(تاجر خود پر بھروسہ کریں‘ سی پیک گیم چینجر ثابت ہوگا (شمیم احمد فرپو

200

وال: کچھ تفصیل بتائیے کہ مائی کراچی ایونٹ کا آغاز کب اور کس طرح ہوا؟
جواب: 2003-4ء میں جب سراج قاسم تیلی کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر بنے تو اس وقت کراچی کے حالات بہت خراب تھے، جگہ جگہ بم پھٹتے تھے، ہڑتالیں ہوتی تھیں، لڑائی جھگڑے ہوتے تھے جس کی وجہ سے مغربی میڈیا نے باہر ہمارا منفی تاثر پیدا کر دیا تھا تو اس وقت سراج قاسم تیلی نے یہ خیال پیش کیا۔ اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز نے کہا کہ کوئی ایسا پروگرام کریں کہ جس سے کراچی کے بارے میں مثبت تاثر ابھر کر سامنے آئے کہ یہاں پر صرف بم نہیں پھٹتے یا قتل نہیں ہوتے بلکہ اس طرح کی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں تو اس وقت سراج قاسم تیلی نے او ایس ایس ہارمنی کے نام سے ’’مائی کراچی‘‘ شروع کیا تھا اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ متواتر یہ 14 واں پروگرام ہو گا جو ایکسپو سینٹر کراچی میں ہر سال ہوتا ہے اور اس کا افتتاح جو بھی وزیر اعلیٰ اور گورنر ہوتے ہیں وہ کرتے ہیں، اس مرتبہ بھی اس ایونٹ کا وزیر اعلیٰ افتتاح کریں گے اور اختتامی تقریب میں گورنر سندھ آئیں گے۔ گزشتہ سال ایک ملین سے زائد لوگوں نے اس میں شرکت کی تھی۔ اس میں داخلہ مکمل مفت ہوتا ہے، اس کے علاوہ کمپنیوں کی جانب سے سبسڈی ریٹ پر چیزیں بھی سیل کی جاتی ہیں، اس میں اسپاٹ سیل کی اجازت ہے۔ یہ ایونٹ انٹرنیشنل بھی اس لیے بن جاتا ہے کہ اس میں دوسرے ممالک بھی آتے ہیں، اس مرتبہ بھی ہمارے پاس انڈونیشیا ہے، تھائی لینڈ ہے، چائنا بھی ہے اور دوسرے مختلف ممالک بھی ہیں اور ہمارے پاس ڈپلومیٹس کے اسٹالز بھی ہیں اور یہاں بہت رونق ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ہم نے باہر اس میں پیٹس شو رکھا ہوا ہے، فلاور شو رکھا ہوا ہے، بہت ہی جدید قسم کا فوڈ کورٹ ہے، کچھ رائڈز ہیں، کچھ اینیمل شوز ہیں۔
سوال: فوڈ کورٹ کے بارے میں کچھ بتائیں؟
جواب: اس مرتبہ ہم نے بالکل نئے اسٹائل میں فوڈ کورٹ ڈیزائن کیا ہے اور ان شاء اللہ جب آپ دیکھیں گے کے اس کے اندر تو لوگ بڑا انجوائے کریں گے۔ اسی طرح سے ایکسپو کے چھ کے چھ ہال ہم نے بک کیے ہوئے ہیں اور اب ہمیں وہ چھ ہال بھی کم پڑتے ہیں تو ہم تجویز دی ہے کہ اگلی مرتبہ کے لیے آپ کم از کم دو ہال اور اس کے اندر بڑھائیں تاکہ اضافی سرگرمیاں اس میں ہو سکیں، لوگ ہم سے جگہ مانگ رہے ہیں اور ہمارے پاس اب جگہ نہیں ہے۔ ہم ایسا نہیں چاہتے کہ اس کو اتنا کلوز کر دیں کہ لوگوں کو تکلیف ہو اسی وجہ سے ہم نے اس میں کھلی راہداریاں بھی چھوڑی ہیں اور اچھے اسٹال بنائے ہیں۔ ان شاء اللہ تمام سالوں کی نسبت یہ سال سب سے اچھا ہوگا اس لیے کہ ہر صدر کی کوشش ہوتی ہے کہ میرے دور میں پچھلے سے اچھا ہو اور یہی کوشش میری بھی ہے کہ یہ والا ایونٹ زیادہ اچھا اور زیادہ کام یاب ہوگا۔
