21شام پر ٹرمپ کے حملے کے پس پردہ راز

86

یہ ستم ظریفی ہے کہ عین اس روز جب سو سال پہلے امریکا پہلی عالم گیر جنگ میں شامل ہوا تھا، صدر ٹرمپ نے شام پر مزائلز کا حملہ کیا ہے۔ لیکن یہ حملہ کسی جنگ میں شمولیت کے لیے نہیں تھا اور نہ یہ حملہ امریکا پر کسی حملہ کے جواب میں کیا گیا اور نہ امریکا کی سلامتی کو کوئی خطرہ تھا کہ اس کی پیش بندی کے لیے یہ حملہ کیا گیا۔ بہرحال جس سرعت اور اچانک انداز سے ٹرمپ کے حکم پر بحیرہ روم میں لنگر انداز امریکی بحری بیڑے سے شام کے شہر حلب کے قریب فضائی اڈہ پر 59مزائلز کا حملہ کیا گیا ہے اس پر مغربی دارالحکومتوں میں طمانیت کے ساتھ تعجب کا بھی اظہار کیا گیا ہے۔ برطانیہ کا بھی بہت دل چاہتا تھا کہ وہ بھی اس حملہ میں امریکا کے ساتھ ہوتا لیکن ایک تو اس کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری لازمی تھی کیوں کہ اس سے پہلے 2014 میں پارلیمنٹ نے شام پر مزائلز حملہ کی منظوری دینے سے انکار کردیا تھا۔ اس وقت بھی بشار الاسد کی حکومت پر زہریلی گیس استعمال کرنے کا الزام تھا۔
بلا شبہ حلب میں بشار الاسد کے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقہ میں سارین گیس کا حملہ نہایت ہولناک تھا۔ جس میں ہلاک ہونے والے اسی افراد اور بچوں کی لاشوں کی تصاویر دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن کہا جارہاہے کہ ٹرمپ نے اس کے جواب میں مزائلز کے حملہ کے فیصلہ میں بہت زیادہ جلد بازی سے کام لیا۔ انہیں اس کے تعین کا انتظار کر لینا چاہیے تھا کہ کیمیاوی ہتھیارکے اس حملہ کا ذمے دار کون تھا۔ روس نے یہ اعتراف تو کیا ہے کہ شام کے طیاروں نے حلب کے قریب اس علاقے میں جہاں باغیوں کا قبضہ ہے، ایک گودام کو بمباری کا نشانہ بنایا تھا جہاں سارین گیس تیار کی جارہی تھی۔ لیکن یہ نہیں کہا جاسکتا کہ شامی طیاروں نے شہریوں پر گیس کا حملہ کیا تھا۔ روس کا کہنا ہے کہ شام کے پاس کیمیاوی اسلحہ نہیں ہے کیوں کہ جون 2014 کو شام کا کیمیاوی اسلحہ کا تمام تر ذخیرہ اس کی نگرانی میں تلف کردیا گیا تھا۔ شام میں برطانیہ کے سابق سفیر پیٹر فورڈ کا کہنا ہے، کہ وہ بشار الاسد کو بہت قریب سے جانتے ہے، وہ پاگل نہیں کہ یہ جانتے ہوئے کہ گیس کے حملہ پر عالمی رد عمل کیا ہوگا، وہ اس نوعیت کا حملہ کرے۔ ویسے بھی پچھلے ایک عرصہ سے بشار الاسد کے مخالف مسلح تنظیمیں پسپا ہورہی تھیں اور بشار الاسد کی فوجوں کو کامیابی حاصل ہو رہی تھی، اس موقعے پر بشار الاسد اس قسم کی کارروائی کیوں کرتے۔ دوسرے اگر روس کو حلب پر گیس کے حملہ کا علم تھا یا وہ اس حملے میں شامل تھا تو وہ اس موقع پر جب کہ امریکا کے ساتھ اس کے نہایت خوشگوار تعلقات ہیں تو اسے کیا پڑی تھی کہ وہ امریکا کو شام پر مزائلز کے حملے کا موقع دیتا، جس سے روس اور امریکا کے درمیان تعلقات کا پانسہ پلٹ جاتا۔ اب اس حملے کے بعد روس اور امریکا میں خوشگواری کی جگہ کشیدگی نے لے لی ہے۔
جس عجلت میں ٹرمپ نے ادلب پر حملے کی پوری طرح سے تحقیقات اور ذمے داری کے تعین سے پہلے، حلب میں شام کے فضائی اڈے پرمزائلز کا حملہ کیا ہے اس پر بہت سے لوگوں کو 2003کا وہ زمانہ یاد آگیا جب سلامتی کونسل میں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ عراق کے صدر صدام حسین کیمیاوی اسلحہ تیار کر رہے ہیں امریکا کے وزیر خارجہ کولن پاول نے، اینتھرکس سے بھری ایک چھوٹی سے شیشی دکھائی تھی۔ اسی جھوٹی شہادت کی بنیاد پر امریکا برطانیہ اور ان کے اتحادیوں نے عراق پر حملہ کیا تھا۔
