جماعت اسلامی کا دھرنادیکھ کر دیگرجماعتوں کی ’’ پارٹیاں ‘‘ شروع

105

کراچی(تجزیہ : محمد انور )کے الیکٹرک کی زائد بلنگ کے ذریعے لوٹ مار اور صارفین کے ساتھ ظلم و زیادتی کے خلاف جماعت اسلامی کے 31مارچ کوپر امن احتجاجی دھرنے کے بعد سے ملک کے سب سے بڑے شہر میں اچانک ہی دیگر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ’’دھرناسیاست ‘‘ کا سلسلہ
شروع ہوچکا ہے ۔جو سیاسی جماعتیں اپنے آپ کو عوام کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی کہتی ہیں وہ ماضی کی طرح تاحال’’ کے الیکٹرک ‘‘ کی لوٹ مار پر مسلسل خاموش ہیں ۔ عام خیال ہے کہ یہ جماعتیں اب بھی کے الیکٹرک کے بارے میں کچھ کہنے کی جرأت نہیں رکھتیں۔تاہم انہوں نے جماعت اسلامی کے کامیاب احتجاجی سلسلے کو دیکھ کر اچانک ہی ’’ دھرنا سیاست ‘‘ شروع کردی۔ جس سے ایسا شبہ ہو رہا ہے کہ ان پارٹیوں نے ’’ کے الیکٹرک ‘‘ کے خلاف جماعت اسلامی کے احتجاج کے سلسلے کو روکنے کے لیے ’’ اپنی روایتی پارٹیاں ‘‘ شروع کر دی ہیں۔ کراچی کے شہری ایم کیو ایم، پاک سر زمین پارٹی اور تحریک انصاف کے احتجاجی سلسلے کو دیکھ کر حیران ہیں اور سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ مذکورہ پارٹیاں’’ کے الیکٹرک ‘‘ کے خلاف جاری جماعت اسلامی کی احتجاجی مہم کی آواز کے ساتھ آواز ملانے کے بجائے نئے ایشوز کو لے کر سڑکوں پر کیوں آگئی ہیں ؟ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ’’ ایسا لگتا ہے کہ کے الیکٹرک نے ہی اپنے خلاف کیے جانے والے جماعت اسلامی کے احتجاجی سلسلے کو دبانے کے لیے اپنی حمایتی سیاسی جماعتوں کی خدمات حاصل کی ہیں‘‘۔بجلی ہر فرد اور ہر گھر کی اولین ضرورت ہے اس سے تنگ آئے باشندے کچھ سوچ سکتے ہیں اور کچھ بھی بول سکتے ہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے ایک اہم مسلے کے حل کے لیے آواز اٹھائی ہے ۔ اس لیے خیال تھا کہ دیگر جماعتیں بھی جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر ’’ کے الیکٹرک‘‘ کی بدمعاشیوں اور لوٹ مار کے سلسلے کا خاتمہ کردیں گی۔لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ اس کے برعکس متحدہ قومی موومنٹ پاکستان نے جمعہ سے نئی کراچی اور نارتھ کراچی میں پانی کی قلت پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مرکزی دفتر واقع شاہراہ فیصل کے باہر احتجاجی دھرنا دیا۔ پاک سرزمین پارٹی کے مصطفی کمال نے جمعرات سے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کرکے کراچی پریس کلب کے باہر اپنا ’’ دھرنا کیمپ ‘‘ لگادیا ۔ جبکہ تحریک انصاف نے شہر کے کلفٹن ، ڈیفنس اور دیگر پوش علاقوں میں پانی کی عدم فراہمی پر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے دفتر پر احتجاج کیا۔ پاک سرزمین پارٹی نے اپنے دھرنے کے پروگرام کے بارے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج کراچی کو درپیش مسائل کے حل تک جاری رہے گا۔ مصطفی کمال نے اپنے مطالبات میں کے الیکٹرک کو یکسرنظر انداز کرکے پوری توجہ بلدیاتی اداروں خصوصاََ بلدیہ کراچی پر مرکوز کی ہے۔مصطفی کمال نے واضح الفاظ میں کہا کہ ’’ پی ایس پی صاف پینے کے پانی کی فراہمی، کچرا اٹھانے، تعلیم اور سستی بجلی کے حصول کے لیے احتجاج کررہی ہے‘‘۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ یہ احتجاجی بھوک ہڑتال ’’کے الیکٹرک ‘‘کی جانب سے شہریوں کو برسوں سے تنگ کرنے کے سلسلے کے خلاف نہیں ہے ۔اس لیے شہری مصطفی کمال سے یہ سوال کرنے پر حق بجانب ہیں کہ کے الیکٹرک کی زیادتیوں کو انہوں نے کیوں نظر انداز کیا ہوا ہے ؟ کراچی کے تقریباََ 3 کروڑ شہریوں کے ساتھ سندھ کے دھابیجی ، گھارو اور بلوچستان کے حب ، ویندر اور اوتھل کے لوگ بھی کے الیکٹرک کی لوٹ مار سے روزانہ کی بنیاد پر پریشان ہوتے ہیں ۔مگر سوائے جماعت اسلامی کے کسی اور جماعت کو کے الیکٹرک کی یہ زیادتیاں نظر نہیں آتیں ، آخر کیوں ؟ اس کا جواب مذکورہ جماعتیں ہی دے سکتی ہیں اور عوام ان جماعتوں سے یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں۔