اللہ سے ڈرو اس کی بادشاہی زمین و آسمان پر چھائی ہوئی ہے:۔
اِنکار رِسالت، اور توہین رسالت کرنے والے بد بخت اپنی بات کا آغاز یہاں سے کرتے ہیں کہ۔۔۔ ایک شخص کھڑا ہو کر اعلان کرتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں! اور تم سب میرا حکم مانو!!! آخر ہم اپنے ہی جیسے اِنسانوں کا حکم کیوں مانیں؟ جب کہ ان کو گزرے ہوئے صدیاں گزر گئی ہیں۔ یعنی وہ تاریخ کا پس ماندہ دور تھا، اور آج ہم ترقی یافتہ دور میں پیدا ہوئے ہیں۔۔۔ دوسرے لفظوں میں ہم ان سے افضَل ہیں۔ اس طرح وہ شیطان کے پیج کو لائیک کرتے ہیں۔۔۔ اور اس کا حصہ بن جاتے ہیں اور پھر اپنے اندر کی گندگی باہر اچھالتے ہیں۔ یہ لوگ جِس حکومت کو اپنے سامنے حرکت میں دیکھتے ہیں۔۔۔ اس کا قانون نہ ماننے والے کو ریا ست کا غدار کہتے ہیں، کیوں کہ اگر اس کے قانون کے خلاف عمل کریں گے تو پکڑے جائیں گے ۔۔۔ حکومت اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادا رے تو خیر زمین پر نظر آتے ہیں ۔۔۔ یہ ان کی بھی اطاعَت کرتے ہیں جو ا نڈر ورلڈ اور خفیہ ایجنسیوں کے نمائندے ہوتے ہیں۔۔۔ یہاں تک کہ ان کی تصدیق کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے بس کوئی انہیں ڈرا لے۔۔۔ بس ان کا انداز اور حلیہ دہشت زدہ کرنے والا ہو!!! لیکن خدا کی حکومَت چونکہ آنکھوں کے سامنے نہیں، اور وہ انسانوں کو ان کی بد اعمالیوں، گستاخیوں اور غداریوں کی سزا فوراً نہیں دیتا اس لیے اس کے نمائندے کو پہچاننے اور ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یہ اس وقت کے اِنتظار میں ہیں جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حکومت کے کارندے ان کے پاس آئیں گے۔۔۔ انہیں دیکھتے ہی یہ معافی مانگیں گے۔۔۔ مہلت مانگیں گے۔۔۔ لیکن وہ وقت معافی اور مہلت کا نہ ہو گا۔
تاریخ کی گواہی:۔
تاریخ انسانی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ انبیاؑ کو نَبْوَّت سے پہلے کی زِندگی میں لوگوں نے ہمیشہ ہر معاملے میں سچا اور راست باز آدمی پایا۔۔۔ قرآن مجید ان ہی صفات کو ان کی نَبْوَّت کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو شخص اپنی پوری زندگی میں۔۔۔ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملے میں کبھی جھوٹ نہ بولے، وہ اچانک خدا کے نام سے اتنا بڑا جھوٹ کیوں بولے گا کہ اسے نبی نہ بنایا گیا ہو! اور وہ کہے کہ خدا نے مجھے نبی بنایا ہے؟؟؟ اور دوسرا سوال اِس سے بھی بڑا ہے کہ کیا ایسا سفید جھوٹ کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ بولتا ہے؟ نہیں! کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ہی یہ دھوکا دیا جاتا ہے۔۔۔ جب کوئی شخص اپنے ذاتی فائدوں کو حاصل کرنے کے لیے مذہب اور خدا کو اِستعمال کرتا ہے تو چھپانے کی تمام کوششوں کے باوجود اس کے آثار نمایاں ہو کر رہتے ہیں۔ کیوں کہ اسے اپنے کاروبار کو پھیلانے کے لیے طرح طرح کے طریقے استعمال کرنے پڑتے ہیں، جن کے گھِناؤنے پہلو سوسائیٹی میں چھپائے نہیں چھپ سکتے۔ اور مزید یہ کہ وہ اپنی بزرگی کی دکان، چمکا کر مختلف طریقوں سے اپنے فائدے کے کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ نذرانے وصول کیے جاتے ہیں۔۔۔ لنگر جاری ہوتے ہیں۔۔۔ جائیدادیں بنتی ہیں۔۔۔ سونے کے کنگن، کڑے اور تاج بنائے جاتے ہیں۔۔۔ اور فقیری کا آستانہ دیکھتے دیکھتے شاہی دربار بنتا چلا جاتا ہے۔ جب کہ انبیاؑ کی ذاتی زِندگی ایسے فضائلِ اخلاق سے بَھری نظَر آتی ہے کہ اس میں کہیں ڈھونڈے سے بھی کسی فریب کارانہ ہتھکنڈے کا نشان نہیں مِلتا!!! اور اِس کام سے کوئی ذاتی فائدہ اٹھانا تو دور کی بات، وہ اپنا سب کچھ اِسی خدمَت پر قربان کرتے ہیں، اِن کی زِندگی میں جھوٹ کا شبہ کرنا کسی معقول اِنسان کے لیے ممکن ہی نہیں۔۔۔کوئی شخص جو عَقل بھی رکھتا ہو۔۔۔ اور بے اِنصاف بھی نہ ہو۔۔۔ یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ آخر ایک اچھا بھَلا آدمی، جو اِطمینان کی زندگی بسر کر رہا تھا، کیوں بلا وجہ ایک جھوٹا دعویٰ لے کر اٹھے۔۔۔ جب کہ اسے کوئی فائدہ اِس جھوٹ سے نہ ہو۔۔۔ بلکہ وہ الٹا اپنا مال، اپنا وقت، اور اپنی ساری قوتیں اور محنتیں، اِس کام میں کھپا رہا ہو اور بَدلے میں دنیا بھر کی دشمنی مول لے رہا ہو۔۔۔ ذاتی مفاد کی قربانی آدمی کے مخلص ہونے کی سب سے زیادہ نمایاں دَلیل ہوتی ہے۔۔۔ یہ قربانی کرتے ہوئے جس شخص کو برسوں بیت جائیں اسے بد نِیَّت یا خود غرض سمجھنا، خود اس شخص کی اپنی بد نیتی کا ثبوت ہوتا ہے جو ایسے آدمی پر یہ الزام لگائے۔
رسولؑ کی اِ طاعت اللہ کی اِطاعت:۔
حضرت نوحؑ اپنے زمانے کے ذہین تَرین، مخلِص اور سچے اِنسان تھے۔ انہوں نے نَبْوَّت سے پہلے کبھی لوگوں کی قیادت کا دعوی نہیں کیا! اور نہ ہی انہیں اپنی اِطاعَت اور پیرَوی کی دَعوَت دی۔۔۔ لیکن جب اللہ سبحانہ وَ تعالیٰ نے انہیں نَبْوَّت کے لیے منتخب کیا تو انہوں نے لوگوں کو اللہ کی بندگی کرنے، تقو یٰ کی زندگی اپنانے اور اپنی اِطاعَت کرنے کی دعو ت دی۔ ا پنی اِطاعَت کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ان احکام کی اِطاعت کرو، جو اللہ کا رسولؑ ہونے کی حیثیت سے میں تمہیں دیتا ہوں۔ یعنی میرے اللہ کے امانت دار رسولؑ ہونے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ تم دنیا کے تمام لیڈروں کی اِطاعَت چھوڑ کر، صرف میری اطاعَت کرو۔۔۔ اور جو احکام میں تمہیں دیتا ہوں ان کے آگے اپنا سر جھکا دو۔۔۔ اِس لیے کہ میں خداوند عالم کی مرضی کا نمائندہ ہوں، میری اِطاعَت خدا کی اِطاعَت ہے۔۔۔ اور میری نافرمانی بس میری ذات کی نا فرمانی نہیں بلکہ سیدھے سیدھے اللہ کی نا فرمانی ہے۔ اِتنی سی بات تو آج کا عام آدمی بھی سمجھتا ہے کے وردی پہنے ہوئے سپاہی، یا اِنتظامی معاملات میں گورنمنٹ کے کسی بھی کارکن کا حکم نہ ماننا گورنمنٹ کا حکم نہ ماننا شمار ہوتا ہے۔۔۔ اور اس کی توہین گورنمنٹ کی توہین سمجھی جاتی ہے۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ۔۔۔ حکومت کے ملازمین کو صرف حکومت کا ملازم مان لینا کافی نہیں، نہ ہی صرف انہیں سلام کر دینا کافی ہے۔۔۔ بلکہ اِنتظامی معَاملات میں ان کی اِطاعَت بھی لازمی ہے۔ عام زندگی کی ایک چھوٹی سی مِثال سے آپ سمجھ اور سمجھا سکتے ہیں کہ رسول کا حق صرف اِتنا ہی نہیں ہے کہ جن لوگوں کی طرف وہ رسول بنا کر بھیجا گیا ہے وہ اس کی صَداقَت تسلیم کر لیں اور اسے رسول بَر حق مان لیں۔۔۔ بلکہ اس کو خدا کا سچا رسول مانتے ہی آپ سے آپ یہ بھی لازم آ جاتا ہے، کہ اس کی اِطاعت کی جائے۔۔۔ اور ہر دوسرے قانون کو چھوڑ کر صرف اسی کے لائے ہوئے قانون پر عمل کیا جائے۔ رسول کو رسول نہ ماننا، یا رسول مان کر اس کی اطاعت نہ کرنا، دونوں صورتیں در اصل خدا سے بغاوت ہیں۔۔۔ اور دونوں کا نتیجہ خدا کے غضب میں گرفتار ہونا ہے۔ اِسی لیے اِیمان اور اِطاعت کے مطالبے سے پہلے ’’اللہ سے ڈرو‘‘ کا تنبیہی فقرہ اِرشاد فرمایا گیا تاکہ ہر مخاطب اچھی طرح کان کھول کر سن لے کہ رسول کی رِسالَت تسلیم نہ کرنے یا اس کی اِطاعَت قبول نہ کرنے کا نتیجہ کیا ہو گا۔ یہاں ایک بڑی اہم اصولی حقیقت کو ذہن میں بٹھا لینا چاہیے جسے قرآن مجید میں جگہ جگہ مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ قرآن ان لوگوں کو بھی کافر قرار دیتا ہے جو صرف ایک نبی کا انکار کرتے ہوں، اور باقی تمام انبیاؑ کو مانتے ہوں۔ اِس لیے کہ جو شخص اصل پیغامِ رسالت کا ماننے والا ہے وہ تو لازماً ہر رسول کو مانے گا مگر جو شخص کسی رسول کا اِنکار کرتا ہے وہ اگر دوسرے رسولوں کو مانتا بھی ہے، تو کسی عصبیت یا باپ، دادا کی تقلید کی وجہ سے مانتا ہے، نفسِ پیغامِ رسالت کو نہیں مانتا، ورنہ یہ ممکن نہیں کہ وہی حق ایک پیش کرے تو یہ اسے مان لے اور وہی دوسرا پیش کرے تو یہ اس کا انکار کر دے۔ یہ اصولی حقیقت جس کے دل و دماغ میں بیٹھ جائے گی اس کی نظر دور تک کام کرے گی۔۔۔ دل میں جگہ بڑھ جائے گی۔۔۔ یہ ممکن نہیں کہ وہ کوئی ایسا کام ہوتا دیکھے جو کار رسالت ہو، اور وہ اس میں شامل نہ ہو جائے۔ اور اس کا ظرف اتنا بڑا ہو گا کہ وہ چھوٹے چھوٹے کام بھی جو انبیاؑ کے کام سے مطا بقت رکھتے ہوں، ان کی یہ کہہ کر بھی مخالفت نہ کرے گا کہ یہ تو جزوی کام ہیں بلکہ وہ سب کو اپنا کام سمجھے گا، اور پوری یک سوئی کے ساتھ انبیاؑ کے مِشن کو جاری رکھنے کی کوشش میں لگا رہے گا کیوں کہ:
نخلِ اسلام نمونہ ہے برو مندی کا
پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا
(ماخوذ از حاشیہ نمبر: 75 78 79 :سورَۃ الشعراء)
اللہ سبٰحانہ و تعالٰی ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے، اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ۔
وآخر دعوانا انالحمد و للہ رب العالمین