مجھ پر لگا الزام آج تک ثابت نہیں ہوسکا معاون: (دانش علوی)

525

پاکستان نے کھیلوں کے ہر شعبے میں ایسے نگینوں کو جنم دیا جنھوں نے دنیائے کھیل پر راج کیا۔ کرکٹ کی اگر بات کریں تو کئی نامور کرکٹر پاکستان کی شان بنے اورکرکٹ کے میدانوں میں جگمگائے۔ ایسا ہی ایک ستارہ جو کھیلوں کے میدان میں جگمگا رہا تھا یکایک اس سے روشنی چھین لی گئی۔ ہم بات کررہے ہیں پاکستان کی جانب سے 61 ٹیسٹ میچوں میں 261 وکٹیں لینے والے لیگ اسپنر دانش پرہبا شنکرکنیریا کی، جو 16دسمبر 1980ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ دانش کنیریا ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی جانب سے وسیم اکرم، وقار یونس اور عمران خان کے بعد چوتھے سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے بولر ہیں۔ فرسٹ کلاس کرکٹ میں انہوں نے ریکارڈ 1024وکٹیں حاصل کیں۔ پاکستان کے لیے کئی فتح گر کارکردگی دکھانے والا، اپنے وطن کی محبت دل میں رکھنے والا دانش کنیریا آج انصاف کا طلب گار ہے جو اس کو مل نہیں رہا۔ پی سی بی کے کرتا دھرتا اس کی بات تک سننے کو تیارنہیں۔ جسارت اسپورٹس رپورٹنگ ٹیم سے دانش کنیریا نے رابطہ کیا تو ان کو روزنامہ جسارت کے آفس میں آنے کی دعوت دی گئی جو انہوں نے قبول کرلی۔
جسارت آمد پر ان کو خوش آمدیدکہا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذرِ قارئین ہے:
سوال: آپ سے پہلا سوال ہی آپ کی شکایت سے متعلق کرلیتے ہیں۔ کیا پس منظر ہے؟
دانش: ایک کرکٹر کے لیے اس کا بورڈ اور اس کے شہر کی ایسوسی ایشن ہی سب کچھ ہوتی ہے، اگر وہی اس کی مدد نہ کریں تو بحیثیت پاکستانی شہری پھر وہ کہاں جائے! وہ تو پھر ختم ہوگیا۔ اس میں کے سی سی اے کا بھی مفاد نہیں۔ کے سی سی اے کے صدر اعجاز فاروقی ہیں، انہوں نے کراچی کے کرکٹرز کے لیے اب تک کیا کیا؟ میں اپنی بات کرتا ہوں، اُن سے بہت مرتبہ کہا تو اُن کا کہنا تھاکہ میں نے آواز اٹھائی مگر میری بھی نہیں سنی گئی۔ وہ گورننگ بورڈ کے رکن ہیں، وہاں جاکر میرے لیے اس طرح آواز کیوں نہیں اٹھائی جس طرح دیگر کے لیے ان کی ایسوسی ایشنز اور بورڈ نے step اٹھائے؟ وہاں میرے کیس کو کیوں نہیں سنا گیا؟ میں نے پی سی بی سے متعدد مرتبہ درخواست کی کہ مجھے نظرانداز کیا گیا۔ پی سی بی نے محمد عامر، سلمان بٹ اور محمد آصف کے کیس کو تو سنا مگر مجھے کبھی وقت نہیں دیا گیا۔ محمد عامر چھوٹا بچہ تو نہیں تھا، ٹیم کے ساتھ سفر کررہا تھا، گھوم پھر رہا تھا، اس کو ہر چیز کی سمجھ بوجھ تھی، اس کے لیے یہ کہہ کر نرم گوشہ رکھا گیا کہ وہ بچہ تھا۔ سلمان، عامر اورآصف کو انگلینڈ میں سزائیں ہوئیں، انہیں جیل میں بھیجا گیا، تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا۔ انہوں نے پاکستان کا نام بدنام کیا، دھوکا دیا۔ انہیں سزا کیا ملی، محض 5 سال کی پابندی؟ اس طرح سے تو آپ نے انہیں اور مواقع دے دیے کہ فکسنگ کرو، ہمیں بتادو، 5 سال کی سزا کاٹو اور واپس آجاؤ۔ یہ سراسر غلط ہے، جبکہ جس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے اُس پر آپ نے تاحیات پابندی لگا دی۔ آپ اشارہ سمجھ گئے ہوں گے، میں اپنی بات کررہا ہوں۔
سوال: آپ کو پہلی مرتبہ باقاعدہ نوٹس کب ملا؟
