سانحہ سرگودھا(افشاں نوید)

94

چاہے جہاز کریش ہو یا دو ٹرینیں آپس میں ٹکرا جائیں، بس گہری کھائی میں گرپڑے یا ٹرالر کسی گاڑی کو کچل دے، بم بلاسٹ ہو، پارہ چنار میں انسانی خون بہے، یا شام کے شہر ادلب میں خون بہائے بغیر ہی کلورین گیس کے ذریعے درجنوں زندگیوں کے چراغ گل کردیے جائیں۔۔۔ اب یہ معمول کی خبریں ہیں۔ ہاں ایک سوال ضرور ہر ذہن میں اور زبان پر آتا ہے کہ ’’اوہ! کتنے لوگ مرے؟‘‘ اور تعداد سن کر ’’برا ہو، کتنے ظالم ہیں لوگ، کیسی ناقدری ہے انسانی جانوں کی، اللہ رحم کرے۔ کچھ نہیں ہمارے اعمال کا صلہ ہے۔ ارے کیا ملا بدبختوں کو‘‘ وغیرہ وغیرہ کہہ کر ہم آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ٹی وی ہو، سوشل میڈیا ہو، یا اخبار میں خبر چھپے (اب تو ای پیپر کی اشاعت کے بعد اخبار پڑھنے والے بچے ہی کتنے ہیں۔۔۔؟ اب تو اخبار بھی اسکرین پر دیکھا جاتا ہے) تھوڑی دیر افسوس کرکے ہم اگلے سانحے تک اپنے کاموں میں مگن ہوجاتے ہیں۔ ان روز روز کے حادثات و سانحات نے ہمیں نفسیاتی اور اعصابی طور پر شاید بہت مضبوط بنادیا ہے، یا دوسرے لفظوں میں ’’بے حس‘‘ کہ اب رکنا، ٹھیرنا، جائزہ، تجزیہ، آئندہ کے لیے محتاط اقدامات وغیرہ نہ لوگوں کے بس کی بات ہے، نہ حکومت کی۔۔۔!!اب بیس کروڑ کی آبادی میں پندرہ بیس لوگ جو بے چارے مرید تھے، اپنے پیر کے ہاتھوں قتل ہوگئے تو اتنی بڑی کیا قیامت آگئی کہ امورِ مملکت ہی ٹھپ ہوجائیں۔۔۔!!! شکر ہے بم بلاسٹ نہیں ہوا، بے دردی سے پے در پے فائر کرکے ہلاک نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ پیر صاحب کے پاس جدید ہتھیار نہیں ہوں گے، اس لیے معصومانہ طریقے سے چھریوں، ڈنڈوں اور چاقوؤں کے وار کیے۔ فائرنگ ہوتی تو کوئی بھی نہ بچتا۔ وہ تو چھریوں اور چاقوؤں کی واردات تھی، سو ایک زخمی عورت بھاگ کھڑی ہوئی اور واویلا کرکے اہلِ محلہ کو متوجہ کردیا۔۔۔! جان سے جانے والے بے چارے زندگی میں مریدی کا عذاب جھیلتے رہے اور وقتِ مرگ چھریوں، چاقوؤں کے وار۔ اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے اور لواحقین کو صبر عطا فرمائے۔ (آمین)
خوشی اور آسودگی کی خبر تو یہ ہے کہ حسبِ معمول وزیراعلیٰ پنجاب نے سرگودھا کے مضافاتی علاقے چک نمبر 95 شمالی میں واقع درگاہ ’’دربار محمد علی‘‘ میں عبدالوحید نامی پیر کے ہاتھوں ہونے والے دہشت گردی کے اس واقعے کا ’’بروقت‘‘ نوٹس لے لیا ہے۔ اس سے بھی بڑی بات یہ کہ آر پی او کی سربراہی میں حسبِ معمول ایک ’’کمیٹی‘‘ بھی تشکیل دے دی ہے، اور صرف کمیٹی ہی تشکیل نہیں دی بلکہ اس کو چوبیس گھنٹوں میں ’’رپورٹ پیش‘‘ کرنے کا حکم بھی صادر فرمایا ہے (آپ خوامخواہ اس الجھن میں نہ پڑجایئے گا کہ اب تک کتنی کمیٹیوں کی رپورٹیں منظرعام پر آئیں اور ان پر کیا کیا اقدامات ہوئے)۔ وزیر اوقاف کو سرگودھا طلب کرلیا گیا ہے۔ اس سے زیادہ توقعات تو پھر ’’ظلم‘‘ کے زمرے میں آجائیں گی کہ ہم کتنا ظلم کرتے ہیں کہ حکومت سے اتنی زیادہ توقعات وابستہ کرلیتے ہیں!! سوچنے کی بات ہے کتنا بوجھ پڑا حکومتی خزانے پر۔۔۔ مرنے والوں کو پانچ پانچ لاکھ اور زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کردیا ہے (کتنی بری بات ہے آپ کی یہ سوچ کہ انسانی جانوں کی قیمت کوئی چند لاکھ روپے ہے؟) اجتماعی طور پر اس سے زیادہ کیا کیا جاسکتا ہے۔۔۔!!! ارے آپ کی معلومات میں اضافہ کردیں کہ اوقاف کے وزیر یہ کہہ کر بری الذمہ ہوچکے ہیں کہ وہ مزار اوقاف کی تحویل میں نہیں تھا۔۔۔!!! جیسے قتل کی کوئی لرزہ خیز واردات ہوجاتی ہے تو پولیس اسٹیشن ناپ تول کرکے بری الذمہ ہوجاتا ہے کہ وہ علاقہ اس پولیس اسٹیشن کی حدود میں تھا ہی نہیں۔ بلکہ ہم نے تو ماضی میں پولیس اسٹیشنوں کو بھی باہم دست و گریباں دیکھا ہے کہ وہ علاقہ میری حدود میں تھا کہ تیری۔۔۔؟؟ اب لوگ کہہ رہے ہیں کہ مزار پر نشہ آور چیزیں فروخت ہوتی تھیں۔ محلے کے لوگوں نے یہاں تک بیانات دیے کہ طویل عرصے سے وہ درگاہ کے اندر سے چیخ و پکار کی آوازیں سنا کرتے تھے۔ بالکل درست کہا، کیونکہ قاتل متولی صاحب کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ گناہوں سے پاک کرنے کے لیے مریدین کی دھنائی کیا کرتے تھے۔ ہم نے بارہا ٹی وی پر یہ مناظر دیکھے ہیں کہ جنوں کو بھگانے کے لیے اہلِ جن کی ٹھکائی کی جارہی ہے۔ جس پر جن سوار ہے ایک تو اس نے جن کی سواری کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے، دوسرے چپلوں سے مار کی ضربیں بھی وہی برداشت کررہا ہے۔ مرید بے چارے تو مرید ہیں، وہ پیر سے آگے کیسے سوچ سکتے ہیں، اور اگر سوچ لیتے تو مرید ہی کیوں رہتے۔۔۔؟
پولیس کے لیے سو (100) شاباش کہ اس نے قاتل پکڑ لیے۔ اب پولیس سے یہ پوچھنا بری سی بات ہے کہ پولیس کی ناک کے نیچے کن کن درگاہوں میں کیا کیا ہورہا ہے، اس کی آنکھیں کیوں بند ہیں۔۔۔؟؟
اب پیر صاحب اگر بااثر فرد ہیں تو یہ کہہ کر بھی ضمانت ہوسکتی ہے کہ بے چارے نفسیاتی مریض ہیں۔ اس لیے کہ ایک معمولی عقل کے آدمی سے بھی اتنی لرزہ خیز واردات کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اب ہم کوئی یورپ کا متمدن ملک تو ہیں نہیں کہ ملزم کا نفسیاتی تجزیہ کیا جائے۔ اس کی کیس ہسٹری کا موازنہ ان لوگوں کی کیس ہسٹری سے کیا جائے جو ماقبل اس طرح کی وارداتیں کرچکے ہوں۔ کوئی ٹھوس تحقیق ہو کہ سماج میں اتنے خطرناک کردار تشکیل کیسے پاتے ہیں اور واردات کے بعد کیوں منظرعام پر آتے ہیں؟ کیا اس سے قبل ان سے ایسی کسی بھی حرکت کا ظہور نہیں ہوا ہوگا کہ اہلِ خانہ نے ان کے علاج معالجہ یا سائیکو تھراپی پر توجہ دی ہو۔۔۔؟ اطلاعات کے مطابق تو ملزم کے پانچ بچے ہیں جو مختلف تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم ہیں۔ پھر مقتول خود بھی تعلیم یافتہ اور الیکشن کمیشن میں ذمہ دار عہدے پر فائز رہ چکا ہے۔ اس طرح کی وارداتیں معاشروں کے لیے ٹیسٹ کیس ہوتی ہیں۔ کیا محض ملزم کو گرفتار کرلینے، تحقیقاتی ٹیم بنادینے اور مالی امداد کردینے سے ایسی وارداتوں کا سدباب کیا جا سکتا ہے؟
بیس جیتے جاگتے آدمی بے رحمی کے ساتھ ڈنڈوں، چھریوں کے وار سے موت کی نیند سلا دیے گئے۔ کسی اور ملک میں ماہرین نفسیات سر جوڑ کر بیٹھتے، ماہرینِ عمرانیات اس واردات کو اپنی تحقیق کا موضوع بناتے، اس پر ٹاک شوز ہوتے، ہر ہر پہلو سے سماج کو اس کے مضر اثرات سے بچانے کی تدابیر ہوتیں۔۔۔ سب سے اہم بات یہ کہ مزارات اور درگاہوں کا سروے کیا جائے۔ ’’مدارس‘‘ کے لیے تو حکومت اتنی سنجیدہ ہے کہ مدارس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ اتنی چھان بین، اتنا ڈیٹا اکٹھا کرنا، ان کی آمدنیوں کے ذرائع معلوم کرنا، ایک ایک فرد کے کوائف اکٹھے کرنا۔۔۔ جبکہ درگاہوں پر پے درپے ہونے والے واقعات اس بات کے متقاضی ہیں کہ اس حوالے سے سنجیدہ اقدام کیے جاتے۔ کن کن بزرگوں کے مزارات کہاں کہاں واقع ہیں اور کہاں کہاں درگاہیں محض آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ نیز یہ کہ ان جگہوں پر کیا کیا خلافِ شریعت ہوتا ہے۔ ان کے منتظمین خود کتنے تعلیم یافتہ اور شریعت کے پابند ہیں۔ نیز تقرریوں کا طریقہ کار کیا ہے۔ آخر کسی مذہبی تشخص کے ادارے کے لیے کوئی تو اہلیت ہو منصب پر تعیناتی کی۔یہ بات کس سے ڈھکی چھپی ہے کہ پیری مریدی کی آڑ میں جعل سازی اور مکر وفریب کے کتنے بھیانک دھندے ہمارے معاشرے میں کیے جا رہے ہیں! ہر عامل اور جادوگر یہاں ’’پروفیسر‘‘ کہتا ہے خود کو۔ یہ جعلی عالم اور جادوگر کوئی چوری چھپے مذموم کاروبار نہیں کررہے۔ شہر کی دیواریں چیخ چیخ کر سب کچھ بتا رہی ہوتی ہیں کہ کہاں کس کا دھندہ ہے؟ ٹی وی کے مختلف چینلز نے بارہا بے نقاب کیا ہے ان مکروہ دھندوں کو۔۔۔ مگر جوں کس کے کان پر رینگے؟ استحصال ہورہا ہے تو بے چارے سادہ لوح لوگوں کا۔ کبھی وہ دھمال ڈالتے ہوئے بم بلاسٹ کا شکار ہوجاتے ہیں، تو کبھی اپنے ہی پیر کے ہاتھوں ذبح ہوجاتے ہیں۔ قانون بے بس ہے۔ ریاست کی رٹ کہیں نظر نہیں آتی۔۔۔!
