راحیل شریف بمقابلہ راحیل شریف

188

وفاداری اور انسیت نام ہی اس بات کا ہے کہ جب موقع ملے اپنے آئیڈیل کی تعریف کردی جائے۔ لیکن ضروری نہیں کہ آئیڈیل ایک ہی ہو زندگی میں آئیڈیل کی تبدیلی ’’آئیڈیل لائف‘‘ کے لیے ضروری ہے۔ زندگی گزارنے کے طور طریقے بھلا جرنیل کے گھر میں پیدا ہونے والوں سے زیادہ اور کون جانتا ہوگا۔ جنرل ریٹائرڈ غلام عمر مرحوم کے صاحب زادے فوج کے اصول، تعلیم و تربیت سے کس حد تک واقف ہیں اس کا اندازہ کم ازکم دو بھائیوں اسد عمر اور زبیر عمر کی سیاست میں اپنی اپنی جماعتوں کے ’’لیفٹیننٹ جرنیل‘‘ کے مساوی عہدوں کی صف میں موجود رہنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ فوج سمیت تمام سرکاری ملازمتوں میں باس کے نقشے قدم پر چلنے والے کو مستقبل کا باس تصور کیا جاتا ہے۔ مگر یہ اندازہ لگانا مشکل ہورہا ہے کہ ’’اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر سیاسی چالیں چلنے والی جماعت میں رہنے کے باوجود اپنا باس اسے کیوں اور کیسے تصور کیا جارہا ہے جو پارٹی کا سربراہ ہو؟ شاید یہ بھی فوجی گھرانے کی تربیت کا اثر ہو۔! جنرل عمر کے صاحب زادے زبیر عمر نے گورنر بننے سے قبل ایک ٹی وی ٹاک شو میں ایک سوال کے جواب میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ ’’جنرل راحیل شریف سرکاری ملازم ہیں اور نواز شریف باس ہیں‘‘۔ اسی طرح ایک اور ٹی وی شو میں غلام عمرکے صاحب زادے نے اپنے لیڈر نوازشریف کے اچانک لندن جانے پر ان کا دفاع اس طرح کیا تھا کہ ان کا لہجہ ان کے الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ گورنر بننے کے بعد جب انہوں نے پہلی بار اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کی تو کہا کہ ’’کراچی آپریشن کی کامیابی کا 100 فی صد کریڈٹ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو جاتا ہے‘‘۔ سابق آرمی چیف راحیل شریف کا حوالہ دیتے ہوئے جلے کٹے انداز میں کہا کہ ’’میں یہ نہیں کہتا کہ کراچی آپریشن کی کامیابی میں راحیل شریف کا کوئی کردار نہیں تھا لیکن میڈیا ہر چیز کا کریڈٹ راحیل شریف کو دے دیتا ہے‘‘۔ انہوں نے مزید کہاکہ ’’ایسا لگتا ہے کہ: جیسے علامہ اقبال نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا اسی طرح راحیل شریف نے کراچی کو ٹھیک کرنے کا خواب دیکھا تھا‘‘۔ گورنر محمد زبیر نے اس حوالے سے مزید بھڑاس نکالی اور بولے کہ ’’کریڈٹ اسے دینا چاہیے جو اس کا مستحق ہو اور کراچی آپریشن کی کامیابی کے سب سے زیادہ ’’مستحق‘‘ نواز شریف ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ راحیل شریف کو اتنا بڑھا چڑھا دیا کہ جب وہ اپنے حق کی زمین لینے لگے تو سب نے کہا کہ راحیل شریف زمین لے رہے ہیں، راحیل شریف بھی دیگر جرنیلوں کی طرح ایک نارمل جنرل تھے۔
حیرت ہے کہ ایک سابق جنرل کا بیٹا، ایک ریٹائرڈ ہونے والے جنرل کے حوالے سے اس طرح کے خیالات رکھتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ گورنر سندھ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے گورنر ہاؤس کے عملے کو ہدایت کی کہ ان کے نام کے ہجے ’’محمد زبیر‘‘ کے طور پر کیے جائیں۔ گوکہ انہوں نے اپنے والد جنرل غلام عمر کے نام کو اپنے بھائی اسد عمر کی طرح ساتھ لگانا مناسب نہیں سمجھا۔ کیوں؟ اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں، یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔
گورنر محمد زبیر کا کہنا تھا کہ ’’ماضی میں بھی کراچی میں رینجرز، فوج، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم موجود تھیں لیکن ایک چیز جو موجود نہیں تھی وہ وزیراعظم نواز شریف کی شخصیت تھی‘‘۔ ممکن ہو کہ اس وقت میاں نواز شریف اپنی مسجد کے امام طاہر القادری کی طرح عالم رویا میں ہوں۔ ویسے بھی یہ بات اس زمانے کی ہے جب محمد زبیر شعبہ بزنس میں ہوں گے یا بزنس کے طالب علم ہوں گے۔
لگے ہاتھوں محمد زبیر نے’’اندر کی بات‘‘ کا بھی ذکر کردیا اور کہا کہ ’’انہوں نے ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ کو واضح احکامات دے رکھے ہیں کہ چاہے جو بھی گرفتار ہو میرے پاس نہ آئیں میں کسی کو فیور نہیں دوں گا چاہے اس کا تعلق ن لیگ سے ہو یا ایم کیو ایم سے یا کسی اور جماعت سے‘‘۔ سنا ہے سیاست دان اور حکمران عموماً سرعام وہ باتیں کرتے ہیں جس کا مطلب الٹا ہو تا ہو۔ تاہم یہ نہیں معلوم کہ ان کی بات کا کیا مطلب تھا، بس یہ واضح ہوسکا کہ یہ بات صرف ’’ڈی جی رینجرز اور آئی جی سندھ‘‘ کو سنانے کے لیے کی گئی تھی۔
گورنر نے اپنی خواہش کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ’’جب تک 100 فی صد اہداف حاصل نہیں ہوتے کراچی آپریشن جاری رہے گا جب کہ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 1985 کے بعد سے کراچی کا جو حال ہوا اب وہ دوبارہ کبھی نہیں ہوسکے گا‘‘۔ گورنر سندھ محمد زبیر نے متحدہ قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قائد متحدہ 2004 میں نئی دہلی گئے اور انہوں نے وہاں جو تقریر کی وہ زیادہ نقصان دہ تھی۔ انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم اس وقت جنرل مشرف کی حکومت میں اتحادی تھی جب الطاف حسین نے نئی دہلی میں تقریر کی۔
گورنر زبیر غلام عمر کی باتیں سن کر لوگ سوچنے پر مجبور ہوں گے کہ انسان کو کتنی بھی عزت ملے، کتنی بھی شہرت ملے مگر وہ مزید کے چکر میں اس قدر جذباتی ہوتا ہے کہ وہ اس کے حصول کے لیے کچھ بھی ’’چھوڑ‘‘ سکتا ہے اور کسی کو بھی ’’باپ‘‘ بنا سکتا ہے۔ محمد زبیر آپ کا تو شکریہ کہ آپ نے صرف دبے الفاظ میں جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کا ’’نارمل‘‘ اور نوازشریف کو ’’انوکھا‘‘ آدمی قرار دیا۔ ورنہ ’’غیر معمولی‘‘ کرپٹ سیاست دانوں کی محبت میں لوگ تو بہت کچھ کہہ دیا اور کردیا کرتے ہیں۔