دانش: میں 2004ء سے ایسکس کاؤنٹی کے لیے کھیل رہا تھا۔ میرا پانچواں سال تھا۔ 2010ء کا سیزن شروع ہونے والا تھا کہ ایک دن اچانک ٹی وی پہ خبرآئی کہ دانش کنیریا پرکاؤنٹی کے میچ میں کچھ گڑبڑکا الزام لگایا گیا ہے۔ میں نے وسیم باری صاحب کو فون کیا کیونکہ وہ پی سی بی کے چیف ایگزیکٹو تھے، انہوں نے مجھے ڈائریکٹر انٹرنیشنل ذاکر خان سے بات کرنے کو کہا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کیا خبر چل رہی ہے؟ جس پر میں نے ان کو جواب دیا کہ میں نے آپ کو اسی لیے کال کی کہ کیا آپ کو اس بارے میں کچھ پتا ہے؟ جب وہاں سے کچھ نہ ہوا تو میں نے اپنی کاؤنٹی کے چیف ایگزیکٹو کو فون کیا، جس پر انہوں نے کہا کہ ہم اس پر بات نہیں کرسکتے کیونکہ ابھی تحقیقات چل رہی ہیں، پولیس اس کو دیکھ رہی ہے۔ پھر میں نے کاؤنٹی کے کوچ سے بات کی، اس پر انہوں نے مجھ سے میری فٹنس کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ تم آرہے ہو، جو تحقیقات ہیں وہ ہوتی رہیں گی، ہم تمھاری جگہ کسی کھلاڑی کو متبادل کے طور پر نہیں بلا رہے،کاؤنٹی نے آپ کا کنٹریکٹ بھی ختم نہیں کیا۔ پھر میں کاؤنٹی کھیلنے گیا، وہاں مجھے پولیس نے بلوایا۔ میں اپنے وکیل کے ہمراہ گیا۔ وہاں انہوں نے مجھ سے طویل پوچھ گچھ کی اور ضمانت پر چھوڑدیا، مجھے15ستمبر تک دوبارہ آنے کو کہا، اس دوران میں کاؤنٹی کرکٹ کھیلتا رہا، پھر مجھ پرانگلش بورڈ نے دباؤ ڈالا کہ آپ پر الزامات ہیں آپ کرکٹ نہ کھیلیں، جس پر میں نے ان سے پوچھا کہ جب تک کچھ ثابت نہ ہو آپ مجھے کرکٹ کھیلنے سے کیسے روک سکتے ہیں؟ میرا کنٹریکٹ ہے، مجھے کرکٹ کھیلنے کا معاوضہ ملتا ہے۔ اس پر بورڈ نے کہا کہ آپ پیسے لے لیں پر کرکٹ نہ کھیلیں، جس پر میں نے انکار کیا اور کہا کہ میں کرکٹ کھیلنا چاہتا ہوں، پھرانگلش بورڈ نے مجھے اپنے دفتر آنے کو کہا، جہاں میں اپنے وکیل کے ہمراہ گیا، اور میرے وکیل نے ان سے کہا کہ جب تک کوئی قصور ثابت نہیں ہوجاتا آپ اس کو قصوروار نہیں کہہ سکتے۔ پولیس تحقیقات کررہی ہے اور اس کا جو بھی فیصلہ ہوگا اسے ہم قبول کریں گے۔ اس کے بعد مجھے کرکٹ کھیلنے کی اجازت مل گئی، اس دوران ایک دن ذاکر خان کا فون آیا اور انہوں نے بڑے تلخ لہجے میں مجھ سے کہا کہ تم پر تو پابندی ہے، وہاں کرکٹ کھیلنے سے روک دیا گیا ہے۔ جس پر میں نے انہیں اپنے کوچ سے بات کراکر یقین دہانی کرائی کہ میں کرکٹ کھیل رہا ہوں اور مجھ پر کوئی بین نہیں لگا۔ 2010ء میں انگلینڈ میں ہونے والی پاکستان آسڑیلیا سیریز کے لیے مجھے قومی ٹیم میں شامل کرلیا گیا۔ آسٹریلیا کے ہاتھوں لارڈز میں شکست کھانے کے بعد شاہد آفریدی نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی جس کے بعد اعجاز بٹ صاحب نے سلمان بٹ کو کپتان بنا دیا۔ ہم لیڈز میں دوسرا ٹیسٹ جیت گئے، مگر وہاں سلمان بٹ جس طرح کی کپتانی کررہا تھا، بطور ایک سینئرکھلاڑی مجھے کچھ عجیب لگ رہا تھا۔ میں نے جن بڑے کپتانوں کے ساتھ کھیلا انہوں نے مجھے ہمیشہ عزت دی اور میرا صحیح وقت پر صحیح طرح سے استعمال کیا، مگر سلمان بٹ اس کے بالکل برخلاف گیا، جہاں مجھے بولنگ کے لیے جانا چاہیے تھا وہاں وہ عمرامین اور دوسرے بولروں سے بولنگ کراتا رہا، جس پر میں نے ڈریسنگ روم میں جاکر احتجاج کیا جہاں پرکوچ وقاراورکامران اکمل سمیت دیگر کھلاڑی موجود تھے، مگرکسی نے میری بات کو نہیں سمجھا، وہ سب مجھے ٹیم سے باہرکرنا چاہتے تھے، جس کے بعد اعجازبٹ، ٹور سلیکشن کمیٹی اور سلمان بٹ نے مجھے اس بنیاد پر کہ میرا کیس پولیس میں چل رہا ہے مجھے باہرکردیا، جبکہ مجھ پرکچھ ثابت نہیں ہوا، اور میں کھیل سکتا تھا، مجھ پرکسی قسم کا کوئی بین نہیں تھا، مگر ان کو کس چیزکا ڈر تھا؟ پولیس اگر مجھےwatchکررہی تھی تو اس سے کسی کو کیا مسئلہ تھا؟ کیا سلمان بٹ کو یہ ڈر تھا کہ کہیں وہ نہ پھنس جائے؟ بہرحال ٹرینٹ برج میں میں نے اپنا آخری میچ کھیلا جس کے بعد کوچ وقاریونس نے مجھے بتایا کہ میں نے اور سلمان بٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ بڑے کرکٹر ہیں، آپ کو بینچ پہ بٹھانا مناسب نہیں، لہٰذا آپ کاؤنٹیکرکٹ کھیلتے رہیں، جب آپ کی ضرورت ہوگی آپ کو بلوا لیا جائے گا۔کاؤنٹی پر بہت دباؤ تھا، مگر کیونکہ میری پرفارمنس تھی اس لیے مجھے دوبارہ کنٹریکٹ دے دیا گیا اور میری جگہ آنے والے آسٹریلوی کھلاڑی کو واپس کردیا گیا۔ میں کاؤنٹیکے میچ کھیل ہی رہا تھا کہ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کا اسکینڈل سامنے آگیا۔ میرا سوال یہ ہے کہ مجھے کس بنیاد پر ٹیم سے نکالا گیا؟ 61 ٹیسٹ میچوں میں سے59 میچوں میں میری پرفارمنس سب کے سامنے ہے، کبھی کبھی بولر پر برا دن آتا ہے، میں لیجنڈری بولر شین وارن کے پاس چلا گیا کیونکہ وقاریونس تو مجھے لیگ بریک کے بارے میں نہیں بتا سکتے تھے۔ وقاریونس کو میرا شین وارن کے پاس جانا برا لگا۔
سوال: اعجازبٹ کا کہنا تھا کہ انگلش بورڈ کے پاس دانش کنیریا کے خلاف کافی ثبوت ہیں؟ کہاں ہیں ثبوت؟ کیا کبھی پیش کیے گئے؟
دانش: مجھ پر مارون ویسٹ فیلڈ کو فکسنگ کے لیے اکسانے کا الزام لگایا گیا تھا۔ یہ لوگ ثبوت کی بات کرتے ہیں، برٹش پولیس نے تحقیقات کیں اور مجھے الزامات سے بری کیا۔ اب یا تو انگلش بورڈ دھوکا دے رہا ہے یا برٹش پولیس۔ بہرحال 2011ء میں مجھے پھر قومی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ جب میں ٹیم کے ساتھ دبئی جارہا تھا تو مجھے دبئی جانے سے روک دیا گیا۔ کیوں روکا گیا؟ انگلش بورڈ نے تو مجھ پرکیس2012ء میں کیا تھا، اُس وقت تک مجھ پرکسی قسم کا کوئی بین بھی نہیں لگا تھا، پھر پی سی بی نے انگلش بورڈ کا ساتھ کیوں دیا؟ میں آپ کو بتا چکا ہوں، اور جن باتوں کی میں نے اس سے پہلے نشاندہی کی ہے کہ مجھے ٹیم سے باہر کرنے کا مقصد یہی تھا کہ بولرز اسپاٹ فکسنگ کرسکیں، اگر ایک اینڈ سے میں بولنگ کرتا تو پھر ان کے دونوں بولر کیسے فکسنگ کرتے؟ یہ وہ باتیں ہیں جو مجھے بعد میں سمجھ میں آئیں کہ کیوں مجھے بولنگ نہیں دی جاتی تھی، اور پھر کیوں مجھے نکالا گیا۔ جہاں تک مظہرمجید کا تعلق ہے تو سب جانتے تھے کہ وہ سب سے ملتا تھا۔ اعجازبٹ نے اتنی کم عمری میں سلمان بٹ کو کپتانی دے دی، اس کے بعد تو یہی ہونا تھا۔ مظہرمجید کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہمیں ایک ایسا بندہ چاہیے تھا جو پوری ٹیم کو چلا سکے۔ اُس وقت کئی اور لوگوں کی مظہر مجید کے ساتھ گھومتے ہوئے تصویریں آئی تھیں جن میں وہاب ریاض، عمر امین اور کامران اکمل شامل تھے، انہیں کیوں واپس لے کر آگئے؟ ان کے خلاف تحقیقات کیوں نہیں ہوئیں؟ 2010ء میں سڈنی ٹیسٹ میں کامران اکمل کی خراب کیپنگ سب کو یاد ہے، میں 100 فیصدکہتا ہوں کہ وہ ایک مشکوک میچ تھا، مجھے آج بھی سڈنی ٹیسٹ کی شکست کا افسوس ہے، وہ میچ ہم جیت سکتے تھے، ہم نے خون پسینہ ایک کیا ہوا تھا۔ میں بہت افسردہ تھا، میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ سارے لڑکے خوش ہیں اور آپ اتنے افسردہ! میں نے اُس وقت بھی بہت شور مچایا تھا۔ یوسف بھائی کپتان تھے، وہ بھی بہت غصے میں تھے۔ ان سب لڑکوں پرالزامات تھے۔ کمیشن بنا، عاقب بھائی نے ان سب کے نام لیے، مگر کچھ نہیں ہوا۔ بورڈ کے اندر ایک ایسا مافیا بیٹھا ہوا ہے جو نہیں چاہتا کہ ٹیم میں کوئی ایسا لڑکا آئے جو اُن کے اشاروں پر نہ چلے۔ پچھلے دنوں سابق ٹیسٹ کرکٹر راشد لطیف نے بالکل صحیح بات کہی کہ بورڈ کے اندر کے لوگوں کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے۔ میں ہر مرتبہ اسد مصطفی کا نام اس لیے لیتا ہوں کہ مجھے انوبھٹ سے انہوں نے ہی ملوایا تھا۔ انوبھٹ انگلینڈ آیا تھا تو اُس کو میرا فون نمبر بورڈ آفیشل نے ہی دیا تھا۔ بورڈ کے لوگ یہ بات کرتے ہیں کہ میں انوبھٹ سے کیوں ملا اور میں نے بورڈ کو بتایا کیوں نہیں؟ میرا جواب یہ ہے اور اس سے پہلے بھی تھا کہ جب اُس نے مجھ سے اسپاٹ فکسنگ یا کسی بھی قسم کی کوئی مشکوک بات یا کوئی آفر نہیں کی تو میں بورڈ کو کیوں بتاتا اور کیا بتاتا؟