ذرائع ابلاغ عوامی شعور و آگہی کے لیے بھرپور کردار ادا کرسکتے تھے۔ لوگ دین کی صحیح روح سے آشنا ہوں تو کیوں اپنے مال اور ایمان کا سودا کریں! مگر ذرائع ابلاغ کے لیے یہ ’’ریٹنگ‘‘ کو بڑھانے والے عنوانات ہی نہیں ہیں۔ یہ معمولی خبر تو نشر ہونے کے بعد ’’ٹکرز‘‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے اور ایک آدھ دن بعد جیسے پچھلے دن کا اخبار ردی میں چلا گیا اسی طرح یہ خبریں ہمارے دماغوں کے کوڑے دان میں چلی جاتی ہیں۔ ہمارے ٹی وی چینلز کو تو یہ خبریں حصار میں رکھتی ہیں کہ مولانا (معاف کیجیے گا) ڈاکٹر طاہرالقادری کب واپس آرہے ہیں؟ کہاں کب خطاب کریں گے؟ عمران خان کے جلسے میں کتنی کرسیاں لگ چکی ہیں؟ قطری شہزادے کی چٹھی موصول ہوئی کہ نہیں؟ پانامہ کے صحراؤں کی خاک سے دیانت کی کتنی سوئیاں برآمد ہوئیں؟ وہ تو خیر سے لندن کی لوریوں پر پابندی لگ گئی ورنہ ساری ساری رات قوم نے اس نشے میں بھی گزاری ہے۔ اور نشہ تو پاکستان سپرلیگ کا بھی خوب سر چڑھ کر بولا کہ قوم پانامہ کو بھول گئی۔ وزیراعظم کے گردے میں کتنی پتھریاں ہیں اور پیپلز پارٹی کا اگلا وزیراعظم بلاول چیف منسٹر ہاؤس میں کیسا لگے گا، عمران خان نے کے پی کے میں اتنے کروڑ درخت لگوائے ہیں کہ غلط بیانی کررہے ہیں؟ اور اب تو قوم ان حروفِ تہجی میں الجھا دی گئی کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کس کی آنکھ کا نور ہیں اور کس کا شہتیر۔۔۔!
انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں مگر میڈیا کا پاکستان دوسرا ہی ہے، جس کا اہم ترین مسئلہ کبھی آئی جی سندھ بن جاتے ہیں، کبھی حسین حقانی کا بیان، کبھی زرداری کا استقبال، کبھی سندھ میں نوازشریف کا جلسہ اور کبھی زرداری کا پنجاب میں ٹاکرا۔۔۔ قوم کو نفسیاتی امراض میں دھکیلا جا رہا ہے۔ 10 سے 12 گھنٹے لوڈشیڈنگ برداشت کرتی ہوئی قوم کا مسئلہ آئی جی کی تعیناتی کو بنا دیا جاتا ہے۔ لوگ چاہے ’’اللہ ہُو‘‘ کہہ کر درگاہوں میں دھمال ڈالتے رہیں یا اللہ اکبر کہہ کر عوامی مقامات پر پھٹ جاتے ہوں، یہ مسئلہ نہ ہمارے نفسیات دانوں کا مسئلہ ہے نہ ماہرین سماجیات کا، نہ الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا ایسے ’’نان ایشوز‘‘ پر وقت برباد کرتے ہیں۔
’’آپریشن رد الفساد‘‘ لاکھ جاری رہے مگر جب تک فساد پیدا کرنے والی فیکٹریوں کا قلع قمع نہیں کیا جائے گا ان کی پیداوار کو چاہے آگ لگاتے رہیں، مگر فساد کو پیدا ہوکر رہنا ہے۔ نیم کولیوں کو مسل دینے سے نیم کے درخت کی جڑوں کو کیا نقصان پہنچتا ہے؟