اصل میں بات یہ ہے کہ ہمیں تو دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا اور سفری ہدایات ہوتی تھیں کہ پاکستان کوئی نہ جائے لیکن ہم شکر گزار ہیں اللہ کے سب سے پہلے اور پھر اس کے بعد چائنا کے کہ چائنا نے جو سی پیک کے منصوبے کا یہاں اعلان کیا تو لوگ تو کہتے ہیں کہ سی پیک؂ ایک گیم چینجر ہوگا، میں یہ کہتا ہوں کہ پہلے ہی ہوگیا ہے کیوں کہ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جیسے ہی یہ سی پیک اناؤنس ہوا تو ہمارا پرسپشن چینج ہو گیا، ہمارا جو منفی تاثر ان لوگوں نے بنایا ہوا تھا وہ مثبت تاثر میں تبدیل ہو گیا۔
سوال: کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہے کہ یہ اچھا نہیں ہوا؟
جواب: جہاں تک کچھ لوگ کا تعلق ہوتا ہے وہ تو کبھی بھی سو فی صد کسی بھی چیز سے اتفاق نہیں کرتے اور وہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کچھ لوگ خراب کرتے ہیں ان سارے معاملات کو۔ میں سمجھتا ہوں کہ سی پیک ایک بڑا اچھا منصوبہ ہے، اپنے قوت بازو پر بھروسہ کرنا چاہیے، کسی چیز سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔ میں بار بار کہتا ہوں کہ ایک در بند ہوتا ہے تو ستر در کھلتے ہیں۔ دیکھیں میں آپ کو پھر بتادوں کہ لوگ اس معاملے میں تھوڑے سے خوف زدہ یوں ہیں کہ وہ بھی کچھ لوگ، سب لوگ نہیں، کہ چائنا آئے گا، چائنا کے پاس سامان ویسے ہی سستا ہوتا ہے اور ان کوراہ داری مل جائے گی تو اس کے بعد اور سستا ہو جائے گا تو ہماری انڈسٹری بند ہو جائے گی، ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں خود صنعت کار ہوں لیکن مجھے کوئی خوف نہیں ہے۔ میں آپ سے بہ بانگ دہل کہہ رہا ہوں کہ اگر بالفرض محال کوئی سامنے آتا بھی ہے تو وہ چیزیں بناتا ہے تو اس کی بھی کچھ نہ کچھ تو لاگت آتی ہے، اس سے ہمیں اس کی گہرائی میں اترنے کا موقع ملے گا، جب کمپیٹیشن ہوتا ہے اور جب تک کمپیٹیشن نہیں ہوتا آدمی اس کی گہرائی میں نہیں اترتا۔
سوال: ہمارے یہاں کون سا ایسا سیکٹر ہے جو پوری دنیا میں گروتھ کر سکتا ہے، بزنس کر سکتا ہے، وہ شاید ٹیکسٹائل ہے، اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: دیکھیں بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ آئٹم تو ایسے ہیں جو شروع سے چلے آ رہے ہیں ان میں ٹیکسٹائل ہے، لیدر ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ کو ایکسپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے تو ہمیں مزید سیکٹروں پر جانا ہوگا۔ دنیا میں بے شمار چیزوں کی ضرورت ہے صرف لیدر کی، ہوم ٹیکسٹائل کی یا ٹیکسٹائل کی ضرورت نہیں ہے، دنیا میں ضرورت دوسری چیزوں کی بھی ہے۔ اب ہمارے پاس فرٹیلائزر ہے، ہم ایک زرعی ملک بھی ہیں، ہمارے پاس سے چاول بہت زیادہ برآمد ہوتا تھا، اب دوسرے ممالک بھی اس میں کافی آگے آ گئے ہیں۔ ہمیں اصل میں کاسٹ آف ڈرنک بزنس کم کرنا ہوگا تو ہماری ایکسپورٹ بے انتہا بڑھ جائے گی۔ ریجن کے اندر ہمیں دیکھنا چاہیے کہ بجلی کے ریٹ ہمارے پڑوسی ملک میں کیا ہیں؟ سری لنکا میں کیا ہیں؟ بنگلہ دیش میں کیا ہیں؟