سوال: آپ نے ایک مرتبہ یہ بات کہی تھی کہ2007ء کے دورۂ بھارت میں اُس وقت کی جو ون ڈے ٹیم تھی انوبھٹ نے اُس کو شاپنگ کرائی تھی، کیا یہ بات سچ ہے؟
دانش: جی ہاں ایسا ہوا تھا، مصباح الحق اور یونس خان سمیت تمام کھلاڑی بہت اچھی طرح انوبھٹ کو جانتے ہیں، چیف سلیکٹر انضمام الحق، یہاں تک کہ شہریارخان، سبحان احمد تک انوبھٹ سے واقف ہیں، کیونکہ انوبھٹ پی سی بی کے مہمان کے طور پر پاکستان آچکا ہے۔ پھر آئی سی سی کے اینٹی کرپشن یونٹ کی طرف سے یہ بات سامنے آئی کہ انوبھٹ صحیح نہیں ہے، اس سے نہ ملا جائے، جس کے بعد بورڈ آفیشلز اس سے نہیں ملے۔ ایسا وہ کہتے ہیں، مگر میں اس پر یقین نہیں کرتا۔ انوبھٹ آج بھی ان کے رابطے میں ہے۔
سوال: پی سی سی کا کہنا ہے کہ جب ہماری طرف سے یہ واضح ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ انوبھٹ سے نہیں ملنا، تو دانش کنیریا اس سے کیوں ملا؟
دانش: میں مانتا ہوں کہ میں اس سے ملا، میں نے اپنا جو بیان قلم بند کرایا تھا اُس میں یہ بات کہی تھی کہ میں انوبھٹ سے ملا تھا، مگر Public place میں سب کے سامنے۔ اُس وقت آئی سی سی کے قوانین میں ایک شق یہ تھی کہ اگر کسی لڑکے کو جان کا خطرہ ہو تو وہ مشکوک شخص سے کسی پبلک پلیس میں مل سکتا ہے، اور میں نے ویسا ہی کیا تھا۔ میرے وکیل نے یہ بات بھی بتائی تھی، مگر یہ لوگ اس کو نظراندازکرتے ہیں۔ میں تو ان کو 7 سال سے چیلنج کررہا ہوں کہ اگر میرے خلاف کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں، کسی بھی میڈیا میں یا کسی بھی فورم پر آکر میرے ساتھ مناظرہ کریں، اگر میں غلط ثابت ہوا تو خود الگ ہوجاؤں گا، اور جو میں 7 سال سے یہ رونا رو رہا ہوں وہ بھی ختم کردوں گا، مگر میری سنو تو، کیا میں پاکستان کا شہری نہیں ہوں؟ کیا میری اس ملک کے لیے خدمات نہیں ہیں؟ محمد عامرکو دوبارہ لایا جاسکتا ہے، اس کے لیے پی سی بی اتنی بھاگ دوڑ کرتا رہا، مگر میری بات سننے کو تیار نہیں، کیا مجھے نشانہ بنایا جارہا ہے؟ اس لیے کہ میں کراچی کا ہوں؟ میرا تعلق اقلیت سے ہے اس وجہ سے مجھے نظرانداز کیا جارہا ہے؟ مجھے اس سوال کا جواب دیا جائے۔ پہلے اعجاز بٹ صاحب نے کرکٹ کا بیڑہ غرق کیا، سینئرکھلاڑیوں کی تذلیل کی۔ یہ لوگ آتے ہیں اور باتیں کرکے چلے جاتے ہیں۔ خود ان کی فیکٹریاں چل رہی ہیں، انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، جس کھلاڑی کی گردن پتلی ہوتی ہے اس پر چھری چلا دی جاتی ہے۔
سوال: اب تک آپ کے کیس کی کیا صورت حال ہے؟ آخری مرتبہ آپ نے بورڈ سے کب رابطہ کیا؟
دانش: میں 7 سال سے مسلسل بورڈ سے رابطہ کرتا رہا ہوں اور آخری مرتبہ میں نے بورڈ کے پیٹرن اِن چیف میاں نوازشریف کو بھی خط لکھا تھا، نجم سیٹھی اور شہریارخان کو بھی کئی مرتبہ خطوط لکھے، مگر ان لوگوں نے مجھ سے ملنا تک گوارا نہیں کیا، کیونکہ میں ان کا بچہ نہیں ہوں، بچے تو ان کے محمد عامر ہے جس نے کرپشن کی، جوا کھیلا، ملک کو بدنام کیا، سلمان بٹ ہے جس نے ملک کو بیچا۔ نجم سیٹھی اور شہریارخان ایک مرتبہ کم ازکم میری سن تو لیں، ان کے پاس جو بھی معلومات ہیں کیا وہ درست ہیں، اس پر میرا مؤقف تو سن سکتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔
سوال: یہ تو تھیں کچھ تلخ باتیں۔ اب ذرا آپ اپنے فینز کے لیے اپنی زندگی کے بارے میں بتائیں؟
دانش: میں نے سینٹ پیٹرک اسکول سے میٹرک کیا، اسکول سے کرکٹ کھیلنا شروع کی۔ چھٹی کلاس میں تھا تو اسکول ٹیم میں آیا اور کرکٹ کھیلتا گیا۔ پھر ڈان باسکو کلب سے کرکٹ کا دورچلا۔ بچپن میں تھوڑا موٹا تھا جس کی وجہ سے فیلڈنگ نہیں ہوتی تھی، مگر بولنگ اچھی کیا کرتا تھا۔ اسکول میں مجھ سے نئی گیند کرائی جاتی تھی۔
سوال: آپ کیا پہلے فاسٹ بولر تھے؟
دانش: نہیں۔