وفاق اور صوبوں کی جنگ اس قوم کا حقیقی مسئلہ نہیں ہے۔ ہمارا حقیقی مسئلہ عاقبت نااندیش حکمران ہیں۔ چاہے گھر میں روز بچے بھوک سے مرتے رہیں یا عوامی مقامات پر ان کے چیتھڑے اڑتے رہیں، ہمارے حکمرانوں کا یہ بیانیہ کہ ’’پوری قوم کے حوصلے بلند ہیں، سازشوں کو ختم کرکے رہیں گے، دہشت گردی کو ختم کرنے کا عزم کر رکھا ہے، یہ جمہوریت کے خلاف بزدلانہ سازشیں ہیں، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گا، دہشت گردی کی منصوبہ بندی سرحد پار سے ہوتی ہے، دہشت گردوں کے ٹھکانوں تک پہنچ چکے ہیں، نیشنل ایکشن پلان کامیابی سے جاری ہے، دہشت گردی کی جنگ جیتنے کے لیے قوم مزید قربانیوں کے لیے تیار رہے، دشمن کی کمر توڑ دی ہے، مزید دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘ (گویا آج تک دہشت گردوں نے ہر قدم پھونک پھونک کر اور اجازت کے ساتھ ہی اٹھایا ہے) نہ حقائق بدل رہے ہیں نہ ریاستی بیانیے۔ جس طرح سرمایہ داروں کو بار بار ووٹر مل جاتے ہیں، اسی طرح جعلی پیروں کو مرید۔۔۔ چاہے وہ درگاہوں کے متولی ہوں یا ریاست کے ولی۔۔۔ گردن عوام کی سب ہی کاٹ رہے ہیں۔ اصل جھگڑا ہی مسند اور کرسی کا جھگڑا ہے۔ ظلم ہر جگہ آزاد ہے اور انصاف ہر جگہ پابند سلاسل۔ جعلی پیروں کے درگاہوں پر قبضے ہیں تو جعلی ڈگری والوں کے ایوانِ اقتدار پر۔ کسی نے قبروں پر قبضہ کر رکھا ہے تو کسی نے ریاست کو اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے۔ جعلی پیر پکڑ لیے جاتے ہیں مگر اربوں کی کرپشن کرنے والے باعزت رہا کردیے جاتے ہیں۔ کہیں قبر فروشی ہے تو کہیں ضمیر فروشی۔ وہاں ولایت نسلوں میں منتقل ہورہی ہے، یہاں حکمرانی۔ کہیں درگاہیں چلتی دکان ہیں تو کہیں وزارتیں۔۔۔ درگاہوں کے مرید ہوں یا ریاست کے شہری، ہم سب نے خود کو نااہلوں کے ہاتھوں گروی رکھ چھوڑا ہے جو ہمارا کاروبار کرکے ہمارے ہی گلے پر چھری چلا رہے ہیں۔ جو کچھ قاتل عبدالوحید متولی نے اپنے مریدوں کے ساتھ کیا، وہی سیاست کی گدی پر بیٹھے ولی ہمارے ساتھ کررہے ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ سے لے کر درگاہ تک ہوس کے کاروبار ہی زیر بحث ہیں۔
یہ وقت ہے اجتماعی جدوجہد کا کہ کیسے بچایا جائے مریدوں کو جعلی پیروں سے، اور عوام کے ووٹوں کو نااہل سیاست دانوں سے۔۔۔!!