میئر کراچی بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے میں ناکام، شہر کی40 فیصد مرکزی سڑکوں پر اندھیروں کا راج ہے

64

کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) میئر کراچی بلدیاتی اداروں کو فعال کرنے میں ناکام، شہر کی40 فیصد مرکزی سڑکوں پر اندھیروں کا راج ہے۔ بیشتر سڑکیں، انڈر پاسز، فلائی اوورز، پل، گلیاں، مرکزی شاہراہیں رات کے اوقات میں مکمل طور پر تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ الیکٹریکل نے اندھیر نگری مچادی ہے۔ شہر کی اہم اور مصروف سڑکوں پر اندھیرے کے باعث شہریوں سے لوٹ مار کی واردات میں اضا فہ ہو گیا ہے۔ بلدیہ عظمی کراچی کی کارکردگی فعال نہ ہو نے کے باعث شام ہو تے ہی شہر کی سڑکیں، گلیاں، پل ، فلائی اوورز مکمل تاریکی میں ڈوب جاتے ہیں جس کی وجہ ان سڑکوں اور فلائی اوور ز کی خراب اسٹریٹ لائٹس ہیں، کارساز روڈ ، یونیورسٹی روڈ ،راشد منہاس روڈ، سگنل فری کوریڈور 3، ماڑی پور،شاہراہ پاکستان، منگھوپیر روڈ،سائٹ ایریا،
بنارس چوک ،عبداللہ کالج چورنگی ،ناردرن بائی پاس ،سہراب گوٹھ ،ایکسپریس ہائی وے ،جام صادق پل ،جمشید روڈ،اورنگی ٹاون، ملیر ،لائنز ایریا،آئی آئی چندریگر روڈ، شاہراہ پاکستان، راشد منہاس روڈ، ابوالحسن اصفہانی روڈ، حکیم ابن سینا روڈ، غریب آباد، اسٹیڈیم روڈ، سرشاہ سلیمان روڈ، حیدری روڈ، سخی حسن، ناگن چورنگی روڈ، لیاقت آباد، ناظم آباد، تین ہٹی، جہانگیر روڈ، پی آئی بی کالونی، جیل روڈ، گرومندر، ایم اے جناح روڈ ، کشمیر روڈ، شاہراہ قائدین، مائی کلاچی، اولڈ کلفٹن روڈ، طارق روڈ، شارع فیصل، کورنگی روڈ، شہید ملت روڈ، شہید ملت ایکسپریس وے، کورنگی کاز وے، کورنگی تا شاہ فیصل ایکسپریس وے سمیت متعدد علاقوں کی اہم شاہراہیں اسٹریٹ لائٹس خراب ہونے کی وجہ سے تاریکی میں ڈوبی رہتی ہیں۔اس کے علاوہ لیاقت آباد فلائی اوور، ناظم آباد فلائی اوور، غریب آباد، لیاقت آباد، ناظم آباد کے انڈرپاسز، حسن اسکوائر فلائی اوور، نیشنل اسٹیڈیم فلائی اوور، کارساز فلائی اوور، جناح ٹرمینل فلائی اوور، ملیر برج، قائد آباد برج، کے پی ٹی انٹرچینج، جام صادق پل، ایف ٹی سی فلائی اوور، نرسری فلائی اوور، پی آئی ڈی سی فلائی اوور، کلفٹن برج سمیت شہر کے اکثر پلوں اور فلائی اوورز پر نصب اسٹریٹ لائٹس خراب ہیں اور یہ سڑکیں، پل اور فلائی اوورز جرائم پیشہ عناصر کے لیے جنت بن گئی ہیں اور ان پر جرائم پیشہ افراد کی کارروائیاں شہریوں کے لیے عذاب بن گئی ہیں۔ شاہراہوں پر تاریکی کے باعث جہاں حادثات روز کا معمول بن گئے ہیں وہاں شہری روزانہ ان شاہراہوں پر جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں لٹتے ہیں اور موبائل فون سمیت قیمتی اشیا سے محروم ہوجاتے ہیں، جبکہ پولیس ان واقعات کے مقدمات اندراج نہیں کرتی جس کی وجہ سے یہ واقعات حکومت اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔اندھیرے کے باعث ان راستوں پر حادثات کی شرح بھی بڑھ گئی ہے۔ کراچی میں اسٹریٹ لائٹ کی دیکھ بھال کے لیے ادارے تو موجود ہیں تاہم اس حوالے سے کوئی بھی اپنی ذمے داری پوری کرنے کو تیار نظر نہیں آتا۔ گلشن اقبال میں ریلوے کراسنگ پل ، اردو یونیورسٹی سے قبل بھی گھپ اندھیرا ہوتاہے ، دوسری طرف پل کے بعد یونیورسٹی روڈ کھود کر پل کے اختتام پر خطرناک گڑھے بنا دیے گئے جس سے چند دنوں کے دوران کئی گاڑیاں حادثات کا شکار ہو چکی ہیں ۔ دوسری جا نب ناظم آباد سے سائٹ جانے والے فلائی اوور پر شمسی توانائی سے چلنے والی اسٹریٹ لائٹس کا انتظام کیا گیا تھا لیکن دیکھ بھال نہ ہونے سے یہ مکمل طور پر ناکارہ ہوچکی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل شہاب انور اور چیف انجینئر الیکٹریکل شفیع چاچڑ شہر کے اندھیرے دور کرنے کو تیار نہیں ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ کے ایم سی کے افسران لٹیروں کے سہولت کار بن گئے ہیں ۔شہر میں اندھیر نگری کے حوالے سے میئر کراچی وسیم اختر نے بھی تا حال کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔اس حوالے سے موقف جاننے کے لیے جسارت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے چیف انجینئر الیکٹریکل شفیع چاچڑ سے را بط کرنے کی کوشش کی تا ہم انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