سوال: تو پھر لیگ اسپنر کیسے بن گئے؟ کیونکہ نیا گیند تو فاسٹ بولر ہی کیا کرتے ہیں؟
دانش: لیگ اسپن بولنگ کی شروعات ایسے ہوئی کہ ایک دن میں گھر پہ کھیل رہا تھا تو میرے انکل نے مجھے دیکھا اورکہا کہ بس اب تم کو یہی کرنا ہے۔ انکل کو اللہ تعالیٰ نے ایسی صلاحیت دی تھی کہ انہوں نے میرے اندرکا ٹیلنٹ دیکھ لیا تھا۔ وہ جس چیز کے بارے میں پیشن گوئی کرتے تھے وہ سچ ثابت ہوتی تھی۔ انہوں نے 20۔25 سال پہلے جو پیشن گوئیاں کی تھیں، وہ کافی حد تک صحیح ثابت ہوئیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ کرکٹ میں کھلاڑی بکیں گے، کرکٹ میں بہت پیسہ آئے گا، گلیمر کی بہت زیادہ چکاچوند نظرآئے گی۔ اور یہ سب میں آج دیکھ رہا ہوں تو انکل کی بہت یاد آتی ہے۔ بس پھر میں نے مہندرکمار اکیڈمی جوائن کی۔ نشترپارک میں بہت کرکٹ کھیلی۔ انھوں نے میری فٹنس پر کافی کام کیا۔ پہلا کلب ڈان باسکو تھا، پھر عمر سی سی میں آیا، پی این ایس سی میرا پہلا ڈپارٹمنٹ تھا جس میں مرحوم واسطی صاحب کپتان تھے۔ ایک مرتبہ میرا نام انڈر15میں آرہا تھا، پہلے 300، پھر 18، اور پھر15لڑکوں میں میرا نام آرہا تھا۔ پھر 6 لڑکے کراچی سے لاہور جانے تھے، اس میں میرا نام نہیں آیا تو بہت دلبرداشتہ ہوا۔ اس پر مجھے میرے انکل نے سمجھایا کہ کوئی کمی رہ گئی ہوگی جس کی وجہ سے تمہارا نام نہیں آیا۔ اور وہ کمی تھی میری فٹنس۔ سب سلیکٹرز نے مجھے پسند کیا تھا مگر میری فٹنس پر سب کو تشویش تھی۔ پھر اس کے بعد میں نے بہت محنت کی۔ انڈر19ورلڈکپ کھیلا، انڈر19سے جنوبی افریقا کے خلاف ایک سیریز کھیلی جس میں گریم اسمتھ کپتان تھے، پھر کراچی کی ٹیم میں پہنچا، وہاں سے کھیلا۔ پروفیسر سید سراج الاسلام بخاری صاحب نے ہمیشہ بہت حوصلہ افزائی کی، انہوں نے کراچی کرکٹ کے لیے بہت کام کیا، ان کی کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے لیے بڑی خدمات ہیں، منیر صاحب بھی ہوتے تھے، خود آپ سید وزیر علی قادری کراچی کرکٹ ایسوسی ایشن کے زون 1 سے منسلک رہے، آپ کے بھائی جو آج کل کے سی سی اے زون 1کے سیکریٹری ہیں سید منیر علی قادری، وہ ہمارے منیجر بھی رہے۔ اُس وقت کی کرکٹ اورآج کی کرکٹ میں بہت فرق ہے۔ پاکستان ٹیم میں آنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی۔ کے سی سی اے کے میچز چل رہے تھے، آصف مجتبیٰ ہمارے کپتان تھے، میں 4 میچوں میں36 وکٹیں لے چکا تھا، انگلینڈ کی ٹیم پاکستان آرہی تھی تو پاکستان کے لیے میرا نام آنا شروع ہوگیا تھا۔ میں بہت شکرگزار ہوں پرنٹ میڈیا کا کہ جس نے اُس وقت میرا ساتھ دیا، میری کارکردگی کو نمایاں کیا۔ میں نے عبدالقادر صاحب کو بہت دیکھا، بحیثیت ایک لیگ اسپنر میں اُن سے بہت متاثر تھا اور اُن جیسا بننا چاہتا تھا، میں قادر بھائی کو بہت پسند کرتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ قادر صاحب نے اُس وقت لیگ اسپن کے فن کو زندہ کیا جب لیگ اسپن بولنگ گمنامی میں چلی گئی تھی، یا یہ بولنگ اُس وقت اتنی متاثرکن نہیں رہی تھی، مگر قادر صاحب نے لیگ اسپن بولنگ کو ایک نئی روح بخشی اور عروج دیا، جس کے بعد پھر شین وارن، مشتاق احمد اور مجھ جیسے لیگ اسپنر آئے، اور میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے عبدالقادر جیسے لیجنڈ اور مشتاق احمد جیسے گریٹ لیگ اسپنرز کا ٹیسٹ کرکٹ میں زیادہ وکٹوں کا ریکارڈ توڑنے کا موقع ملا، یہ میرے لیے بہت اعزازکی بات تھی۔ ریکارڈ توڑنے پر مجھے قادر بھائی نے فون کرکے مبارک باد دی اور انہوں نے مجھ سے یہ بات کہی کہ تم نے مجھ سے کم میچوں میں یہ ریکارڈ توڑا۔ ان کا یہ کہنا میرے لیے بہت بڑی بات تھی۔ مشتاق احمد ہوں یا انضمام۔۔۔ سب نے میرا بہت ساتھ دیا۔ ان کے دور میں مَیں نے بہت کرکٹ کھیلی۔ انہوں نے مجھ پر بہت بھروسا کیا۔ معین بھائی کی کپتانی میں مَیں نے ڈیبیو کیا، راشد بھائی کی کپتانی میں کھیلا، وسیم بھائی کے ساتھ بھی کھیلنے کا موقع ملا، وہ ان کا 100واں ٹیسٹ تھا، یہ میری زندگی کے ایسے لمحات ہیں جن کو میں کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ ہم نے بھارت میں ٹیسٹ سیریز برابر کی تھی اور بنگلورمیں آخری وکٹ بالا جی کی میں نے لی تھی۔ گراؤنڈ میں موجود تماشائی شکست کے صدمے سے رو پڑے تھے۔ بہت سے ایسے یادگار لمحات ہیں جن کو میں بیان نہیں کرپاؤں گا۔ میںآج جو کچھ بھی ہوں پاکستان کی وجہ سے ہوں، اپنی ماں کی دعاؤں کی وجہ سے ہوں، کیونکہ ان ہی کی بدولت میں آج یہاں بیٹھا ہوں اور ماں کے پاؤں تلے جنت ہے، اور میری ماں میرے لیے سب کچھ ہے۔ میں گھر سے نکلتا ہوں تو اپنی ماں کے پیروں کو چھوکر نکلتا ہوں، جب میں نے پہلی وکٹ لی تھی تو اپنی دھرتی کو چوما تھا، کیونکہ یہ ہماری ماں ہے اور اگر ہم ماں کی عزت نہیں کریں گے تو پھر کسی کی عزت نہیں کریں گے، ہماری جو آج عزت ہے وہ پاکستان کی وجہ سے ہے، پاکستان ہی کی وجہ سے لوگ ہمیں جانتے ہیں، لیکن پاکستان میں جو عناصر ہیں جیسے کرکٹ بورڈ، وہ اپنا مذاق نہ اڑوائیں۔ میں جب کبھی باہر جاتا ہوں تو لوگ مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ محمد عامر، سلمان بٹ اور محمدآصف کو کیسے کلیئرنس مل گئی؟ اور آپ بے قصور ہیں، آپ کو بورڈ کیوں کلیئر نہیں کرتا؟ اس کا جواب مجھے آج تک نہیں ملا۔ میں آپ کے فورم سے ایک مرتبہ پھر یہ سوال کرتا ہوں کہ مجھے انصاف دینے میں کیا رکاوٹ حائل ہے؟ کیونکہ میں تو ذاتی حیثیت میں بورڈ سے پوچھ پوچھ کر تھک گیا ہوں، انہوں نے آج تک اس کا جواب نہیں دیا۔
سوال: آپ کے ساتھ بورڈ کا رویہ ایسا کیوں ہے؟
دانش: میں نے جب کچھ کیا ہی نہیں تو ان کو کیا جواب دوں؟ پی سی بی اورانگلش کرکٹ بورڈ نے مجھ پر بہت دباؤ ڈالا۔ میں لڑرہا ہوں تاکہ آئندہ آنے والے بھی میری طرح اپنے حق کے لیے لڑ سکیں، اور اگرکسی نے غلط نہیں کیا تو وہ ان کے دباؤ میں آکر مان نہ لیں۔ ٹھیک ہے وہ طاقتور ہیں، لیکن اللہ کا بھی ایک نظام ہے اور اس سے بڑا نظام اورکوئی نہیں ہے، اس پر بھروسا ہونا چاہیے۔ میرا ایمان ہے کہ دیرسویرآپ کو انصاف ضرور ملے گا۔ کرکٹ بورڈ کا قصور ہے کہ ابھی عامر، سلمان اورآصف کوکرکٹ میں واپس آئے 3 سال گزرے نہیں کہ ایک اور اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل سامنے آگیا۔ بھارتی بورڈ کی مثال سامنے ہے، اگرکوئی میڈیا ان کے کھلاڑی کو کچھ بھی کہتا ہے تو بورڈ اس کھلاڑی کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے اور اس کو تحفظ فراہم کرتاہے، جبکہ پاکستان بورڈ اپنے کھلاڑیوں کو سپورٹ نہیں کرتا، کیونکہ وہ انہیں اپنا نہیں سمجھتا۔ ہمارا بورڈ کھلاڑی کو ایک ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے۔ دوسرے ممالک کے بورڈ اپنے کھلاڑیوں کے پیچھے کھڑے رہتے ہیں، ہمارا بورڈ بھاگ جاتا ہے۔ میں اپنی بات نہیں کررہا، ماضی میں کتنے عظیم کرکٹرزکے ساتھ ہمارے بورڈ نے کیا کیا! جاوید میانداد جیسے لیجنڈ کو عزت نہیں دی جاتی، بورڈ میں ایک عرصے سے لوگ قابض ہیں جو اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔ کرکٹ تبدیل ہوگئی ہے، اب نئے لوگوں کو آنا چاہیے۔ چیئرمین تبدیل ہوتے ہیں لیکن ان کے نیچے کام کرنے والے لوگ تبدیل نہیں ہوتے۔
سوال: نجم سیٹھی ہوں یا شہریارخان، وہی کچھ تو کررہے ہیں جو انہیں بتایا جاتا ہے۔ ان کی نظر میں دانش کنیریا پر تاحیات پابندی ہے، تو ہے۔ اس کے لیے آپ اب کیا کررہے ہیں اور کس طرح سے آپ اپنے کیس کوآگے بڑھائیں گے؟ اور آپ کی کمیونٹی نے اس سلسلے میں کیا کام کیا؟
