہ کیا کہ ’’قانون کو مہندی ایان علی نے لگائی، گھونگھٹ شرجیل میمن نے اٹھایا، ننگا ڈاکٹر عاصم نے کر دیا ہے اور اب رینجرز ناشتہ عدالت لے کر جائیں گے‘‘۔
ان جذباتی اور طنزیہ تاثرات کا اظہار جس ہمت سے کیا جارہا ہے، اس کے لیے بھی قوم قابل مبارکباد ہے۔ مگر داد تو انہیں بھی دینی پڑ رہی ہے جو بے حسی اور بے غیرتی کی تمام سطحوں کو عبور کرنے کے باوجود ڈھٹائی سے اپنے روزو شب میں مگن ہوچکے ہیں۔ انہیں قانون اور لوگوں کی باتوں سے کیا لینا دینا، انہیں تو صرف اپنے شریک چیئرمین کی آشیردبا چاہیے۔ شریک چیئرمین بھی وہ جس نے سیاست کے شعبے ہی کیا کسی بھی مضمون کی خصوصی تعلیم حاصل نہیں کی۔ لیکن پھر بھی پاکستانی سیاسی کلچر میں فٹ ہے۔ اس لیڈر کو معلوم ہے کہ پیسہ ہی سب کچھ ہے اس سے سب کو ہی خریدا جاسکتا ہے، سب رشتے روپے پیسے کی وجہ سے ہیں۔ یقین کریں کہ یہ سیاست دان ہی نہیں بلکہ بزنس مین بھی اتنا بڑا ہے کہ اس نے دولت کے عوض ملک کے بڑے تاجر کو خرید چکا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بزنس مین اپنے حلقے میں اس بات کا برملا اظہار کیا کرتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی دولت سے اس ملک کے چمپئن ہونے کے دعوے دار سیاست دان کو اپنی مٹھی میں جکڑا ہوا ہے، جب کہ بیورو کریٹ، بڑے بڑے اینکرز اور صحافی بھی ان کے اشارے پر ناچتے ہیں‘‘۔
کرپشن اور جرائم کے خاتمے کے لیے شروع کیا جانے والا کراچی آپریشن جس آب و تاب سے شروع ہوا تھا اسی ’’شان‘‘ سے دم توڑ رہا ہے۔ یہ وہ آپریشن تھا جس کے آغاز پر جب رینجرز نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر پر چھاپا مارا اور وہاں کے ڈائریکٹر جنرل منظورقادر عرف کاکا کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو اس کے دورسرے دن پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر چیخ پڑے اور فوجی جرنیلوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی دھمکی دی۔ لیکن اس دھمکی کے صرف پانچ دن بعد جون 2015 کو آصف زرداری اچانک ملک سے چلے گئے تھے اور ان کی واپسی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف ریٹائرمنٹ کے بعد ممکن ہوسکی۔
جون 2015 کے بعد رینجرز اور نیب کی کارروائی سے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت اور پنجاب میں مسلم لیگ حکومت بھی پریشان ہوچکی تھی تاہم ان کارروائیوں کی اطلاعات پر عوام میں خوشی پائی جاتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ عام لوگوں کی خواہشات کے مطابق رینجرز اور نیب کرپشن اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث بڑی شخصیات کو پکڑکر انہیں انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ جنرل راحیل شریف کی ریٹائرڈ ہوئے تو پھر سب سے پہلے آصف زرداری ڈیڑھ سال بعد وطن لوٹ آئے۔ ان کی واپسی اس بات کا اشارہ تھی کہ اب انہیں وہ خوف نہیں رہا جو ڈیڑھ سال تک ملک سے باہر رہنے کا سبب بنا تھا۔
بہرحال کم و بیش نیب اور رینجرز کی کارروائی کے نتیجے میں جو بااثر سیاست دان گرفتار ہوئے تھے یا ان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں، وہ اب واپس آگئے جب کہ کرپشن اور کرمنل مقدمات کے الزامات میں گرفتار ہونے والے ڈاکٹر عاصم، ماڈل ایان علی، قادرپٹیل اور دیگر جیلوں سے باہر آگئے۔ جب کہ گرفتاری کے خوف سے دبئی منتقل ہوجانے والے سندھ کے سابق وزیر شرجیل میمن باآسانی اسلام آباد میں عدالت سے ضمانت حاصل کرکے واپس آچکے ہیں۔
ان تمام افراد کی ضمانتوں پر رہائی اور قبل ازگرفتاری ضمانت کے واقعات نے ایک بار پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوریوں کو عیاں کردیا۔ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ ’’کہاں گیا آپریشن؟ کیا بنا آپریشن کا؟‘‘ اب یہ نہیں معلوم کہ یہ ان اداروں کا قصور ہے یا کچھ اور سب ہی چھوٹنے لگے۔ یہ سب کیا تھا کیوں کیا گیا؟ اس سوال نے پریشان کردیا ہے۔ اس کا جواب کون دے گا؟ جو کچھ ہوا اور اس کے نتیجے کے طور پر ہورہا ہے اس میں صرف ہمارے اداروں اور ہمارے نظام کی بدنامی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اب اگر کراچی آپریشن میں ٹارگٹ کلنگ کے الزامات میں گرفتار خطرناک ملزمان بھی اسی طرح ضمانتوں میں آگئے پھر کراچی کے امن و امان کو بحال رکھنے کے امکانات بھی کم ہوجائیں گے اور شہریوں میں خوف وہراس پیدا ہونا فطری بات ہوگی۔ اس لیے بے بس شہری صرف دعا ہی کرسکتے ہیں کہ اللہ اس شہر کا امن و امان برقرار رکھنا، اس شہر کا سکون دراصل شہریوں کے آزادی کا بھی باعث ہے۔ اللہ ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے اور قوم کو اپنے اوپر ظالم لوگوں کو مسلط نہ کرنے کی توقیق دے، آمین۔