شام پر حملہ کا ایک پر اسرار پہلو یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ادلب کے قریب فضائی اڈہ کو 59 کا نشانہ بنایا گیا لیکن اڈے پر صرف 23 گرے۔ باقی مزائلز کہاں گئے اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں۔
مبصرین کو اس بات پر سخت حیرت ہے کہ مزائلز حملے سے ایک ہفتہ پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے اس پالیسی کا اعلان کیا تھا کہ امریکا اب صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانے کو فوقیت نہیں دے گا بلکہ ترجیح ، داعش کاقلع قمع کرنے کو دی جائے گی۔ اس پالیسی پر سعودی عرب اور بشار الاسد سے نبرد آزما باغی سخت ناراض تھے۔
اب معاملہ بالکل الٹ گیا ہے اور شام پر مزائلز حملے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کا نعرہ بلند کیا جارہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اسی طرح سے بشارالاسد کا تختہ الٹنے کی پالیسی پر زور دے رہی ہے جس طرح لیبیا میں معمر قذافی اور عراق میں صدام حسین کا تختہ الٹا گیا تھا۔ تو کیا یہ حملہ اس پالیسی کی رہ ہموار کرنے کی تمہید ہے۔ بعض مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکا نے یہ حکمت عملی اختیار کی تو شام کا بھی حشر لیبیا اور عراق کی طرح ہوگا۔ لیبیا میں قذافی کی حکومت کے خاتمے کے بعد ابھی تک نراجیت کا دور دورہ ہے اور عراق میں سیاسی افراتفری اور فرقہ وارانہ تشدد کا راج ہے۔ خطرہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ شام میں امریکا ان قوتوں پر حملے کرے گا جو داعش کے خلاف نبرد آزما ہیں تو اس کے نتیجہ میں داعش کو زبردست تقویت ملے گی اور داعش کے خلاف ٹرمپ کی حکمت عملی ٹھپ پڑ کر رہ جائے گی۔
عام طور پر کہا جا رہا ہے کہ بظاہر شام میں بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ٹرمپ کا کوئی واضح منصوبہ نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ کا خفیہ منصوبہ شام کو عراق کی طرح تین علاقوں میں تقسیم کرنا ہے۔ شیعہ سنی اور کرد علاقوں میں۔ انہیں فی الحال امن کے خطوں کا نام دیا جارہا ہے لیکن آخر کار شام میں تین مملکتیں ابھریں گی۔ ٹرمپ کے منصوبہ کے تحت، شام میں روس کے موجودہ سیاسی اور فوجی اثر کو توڑنے میں مدد ملے گی۔ لیکن یہ خام خیالی ہوگی کہ روس کسی ایسی کوشش کو کامیاب ہونے دے گا کیوں کہ شام کے راستہ وہ مشرق وسطیٰ میں قدم جمانے میں کامیاب ہوا ہے جس سے وہ کبھی دست بردار نہیں ہوگا۔ ٹرمپ کے مشیروں کا کہنا ہے کہ بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی شام میں سیاسی تصفیہ اور متحدہ قومی حکومت کی تشکیل ممکن نہیں ہوگی۔ شام کو تقسیم کرنے کے بارے میں ٹرمپ کے منصوبہ کی راہ میں البتہ ترکی کی مخالفت سب سے بڑی رکاوٹ ہوسکتی ہے جو کسی صورت میں اپنی سرحد پر شام میں آزاد مملکت کا قیام تسلیم نہیں کرے گا۔ عراق کو تو امریکی، عملی طور پر تین علاقوں میں تقسیم کر چکے ہیں۔ شمال مشرق میں گردستان جس کو تیل کی دولت کے پیش نظر امریکیوں نے اپنا لے پالک بنا لیا ہے، دوسرا علاقہ شیوں کا علاقہ اور تیسرا موصل اور انبار کا علاقہ ہے جہاں اکثریت سنیوں کی ہے اور جسے عراقی حکومت کے دعویٰ کے مطابق بہت جلد آزاد کرا لیا جائے گا۔ اگر ٹرمپ کے اس منصوبہ نے عملی جامہ پہن لیا تو یہ کہا جائے گا کہ شام پر ٹرمپ کے مزائلز کا حملہ کامیاب رہا ہے۔