دانش: میں جسارت کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے مجھے اپنی آواز اعلیٰ حکام تک پہنچانے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کیا۔ میں امید کرتا ہوں کہ جسارت کے ذریعے وزیراعظم نوازشریف صاحب تک میری آواز سنی جائے گی اور مجھے انصاف ملے گا۔ کرکٹ ہی میری روزی روٹی ہے۔ میں اپنی کمیونٹی سے بھی ایک حد تک درخواست کرسکتا ہوں، میں زبردستی نہیں کرسکتا، کسی سے بھیک نہیں مانگ سکتا۔ میں پاکستان کا شہری ہوں اور چاہتا ہوں کہ مجھ پر سے یہ بین ہٹایا جائے تاکہ میں اپنی زندگی پھر سے شروع کرسکوں۔ میں چاہتا ہوں کہ آنے والے بچوں کو کرکٹ کے گر بتاؤں۔ میں ابھی بھی فٹنس پر توجہ دیتا ہوں۔ اگر مجھے کبھی دوبارہ کھیلنے کا موقع ملا تو یقین دلاتا ہوں کہ چار مہینوں میں خود کو تیارکرلوں گا۔ میرے معاشی حالات اچھے نہیں، کیونکہ میرا کمائی کا کوئی اور ذریعہ نہیں ہے، بس کبھی کبھی چینل والے بلا لیتے ہیں جس سے کچھ پیسے آجاتے ہیں۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیسے گزارا ہوتا ہوگا۔ پابندی کی وجہ سے میں کسی قسم کے کرکٹ ایونٹ یا کرکٹ کوچنگ سے منسلک نہیں ہوسکتا۔ ایک مرتبہ کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن کے فنکشن میں چلا گیا تو اعجاز فاروقی صاحب کے لیے مسئلہ بن گیا تھا۔ پی سی بی کے اس رویّے کی وجہ سے ملک سے باہر پاکستان کی ایک غلط تصویر پیش ہورہی ہے، لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دانش کو اقلیتی ہونے کی وجہ سے یہ اذیت اٹھانا پڑرہی ہے۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف کو انہوں نے اتنا سپورٹ کیا کہ یہ لوگ دوبارہ آگئے جنھوں نے ملک کو بیچ دیا، جبکہ دانش کے خلاف تو کوئی ثبوت نہیں ہے، اس کو برٹش پولیس نے کلیئرکیا، لیکن اس کی بات سننے کو کوئی تیارنہیں ہے، جس کی وجہ سے دوسرے ممالک میں پاکستان کی غلط تصویر پیش ہورہی ہے، اور یہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگتا، کیونکہ پاکستان نے مجھے عزت دی، نام دیا، اور پاکستان کرکٹ بورڈ اس کی عزت کو پامال کررہا ہے۔
سوال : آپ کا ایسکس کاؤنٹی سے حال میں کوئی رابطہ ہوا؟
دانش: نہیں! اُن سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا۔ انگلش بورڈ کا سابق صدر اور آئی سی سی ٹاسک فورس کا سربراہ جائلز کلارک بہت چالاک انسان ہے، وہ پاکستان کرکٹ بورڈ کو بیوقوف بنا رہا ہے، اس نے پی سی بی کو ورلڈ الیون بلانے کا لالی پاپ دیا ہے۔ اگر وہ واقعی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی چاہتا ہے تو ورلڈ الیون کے بجائے انگلینڈ کی ٹیم کو پاکستان کے دورے پر کیوں نہیں بھجواتا؟ اگر انگلینڈ کی ٹیم پاکستان کا دورہ کرلیتی ہے تو پھر سارے راستے کھل جائیں گے، پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوجائے گی، ٹیمیں آنا شروع ہوجائیں گی۔ ورلڈ الیون میں تو پھر وہی ’’پھٹیچر‘‘ کھلاڑی ہوں گے جن کا ذکر عمران خان صاحب ۔ پی سی بی کو یہ سوچنا ہوگا کہ کون ہمارے ساتھ ہے، اور پی سی بی کو انگلش بورڈ کی جانب سے جو ڈکٹیشن مل رہی ہے اسے روکنا ہوگا۔ اور آج میں ایک بات جسارت کے پلیٹ فارم سے بتا دوں کہ پی سی بی نے پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل میں پانچوں کرکٹرز کے خلاف جو کیس بنایا ہے اس کی چارج شیٹ انگلش بورڈ سے لی گئی ہے اور پورے کیس میں انگلش بورڈ انہیں ڈکٹیٹ کررہا ہے۔ کیونکہ 2012ء میں جو الزامات انہوں نے مجھے پر لگائے تھے، وہی انہوں نے ان کھلاڑیوں پر لگائے ہیں۔ محمدعامر نے جب مائیکل ایتھرٹن کو انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے سلمان بٹ نے اکسایا تھا، تو اکسانے کے لیے2.24 شق کے مطابق سزا تاحیات پابندی کی بنتی ہے، پھر اُس پر تاحیات پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟
سوال: پی سی بی کی طرف سے صرف ایک ہی بات سامنے آتی ہے کہ دانش پر تاحیات پابندی ہے اور وہ قصوروار ہے؟ لیکن ثبوت دکھائے نہیں جاتے۔ آخر ہوا کیا تھا جس پر آپ کو سزا کا مرتکب قرار دے دیا گیا؟
دانش:Pro40 County Cricketکا میچ تھا، اور الزام تھا کہ مارون ویسٹ فیلڈ نے جو بولنگ کی ہے اس میں اسپاٹ فکسنگ کی ہے۔ اس پر جب میرے وکیل نے اس سے بات کی تو ویسٹ فیلڈ نے بتایا کہ میں نے وہ چیز ہی نہیں کی، مجھے پیسے مل گئے، میں نے کچھ نہیں کیا۔ جو مجرم قرار دے دیا گیا وہ خود یہ باتیں کررہا ہے۔ میرا کاؤنٹی کے ساتھ کنٹریکٹ ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈز کا تھا، پھر اس پر وننگ بونس الگ۔ میں سب سے زیادہ پیسے لینے والا کرکٹر تھا۔ مشتاق بھائی بھی یہاں سے کھیلے مگر انہیں بھی اتنے پیسے نہیں ملے، اور وہ الزام لگا رہا ہے کہ میں نے6 ہزار پاؤنڈز لیے۔ سوچنے کی بات ہے کہ میں صرف 6 ہزار پاؤنڈکے لیے اپنا کیریئر داؤ پر لگاؤں گا؟ اور اگر میں نے 6 ہزار پاؤنڈ لیے تو وہ کہاں گئے؟ میں انہیں بینک میں ہی ڈپازٹ کرتا۔ آپ کیوں اپنا کیریئر تباہ کریں گے اتنے سے پیسے لے کر! جب کہ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ اگر کوئی غیر قانونی رقم بینک میں جمع ہوئی ہے تو وہ پولیس نے کیوں نہیں پکڑی؟ اس طرح کے کئی سوالات ہیں جن کا جواب ان کے پاس نہیں، اور ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں، یہ قوم کو صرف گمراہ کررہے ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک ثبوت ہے اور وہ ہے انوبھٹ، جس کو ابھی تک یہ تصور نہیں کیا گیا کہ وہ بکی ہے بھی یا نہیں۔ اس نے مجھے شعروشاعری والا ایک میسج کیا تھا اور ایک میسج تھا ٹکٹ سے متعلق۔ کیونکہ اس نے میچ کا ٹکٹ مانگا تھا، وہ میں نے اسے دے دیا تھا، جبکہ میں نے اس بات کا بورڈ کو بتایا بھی تھا، کیونکہ ایشیا میں ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی آتا ہے تو وہ میچ کے ٹکٹ ضرور مانگتا ہے اور سب دیتے ہیں، اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی۔
سوال: آپ پی ایس ایل کے بارے میں کیا کہیں گے، آج کل کافی مقبول ہے؟
دانش: پی ایس ایل کا پہلا ایڈیشن بہت اچھا گیا، مگر دوسرا ایڈیشن اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل کی وجہ سے داغدار ہوگیا۔ ابھی معاملات ختم نہیں ہوئے ہیں، لوگ کہہ رہے ہیں جو ہونا تھا ہوگیا، کھلاڑی پکڑے گئے۔ نہیں ایسا نہیں ہے، معاملات ابھی ختم نہیں ہوئے، انہوں نے جلدبازی کی عرفان کے کیس میں۔ عرفان نے غلطی کی تھی، 6۔7مرتبہ اسے بکی نے آفر کی، اس نے نہیں بتایا۔ اس کی غلطی تھی اس کو سزا دے دی گئی، لیکن انہوں نے جب یہ بات کی کہ تحقیقات چل رہی ہیں اور اس دوران اگر پھر عرفان کا نام آیا تواسے بلایا جاسکتا ہے۔آپ نے ایک سزا تو دے دی، دوسری سزا کیسے دیں گے؟ کیوں کہ سزا پہ سزا کا تو کوئی قانون نہیں، یعنی اگر اس کے خلاف کوئی ثبوت بھی آئے گا تو اسے نظرانداز کردیا جائے گا اور پھر معاملے کو چھپا بھی دیا جائے گا اور دبا بھی دیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ نے عرفان کو بچایا ہے۔ میرے کیس پر جس ٹریبونل نے جو سزا دی وہ سب خواب و خیال کی روشنی میں دی کہ ایسا کیا ہوگا یا ویسا کیا ہوگا۔ ان کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں تھا۔ میں اپیل کرتا ہوں کہ میرے کیس کے لیے پاکستان میں ایک جوڈیشری بنے، جس میں مختلف طبقوں کے لوگ آکر بیٹھیں، اور میرے کیس کا جائزہ لیں اور فیصلہ دیں۔ میں سپریم کورٹ سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ میرا جو برٹش ٹریبونل سے فیصلہ آیا ہے اس کا آپ جائزہ لیں اور فیصلہ کریں، شکریہ!!