خان آرٹس کونسل کارنر(شکیل خان)

89

 شعر و ادب، فن و ثقافت ، موسیقی و رقص ، گائیکی و ہنر کاری، مصوری و سنگ تراشی، یہ سب وہ فنون ہیں جو انسانی ذہن و دل میں بالیدگی پیدا کرتے ہیں‘ انسانی ذہن و خیالات کی کشادگی، روح کی تسکین اور جسم کی افزائش میں نمایاں کردا ر ادا کرتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقام پر اہم ہے اور نہایت ذمہ دارانہ کردار ادا کرتا ہے۔ کسی بھی فن کی افزائش اور بڑھوتری کے لیے موجودہ دور میں حکومتیں وہی کردار ادا کرتی ہیں جو ڈیڑھ صدی پہلے تک نواب، رؤسا اور بادشاہ کیا کرتے تھے۔
وہ دور گزر گیا جب فن کار خون تھوک کر مر جاتا تھا۔
موجودہ دور میں یہ کردار حکومتوں سے ہٹ کر مختلف تنظیموں، اداروں اور کارپوریٹ سرکل نے سنبھال لیا ہے۔ ان اداروں کے فن و ثقافت کی طرف آنے سے حکومتوں کا کردار تو کچھ کم ہوا لیکن فنون کی بقا اور سلامتی میں نمایاں اضافہ ہوا۔ شعر و ادب سے تعلق رکھنے والے ادیب و شاعر ہوں یا مصور و گائیک، زندگی گزارنے کے اسباب سب کو میسر آنے لگے اور وہ دور گزر گیا جب فن کار، ادیب و شاعر خون تھوک کر مرجاتا تھا۔آج بھی کچھ لوگ بہرحال کسمپرسی میں تو رہتے ہیں لیکن فن کاروں، شاعروں، ادیبوں، سنگ تراشوں کی اکثریت ایک مناسب زندگی گزارتی ہے۔ آرٹس کونسل کراچی بھی اس سلسلے میں ایک نمایاں کردار ادا کررہی ہے۔ آرٹس کونسل کے ہر دل عزیز صدر اور پاکستان میں ثقافتی انقلاب برپا کرنے کے لیے ہمہ وقت سرگرم محمد احمد شاہ جس طرح فن و ثقافت کے ہرشعبے سے تعلق رکھنے والے فن کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے مستقل کوشش کرتے ہیں وہ قابل ستائش اور قابل پیروی ہے۔
اندھیروں میں ڈوبا آرٹس کونسل روشنی کا مینارہ بن گیا
شہر کے قلب میں واقع وہ ادارہ جو گزشتہ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے قائم تھے‘ ایک دہائی قبل تک آسیب زدہ سا محسوس ہوتا تھا، سنسان، ویران اور اندھیرے میں ڈوبا آرٹس کونسل جس کے دروازے شام پانچ بجے بند ہو جاتے تھے‘ سرکاری افسران اور سرکاری آفسوں کی طرح یہاں کے دروبام بھی کراچی کے شہریوں کے لیے اجنبی تھے۔ جب شام ہوتے ہی دروازے بند ہو جائیں، روشنیاں گُل کردی جائیں اور کسی بھی شاعر، ادیب، موسیقار، گلوکار ، مصور کواذن باریابی نہ دیا جائے تو اسٹیج اجڑ جاتا ہے، مشاعرہ گاہ ویران ہوجاتے ہیں‘ آرٹ گیلری میں اُلو بولنے لگتے ہیں۔ یہ حال تھا ہم سب کے آرٹس کونسل کا۔
لیکن دس سال پہلے ایک انقلابی اور دوربین قیادت کے آنے سے یہ سب کچھ تبدیل ہوگیا اور اب تو یوں لگتا ہے کہ وہ جگہ جو سنسان اور اندھیری تھی اب روشنی کا مینارہ ہے۔ یہ ہے وہ تبدیلی جو اس شہر میں رونما ہوئی اور اس کے اثرات سارے شہر پر پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ سال میں دن 365 ہوتے ہیں لیکن آرٹس کونسل میں پروگرام ہزاروں ہوتے ہیں ہر دن عید اور ہر رات شب برأت ہوتی ہے۔
درست قیادت کا انتخاب ہم سب کی ذمے داری ہے
آرٹس کونسل کے ممبران نے گزشتہ دس سال سے جس طرح محمد احمد شاہ اور ان کی بنائی ہوئی ٹیم پر اعتماد کیا ہے‘ اُس نے آرٹس کونسل کی شکل ہی بدل دی ہے۔ اب آرٹس کونسل سے نکل کر یہ ثقافتی انقلاب کراچی کے گلی کوچوں میں پھیل رہا ہے۔ اسٹریٹ تھیٹر کا فروغ، ڈراما اکیڈمی کا قیام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
عالمی مشاعرہ نے کراچی شہر کا محفوظ تصور اجاگر کیا
گزشتہ کالم میں ہم نے عالمی مشاعرے کا سرسری ذکر کیا تھا‘ آج اسی کے بارے میں کچھ اور باتیں ہو جائیں ۔ عالمی مشاعرے نے کراچی کا ایک محفوظ اور خوب صورت تصور اجاگر کیا ہے۔ ساری رات جاری رہنے والے اس مشاعرے میں امریکا، کینیڈا، مشرقِ وسطیٰ، بھارت سے آئے شعرا کے علاوہ مقامی شعرا نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ پڑوسی ملک بھارت سے گوکہ ہمارے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں اور پاکستان سے جانے والے شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کے ساتھ وہاں اچھا سلوک نہیں کیا جاتا لیکن کراچی شہر میں اس کے بالکل برعکس ہوا، بھارت سے آنے والے شعرا کے اعزاز میں جس طرح نذرانہ عقیدت پیش کیا گیا‘ ان کا اکرام کیا گیا‘ ان کو عزت سے نوازا گیا وہ دیدنی تھا۔ خود بھارتی شعرا اس بات پر حیران تھے کہ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے بارے میں بھارت میں بے انتہا منفی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ ہم اہالیانِ کراچی کو اس بات پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی عزت و شہرت میں جس طرح اضافہ کیا اس پر وہ لائق تحسین ہیں۔
مشاعرے کے آغاز سے اس کے اختتام تک بے شمار رکاوٹیں آئیں۔ لیکن احمد شاہ کی قیادت میں کام کرنے والی ٹیم نے اپنی اسپرٹ سے ان تمام مشکلات پر قابو پایا اور ایک بھرپور کامیاب مشاعرے کا انعقاد کیا۔
بھارت سے شعرا کو بلانا ایک مشکل امر تھا لیکن صدر پاکستان جناب ممنون حسین، گورنر سندھ جناب محمد زبیر اور ہم سب کے بھائی جان ایس ایم منیر صاحب کی انتھک محنت اور کاوشوں سے یہ کام بھی آسان ہوگیا اور بھارت سے پانچ شاعر پاکستان تشریف لائے۔
جوہر کانپوری، حسن کاظمی، حنا تیموری، شبینہ ادیب اور انا دہلوی نے عالمی مشاعرے اور اس سے ملحقہ ذیلی مشاعروں میں اپنے کلام پیش کیے اور خوب داد سمیٹیں۔ دنیا بھر سے شعرائے کرام کا آنا اس بات کا بھی ثبوت تھا کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے جہاں ادبی سرگرمیاں پورے زور و شور سے جاری ہیں اور جاری رہیں گی۔ آرٹس کونسل میں گزشتہ ہفتے جو پروگرامات ہوئے وہ قابل ذکر ہیں۔