سوال: ہم ایک طرف بات کرتے ہیں کاسٹ آف ڈرنک کی اور پھر بھارت سے تجارت شروع کر دیتے ہیں، ادھر سے چیزیں آ جاتی ہیں اور ہماری چیزیں مارکیٹ نہیں کرپاتیں؟
جواب: میں وہی عرض کر رہا ہوں کہ اپنے یہاں کاسٹ آف ڈرنک بزنس کم کرنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم نے انڈیا سے مقابلہ کرنا ہے تو انڈیا کے مطابق ہمیں اپنے بجلی کے ریٹ لانے ہوں گے، انہی کے حساب سے پانی کے ریٹ رکھنے ہوں گے، اسی کے حساب گیس کے ریٹ رکھنے ہوں گے۔
سوال: کراچی میں تو کے۔ الیکٹرک کا مسئلہ ہے اس نے تو بڑی تباہی مچائی ہوئی ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: اصل میں وجہ یہ ہے کہ یہ تو مونو پلائز کر کے بیٹھ گئے ہیں اس میں بھی کمپیٹیشن ہونا چاہیے، بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں یہاں کم از کم چار ہونی چاہئیں۔ دنیا کے دوسرے ملکوں میں دیکھیں کہ ایک ایک شہر میں کئی کئی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہوتی ہیں اور اس کے بعد ان میں مقابلہ بازی ہوتی ہے۔ اب یہاں پر چوں کہ ایک ہی کمپنی کو دیا ہوا ہے سارا ٹھیکہ تو وہ اس کی مونو پلائزیشن ہو گئی ہے۔ آپ کہتے بھی ہیں کہ ساڑھے تین روپے کم کردو یونٹ پر اعلان کرتے ہیں، یہ کہتے ہیں کہ ہم کم نہیں کریں گے۔ یہاں عدالتی احکامات کو نہیں مانا جا رہا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے جان چھڑانی چاہیے، مزید معاہدے نہیں کرنے چاہئیں بلکہ اس کے اندر ان کو سیدھی راہ پر لانے کے لیے دیکھیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟
سوال: عوام کو بھی شکایت ہے، آپ لوگوں کو بھی شکایت ہے لیکن جب کوئی سرگرمی ہوتی ہے جیسے ابھی دھرنا ہوا، گرفتاریاں ہوئیں، گولی چلی لیکن بزنس کمیونٹی کا کوئی کردار نظر نہیں آتا، کوئی آواز بلند نہیں ہوتی؟
جواب: دیکھیں بزنس مین جو ہوتا ہے وہ سب سے زیادہ امن پسند شہری ہوتا ہے وہ تو نہیں چاہتا کہ کسی بھی قسم کی کوئی بدمزگی پھیلے۔ کوئی ہڑتال ہو یا کچھ اور ہو جس سے کہ انڈسٹری بند ہو یا بازار بند ہوں، اس کے تو ہم مکمل خلاف ہیں لیکن ہاں اب ایسا لگ رہا ہے کہ ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے اور خاص طور سے جس طرح سے ایف بی آر کو کھلی چھوٹ دے دی ہے اور ٹیکسیشن میں انہوں نے ایک عجیب اندھیر نگری مچا رکھی ہے کہ اختیارات نچلی سطح پر دے دیے ہیں اور وہ پھر بغیر کسی نوٹس کے فیکٹریوں پر چھاپے مارتے ہیں اور پھر گرفتاریاں بھی کرتے ہیں، اکاؤنٹس سیز کر دیتے ہیں۔ بزنس کمیونٹی اب اس بات پر سوچ رہی ہے کہ ہم ایک آواز ہو کر حکومت وقت سے بات کریں اور اس کے بعد بتائیں کہ ہماری یہ گری وینسز ہیں۔
