متفرقات

146

لندن سے جناب میاں محمد شریف صاحب نے ہمارے 25مارچ کے کالم بعنوان ’’آں اَمَنُّ النَّاس برمولائے ما‘‘ کی تحسین فرمائی ہے اور 27مارچ کے کالم کے بارے میں لکھا: ’’آج کے دنیا اخبار میں آپ کا کالم ’’اُن کا میڈیا اور ہمارا میڈیا‘‘ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ہم کیا ہیں، کیسی قوم ہیں؟۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کالم کی ایک نقل آپ پیمرا کو ارسال کریں اور اُن سے کہیں کہ ہمارے میڈیا کے لیے کوئی ضابطۂ اخلاق وضع کیا جائے۔ ہماری اس بگڑی ہوئی قوم کو کسی مسیحا کی ضرورت ہے‘‘۔ جناب میاں محمد شریف سے گزارش ہے کہ اتفاقاتِ زمانہ یا قسمت کی یاوری سے ہمارے جو کرم فرما ٹیلی ویژن اسٹوڈیوز میں اینکر پرسن یا تجزیہ کار کے طور پر آکر بیٹھ گئے ہیں، اُن کی اپنے بارے میں خوش فہمی ہے کہ اب وہی اس قوم کے مسیحا ہیں اور انہیں کسی غیبی طاقت نے اس کام پر مامور کردیا ہے۔ دانش اُن سے شروع ہوتی ہے اور انہی پر ختم ہوجاتی ہے۔ اُن کے حضور ہر ایک جواب دہ ہے، لیکن وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔ پیمرا یعنی ریگولیٹر میر تقی میر کے اِن اشعار کا مصداق ہے:
فقیرانہ آئے، صدا کر چلے
میاں خوش رہو، ہم دعا کر چلے
کہیں کیا؟، جو پوچھے کوئی ہم سے میر
جہاں میں تم آئے تھے، کیا کر چلے
سو پیمرا کا کام فقیرانہ صدا لگانا ہے، جو مان لے اُس کا بھی بھلا اور جو نہ مانے اُس کا بھی بھلا۔ اوپر سے ہماری عدالتیں ہیں جو حاکمِ وقت کو تو لرزہ بر اندام کرسکتی ہیں، لیکن الیکٹرانک میڈیا کو ناراض کرنے کی روادار وہ بھی نہیں ہیں، پھر کون ہے جو اُن کے منہ میں لگام ڈالے۔ غالب نے کافی عرصہ پہلے جان کی امان پانے والوں کو مشورہ دیا تھا: ’’جس کو ہوں دین و دل عزیز، اُس کی گلی میں جائے کیوں‘‘۔
وطن کی محبت: بعض لوگ ’’حُبُّ الوطنی‘‘ کے جذبات کو ابھارنے کے لیے ’’حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمان‘‘ کو حدیث کے طور پر پیش کرتے ہیں، لیکن یہ محض ایک مقولہ ہے، بطورِ حدیث اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ تمام ثقہ محدثین نے اسے حدیث تسلیم نہیں کیا۔ البتہ وطن سے محبت انسان کا فطری تقاضا ہے اور اگر وطن میں ایمان کی بھی حفاظت ہے، تو وہ یقیناًمقدّس ہے، کیوں کہ وہ دارالایمان ہے۔ رسول اللہ ؐ جب مکۂ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینۂ منورہ میں تشریف لے گئے، تو آپ نے یہ دعا فرمائی: ’’اے اللہ! تو ہمارے لیے مدینہ کو بھی اُسی طرح محبوب بنا، جس طرح تونے ہمارے لیے مکہ کو محبوب بنایا تھا یا ہمارے دلوں میں مدینے کی محبت اُس سے بھی زیادہ کردے اور اس کی آب وہوا کو ہمارے لیے سازگار بنا اور اس کے بخار کو جُحفہ مقام کی طرف منتقل فرمادے، اے اللہ !اس کے پیمانوں میں ہمارے لیے برکت عطا فرما، (بخاری)‘‘۔ مکۂ مکرمہ کی محبت کا ایک سبب تو یہ تھا کہ رسول اللہ ؐ کی جائے ولادت ہے اور اس میں بیت اللہ، زمزم، صفا ومروہ، مِنیٰ، مزدلفہ، عرفات، جبلِ نور وغارِ حرا، جبلِ ثور وغارِ ثور ایسے مقامات مقدّسہ ہیں۔ مدینۂ منورہ آپ کا دارالہجرۃ ہے اور پھر وہی دارالاسلام کا پہلا دارالحکومت بنا اور آج تاجدارِ کائنات ؐ کا روضۂ انور، جو رشکِ جنت ہے، بھی اِسی دیارِ مقدس میں ہے۔ مکۂ مکرمہ میں عبادت کا ثواب ایک لاکھ گنا ہے اور مدینۂ منورہ میں مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق مسجدِ نبوی میں نماز کا ثواب حرمِ مکی کے علاوہ دیگر مساجد کے مقابلے میں ایک ہزار گنا ہے، (صحیح بخاری) اور دوسری روایت کے مطابق پچاس ہزار گنا ہے، (سنن ابن ماجہ)‘‘۔ جس دیار میں دین وایمان، جان ومال اور آبرو محفوظ نہ ہو، تو لوگ وہاں سے ہجرت کی دعائیں کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور اے مسلمانو! تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جنگ نہیں کرتے حالاں کہ کمزور (وبے بس) مرد اور عورتیں اور بچے یہ دعا کر رہے ہیں: اے ہمارے ربّ! ہمیں ظالموں کی اس بستی سے نکال دے اور ہمارے لیے اپنے پاس سے کوئی حمایتی اور کوئی مددگار بنادے، (النساء:75)‘‘۔
آج کل ہمارے اردو محاورے میں ’’وطن کی محبت‘‘ کو مٹی کی محبت سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور وطن کی سرزمین کو ’’مادرِ وطن‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، وطن کے حقوق کو ’’مٹی کے قرض‘‘ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، افتخار عارف نے کہا ہے:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں، جو واجب بھی نہیں تھے
یہ خیال مجھے اس لیے آیا کہ ہمارے ایک طنز نگار فاروق قیصر نے طنزیہ سوال وجواب لکھا:
سوال: ہمارے ہاں بھی ’عالمی ساعتِ ارضی‘ منایا گیا ہے، آپ کے خیال میں پاکستان میں زمین سے محبت کرنے کا ایوارڈ کسے ملنا چاہیے؟۔
جواب: ’’ملک ریاض کو، ویسے ہمارے ہاں زمین سے محبت عام آدمی کو کسی بڑے شہر میں مہنگی پڑتی ہے، اس کی قیمت دو سے تین کروڑ روپے کنال ہوتی ہے، ظاہر ہے ایک عام پاکستانی ایسی محبت کا بوجھ کہاں اٹھا سکتا ہے، (یعنی یہ اُس کی استطاعت سے باہر ہے)‘‘۔
پھر ایک اور صاحبِ طرز لکھاری جنابِ امر جلیل نے کراچی کی ماضی کی تاریخ بیان کرنے کے بعد لکھا: ’’تمام دنیا میں سنٹرل جیل شہری آبادی سے بہت باہر ہوتی ہے، لیکن اب کراچی میں آبادی کے عین وسط میں ہے، ایک بار کسی بلڈر نے پیشکش کی تھی کہ یہ جگہ اُسے دے دی جائے اور وہ شہر سے باہر جیل تعمیر کرکے دے سکتے ہیں، لیکن پھر کمیشن کا مسئلہ طے نہ ہوسکا۔ سو ہمارا مشورہ ہے کہ کراچی کی سنٹرل جیل اور سِوِل کورٹس کی زمین کی ملکیت ملک ریاض کے نام کردی جائے، سندھ کی حکمراں جماعت کے سربراہ جنابِ آصف علی زرداری کے ساتھ اُن کی گاڑھی چھَنتی ہے، لہٰذا کمیشن کا مسئلہ آڑے نہیں آئے گا۔ اس زمین کی ملکیت کے عوض آئندہ پچاس سال کی ضرورتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سنٹرل جیل، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی سطح تک تمام شہری عدالتیں، جج صاحبان، عدالتوں اور جیل کے عملے سمیت تمام سرکاری اہل کاروں کے لیے حسبِ مراتب رہائشی کالونیاں، معیاری اسکول، ہسپتال، وکلا کے چیمبر، ہوٹل، نوٹیری پبلک اور کمشنرز کے لیے کیبن بحریہ ٹاؤن سے آگے نوتعمیر شدہ موٹروے سے متصل تعمیر کیے جائیں، اِن میں سے بعض دفاتر اور ہوٹل وغیرہ کاروباری بنیاد پر چلیں گے۔ زمین حکومت مفت فراہم کرے اور تعمیر ات کی ذمے داری مع مصارف ملک ریاض کے سپرد کی جائے، اس سے کراچی شہر اور شہریوں کی کافی مشکلات آسان ہوجائیں گی۔
