(برآمدات بڑھانے کی حکومتی ناکام کوششیں (ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری

68

حکومت پاکستان کی معاشی کارکردگی ایک بڑا سیاہ دھبہ ، مسلسل گرتی ہوئی برآمدات ہیں اور بلند و بانگ دعوؤں اور بیانات کے باوجود برآمدات کی صورت حال میں بہتری نظر نہیں آرہی۔ حال ہی میں وزیر اعظم صاحب نے وزارت تجارت کو نظر انداز کرتے ہوئے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو یہ حکم جاری کیا کہ برآمد اور درآمد کنندگان کی کاغذی کارروائی کو آسان اور تیز تر بنانے کے لیے آن لائن طریقہ اختیار کیا جائے اور اس کے لیے نیشنل سنگل ونڈو (NSW) کا نظام واقع کیا جائے۔
وزیر اعظم اس سے پہلے جنوری میں برآمدات بڑھانے کے لیے ملک کے بڑے بڑے کاروباری لوگوں کے مشورے کے بعد 180ارب روپے کا ایک پیکیج کا اعلان کرچکے ہیں ۔ جس کے تحت جنوری 2017ء سے لے کر جولائی 2018ء تک برآمدکنندگان کو مختلف رعایتیں اور سہولتیں دی جائیں گی اور گارمنٹ پر 7 فی صد، پروسیس فیبرک پر 6فی صد، گرے فیبرک اور سوتی دھاگے پر 4فی صد ڈیوٹی ڈرابیک ادا کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ٹیکسٹائل کی مشینری کی درآمد پر کوئی درآمدی ٹیکس نہیں لاگو ہوگا۔
اسی طرح پچھلے سال بھی حکومت برآمدات بڑھانے کے لیے مختلف رعایتوں اور سہولتوں کا اعلان کرچکی ہے۔ جن میں 5اہم برآمدی شعبوں کے لیے درآمدی مشینری اور خام مال کو درآمدی ٹیکس سے استثنیٰ شامل ہے۔ اس سے پہلے حکومت صنعتی شعبے کو بجلی کی قیمتوں میں 3روپے یونٹ کم کرنے کا اعلان کرچکی ہے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ سال 2013-14ء میں برآمدات کا حجم جو25.11 ارب ڈالر تھا وہ گرتے گرتے 2015-16ء میں 20.78 ارب ڈالر ہو چکا ہے اور رواں مال سال یعنی 2016-17 کے شروع کے سات ماہ یعنی جولائی تا جنوری پاکستان کے برآمد کنندگان نے صرف 11.75 ارب ڈالر کا مال برآمد کیا ہے جو پچھلے سال کے سات ماہ کے مقابلے میں 3 فی صدکم ہے۔اس سے یہ اندیشہ ہے کہ 2016-17 کے اختتام پر برآمدات میں مزید کمی ہوگی۔
برآمدات کے معاملے میں پاکستان دوسرے ممالک سے کتنا پیچھے ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار (GDP) میں برآمدات کا حصہ ویتنام میں 90فی صد، بھارت میں 21فی صد، بنگلا دیش میں 17فی صد اور پاکستان میں 11فی صد ہے۔ برآمدات میں مسلسل کمی ان معاشی، کاروباری اور اقتصادی لاپرواہیوں، غیر ذمے داریوں اور مجرمانہ کوتاہیوں کا نتیجہ ہے جو پاکستان کی معیشت میں ایک عرصے سے جاری ہیں اور موجودہ حکومت بھی اس وقت ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے ۔ ورنہ حکومت کی تمام توجہ غیر ملکی قرضوں کے حصول، سی پیک کے منصوبوں اور نمائشی کاموں پر رہی ہے اب جب کہ برآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں اور تجارتی خسارہ بڑھتا جارہا ہے تو حکومت کو ہوش آیا ہے۔ لیکن ہوش بھی اس طرح آیا ہے کہ ایک طرف 180ارب روپے کے تجارتی پیکیج کا اعلان ہو رہا ہے جبکہ تجارتی برادری چیخ رہی ہے کہ ایف بی آر نے ڈھائی سو ارب روپے کے ریفنڈ ہمیں ادا کرنے ہیں جس کی وجہ سے برآمدی تاجر مالی بحران کا شکار ہیں ۔ ان کے پاس رقم نہیں کہ برآمدی آرڈر کا مال تیار کرسکیں ۔ اس طرف حکومت نے اب تک کا ن نہیں دھرا۔
حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے جو دبئی میں آئی ایم ایف سے مذاکرات ہوئے ہیں اس میں آئی ایم ایف نے برآمدات میں کمی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومتی ٹیم کو سنا دیا ہے کہ اگر برآمدات میں کمی کا یہی حال رہا تو معاشی ترقی کے دعوے بے بنیاد ثابت ہوں گے۔
پاکستانی برآمدات میں کمی کی کچھ اندرونی وجوہات ہیں اور کچھ بیرونی۔ اندرونی وجوہات تو وہ ہیں جن کا ذکر بار بار ہوا ہے۔ مثلاً پیداواری لاگت میں اضافہ ، بجلی کی قلت، امن و امان کا مسئلہ ، سرکاری اداروں کی نا اہلی اور کرپشن، طویل اور غیر ضروری کاغذی کارروائی بیرونی وجوہ یہ ہیں کہ پاکستانی مصنوعات جن ملکوں کو برآمد کی جاتی ہیں وہ زیادہ تر 2008کے مالی بحران کے بعد مندی کا شکار ہیں اور وہاں پاکستانی مال کی کھپت کم ہے اور دوسرے یہ کہ پاکستانی مال کی منڈیاں دوسرے ممالک نے اپنی سستی پیداوار کے باعث اپنے قبضے میں لے لی ہیں ۔ یہ وہ معاملات ہیں جو حکومتی عہدیداروں کے سامنے بارہا دہرائے جاچکے ہیں ۔ اب جب کہ تجارتی خسارہ بڑھ چکا ہے اور آئی ایم ایف نے بھی یہ بات حکومت کے سامنے رکھ دی ہے۔ اسی لیے حکومت کو برآمدات بڑھانے کے لیے ٹھوس اور ہمہ گیر منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ مثلاً برآمدی اشیاء میں جدت اور تنوع (dirarsi fication) پیدا کرنا ہوگی ہم ایک عرصے سے ٹیکسٹائل مصنوعات، چاول، چمڑا اور چمڑے کی مصنوعات وغیرہ بناتے رہے ہیں ۔ اس وقت چھوٹے چھوٹے ممالک کی برآمدات کا بڑا حصہ الیکٹرونک اشیاء، موبائل، لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر میں استعمال ہونے والا سامان اور سوفٹ ویئر پر مشتمل ہیں ۔ اس شعبہ پر توجہ دیے بغیر ہمارا برآمدی حجم نہیں بڑھ سکتا۔
دوسرے یہ کہ پاکستانی برآمدی مصنوعات کا بڑا حصہ خام اور بنیادی اشیاء پر مشتمل ہے۔ مثلاً سوتی دھاگہ، سوتی کپڑا، خام چمڑا اور چاول وغیرہ۔ خام اشیاء کو اعلیٰ معیار کی مصنوعات (Value addition)میں بدلنا ہوگا۔ مثلاً سوتی کپڑے کی جگہ اعلیٰ معیار کے ملبوسات ، چمڑے کی جگہ چمڑے کی مصنوعات، بیف، مٹن اور چکن کے گوشت کی جگہ منجمد گوشت کی مصنوعات ۔ صرف دہی کو لے لیں اس وقت دنیا میں دہی مختلف ذائقوں ، مختلف اقسام کی اشیاء اور مختلف پیکنگ میں فروخت کیا جارہا ہے۔ پاکستان کا کاروباری طبقہ ابھی تک ان جدید تقاضوں کو قبول نہیں کرسکتا ہے۔اس کے ذہن کو بدلنے کی ضرورت ہے۔
اس سے ملتی جلتی بات یہ ہے کہ حکومت ملک میں کاروباری فضا کو بدلے اور پڑھے لکھے لوگ جو نئے خیالات کے ساتھ جدید اشیاء کا کاروبار کرنا چاہیں ان کے لیے سازگار کاروباری حالات پیدا کیے جائیں ۔ دنیا میں نئے کاروباری لوگوں نے جدید اشیاء کو تیار کر کے ملکی برآمدات میں بہت اضافہ کیا ہے۔ لیکن اس کے لیے سرکاری اداروں کا تعاون بہت ضروری ہے۔ پرانے خاندانی کاروباری لوگوں کا جدید رجحانات اور جدید تقاضوں کے مطابق کاروبار کرنا بہت مشکل ہے۔
دیکھتے ہیں موجودہ حکومت کی باقی رہ جانے والی مدت میں ملکی برآمدات کیا شکل اختیار کرتی ہیں۔