سوال: کچھ لوگ ان کے ساتھ بھی توہیں؟
جواب: جی ہاں! یہ بات تو ہے کہ ہمیں تقسیم کر دیا گیا ہے کچھ تو ان کی جی حضوری میں لگے رہتے ہیں اور جی حضوری والے پھر تمغے بھی لیتے رہتے ہیں، اپنے ذاتی مفادات بھی حاصل کرتے ہیں، تصویریں بھی کھنچواتے ہیں، ہمارا رنگ ان سے ان سے مختلف ہے۔ کراچی چیمبر نے کبھی بھی اس قسم کی کوئی چیز نہیں کی بلکہ کراچی چیمبر تو تمام بڑے چیمبرز کو ملانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ہم سب مل کے اپنے معاملات کو ایشوز کے طور پر آ گے رکھیں۔
سوال: مائی کراچی ایونٹ میں آپ کیا سمجھتے ہیں کہ میڈیا کو کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟
جواب: اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ میڈیا بہت پاور فل پلر ہے اور ان کے ذریعے لوگوں تک پیغامات بھی پہنچتے ہیں اور خبریں بھی پہنچتی ہیں، وہی جس کو چاہیں جگا دیں اور جس کو چاہیں سلا دیں کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس کے اندر ان کا کردار بہت اہم ہے اور ہم نے بہر صورت ان کو اپنے فولڈ میں لیا ہوا ہے کہ اس میں سب الحمدللہ ہمارے ساتھ ہیں لیکن جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے میں ان سے یہ کہتا ہوں کہ مثبت انداز میں اس کی طرف آئیں، منفی انداز ختم کریں کیوں کہ منفی خبریں دے کر لوگوں کے دل پژمردہ ہو گئے ہیں لیکن اب اگر آپ تھوڑا سا مثبت انداز لے کر آئیں اس کے اندر کیوں کہ سوفی صد کام برے بھی نہیں ہوتے اور سو فی صد کام اچھے بھی نہیں ہوتے تو جو کام اچھے ہیں ان کو زیادہ وقت دیں ان کو دکھائیں تاکہ لوگوں کے اندر ایک امید پیدا ہو۔ لوگوں کے دلوں سے امید ختم ہو گئی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں تو ہر چیز منفی ہے اور جو بھی ہے وہ بس ملک کے خلاف ہے۔
سوال آپ کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جو کام آپ نے شروع کیا ہے اس میں دیگر لوگوں کی کیا ذمے داریاں ہیں اور وہ کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟
جواب: دیکھیے بہت سارے چینل ہمارے پروگرام کی براہ راست کوریج کریں گے، براہ راست اسے ہر سال دکھاتے ہیں۔ ہم آپ سے بھی یہی کہیں گے کہ آپ آئیں اور لوگوں کو دکھائیں کہ آپ جو کہتے ہیں کہ اس شہر میں کوئی سرگرمی نہیں ہوتی، دیکھیں اس شہر میں یہ پروگرام ہو رہا ہے اور لوگ کس طرح جوق در جوق اپنی فیملی کو لے کر آتے ہیں، کس طرح وہاں پر خریداری کرتے ہیں؟ کس طرح آزادانہ وہاں پر گھومتے ہیں؟ وہاں پر یہ ساری چیزیں آپ کو دکھانی چاہئیں۔ ہمیں اس میں باقی میڈیا کا بھی تعاون حاصل ہے اور جسارت سے بھی یہی چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس طرح کا تعاون کریں۔