اسلامک ملٹری الائنس: سعودی عرب کی تحریک پر 39ممالک پر مشتمل ’’اسلامک ملٹری الائنس‘‘ وجود میں آچکا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق اُس کی سربراہی پاکستان کے سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنابِ جنرل (ر) راحیل شریف کو سونپی جارہی ہے، پاکستان کے وزیرِ دفاع جناب خواجہ محمد آصف نے توثیق کردی ہے کہ حکومتِ پاکستان نے اصولی طور پر اس کی منظوری دے دی ہے، اسے ہماری قانونی زبان میں این او سی اور عربی میں ’’تَصْرِیْح‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن اُن کے بقول ابھی جنرل صاحب کی طرف سے جی ایچ کیو کے توسط سے باقاعدہ درخواست نہیں آئی۔ مُجوَّزہ اسلامک ملٹری الائنس ایک اچھی نوید ہے اور اس کی سربراہی پاکستان کے لیے ایک اعزاز ہے۔ لیکن تاحال یہ ایک عجوبہ اور پہیلی ہے، بچے کی پیدائش سے پہلے نام رکھ دیا گیا ہے، لیکن اُس کے مقاصد تاحال واضح نہیں ہیں، اس لیے پاکستان کو وضاحتیں کرنی پڑ رہی ہیں۔ ابتدائی تاثر یہ تھا کہ یہ الائنس یمن کی صورتِ حال کے تناظر میں بنایا جارہا ہے اور اُس پر ایران کے تحفظات ڈھکے چھپے نہیں ہیں، کیوں کہ یمن کے تنازع میں سعودی عرب اور ایران دو فریق ہیں۔ جنابِ انصار عباسی نے جنرل (ر) امجد شعیب کے حوالے سے لکھا ہے: ایران کو چیف آف آرمی اسٹاف جنابِ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اطمینان دلایا ہے کہ یہ فوجی اتحاد ایران کے خلاف نہیں ہے۔ ایک اور کالم نگار نے لکھا ہے: ’’جنرل شعیب نے کہا: جنرل راحیل شریف نے اس اتحاد کی سربراہی کے لیے تین شرائط رکھی ہیں: (۱) ایران کو ہر حالت میں اس اتحاد میں شامل کیا جائے گا۔ (۲) وہ اس اتحاد کے مکمل خود مختار کمانڈر ہوں گے اور کسی کے ماتحت نہیں ہوں گے۔ (۳) اتحادی ممالک میں کسی قسم کی غلط فہمی کی صورت میں ان کی ثالثی کو حتمی تصور کیا جائے گا‘‘۔
انگریزی محاورے کا مطلب ہے: ’’کسی چیز کے بارے میں حکومت کی تردید ہی اُس کے اندر مستور صداقت کی نشان دہی کر رہی ہوتی ہے‘‘۔ لہٰذا ہماری رائے میں غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے اس کے مقاصد دو ٹوک الفاظ میں بیان ہونے چاہییں۔ نہ تو اسلامک ملٹری الائنس کی ضرورت اورنہ ہی سعودی عرب کو اس کا ہیڈ کوارٹر بنانے پرکسی کو اعتراض ہے، تحفظات یا خدشات اس کے چارٹرکے ظاہر نہ ہونے پر ہیں۔ ہماری رائے میں اس الائنس کے چارٹر کا فوری اعلان ناگزیر ہے تاکہ تمام غلط فہمیوں کا ازالہ ہوجائے۔ اس الائنس کی اوّلین ضرورت یہ ہے کہ مسلم ممالک میں موجود مغربی افواج کا اِنخلا ہو اور اسلامک ملٹری الائنس اس کی جگہ لے۔ مسلم ممالک کے تمام داخلی تنازعات کو اتفاقِ رائے سے حل کرنے کی تدبیر نکالی جائے، اسی طرح القاعدہ اور داعش یا دیگر عنوانات سے جو مسلّح گروہ مسلم ممالک میں مصروفِ عمل ہیں، اُن کا خاتمہ کیا جائے۔
حال ہی میں سیاسی سرگرمی شروع ہوئی ہے اور کچھ معاملات ظہور میں آئے ہیں۔ جنابِ عمران خان نے انہیں دو بڑی جماعتوں کے درمیان مُک مُکا سے تعبیر کیا ہے اور وہ انکاری ہیں، لیکن ایک ترتیب کے ساتھ ان واقعات کا رونما ہونا گمان کو تقویت بخشتا ہے۔ ایک لکھاری کے بقول ہمارے ہاں صبح جو جھوٹ گھڑا جائے، وہ بھی شام تک کھرا سچ بن جاتا ہے۔