ڈاکٹر طاہر مسعود (تنویر اللہ خان)

366

میں نے جب جامعہ کراچی میں داخلہ لیا اُس وقت جناب محمودغزنوی طلبہ یونین کی صدارت کے آخری دن گُزار رہے تھے، غزنوی ایک اچھے مقّرر تھے اُن کے فنِ خطابت سے اساتذہ بھی متاثر تھے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ طلبہ یونین آفس کے ساتھ ہال میں سیرتؐ کے ایک سیمینار میں غزنوی بحیثت صدر انجمنِِ طلبہ جامعہ کراچی موجود تھے اُنھوں نے اس سیمینار سے خطاب بھی کیا اس پروگرام میں شبعہ سیاسیات کی لیکچرر محترمہ تنویرخالد بھی موجود تھیں، غزنوی کا خطاب تنویرخالد نے بھی توجہ سے سُنا خطاب کے بعد جب غزنوی میڈم تنویر خالد کے پاس سے گُزرے تو میں نے اُن کی آنکھوں میں غزنوی کی خطابت پر ستائش دیکھی، غزنوی اپنے زمانہِ طالب علمی میں شرمیلے نظر آتے تھے، نظریں جھکا کر طالبات سے بات کرتے تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد جناب غزنوی شعبہ صحافت میں استاد بن گئے، اُن کی کلاس میں بھی بھرپور حاضری ہوتی تھی اورطلبہ کا خیال تھا کہ اُن کے چھوٹے سے کمرے میں طالبات کا بڑا جھمگٹا لگا رہتا ہے۔
اسی وقت کے استادوں میں ایک اور معزز نام جناب طاہر مسعود کا تھا، وہ اب جامعہ کراچی سے ریٹائر ہوگئے ہیں، جناب طاہرمسعود کی شہرت تھی کہ اُن کے کمرے میں طالبات کا جمگھٹا لگنا تو دور کی بات ہے طلبہ بھی اُن سے مختصر بات کرتے تھے، طاہر مسعودکے کم گو اور کم آمیزمزاج کو دیکھتے ہوئے طالبات بھی کھڑے کھڑے اپنا کام بیان کرتی تھیں۔
جامعہ کراچی چھوڑے ایک عرصہ بیت گیا ہے اور سنہ اٹھاسی کے بعد سے کچھ دن پہلے تک کراچی کے حالات ایسے رہے کہ ہر وقت کے ہنگاموں کی بہتات نے دل و دماغ کو یادیں پالنے کے قابل ہی نہیں چھوڑا، دو نسلیں برباد کیں ہیں ان تاریک برسوں نے۔
اسی طرح دیگر اساتذہ کی بھی طرح طرح کی شہرت تھی کسی کے بارے میں مشہور تھا کہ رٹّا لگا کر آتے ہیں اور لیکچر کے بجائے کلاس کو املا کرادیتے ہیں، کسی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ انگریزی کی ٹانگ توڑتے ہیں، میرے شعبۂ معاشیات کے چیرمین سرجعفر، ہسٹری کی میڈم مہر افروز اور اُن کے شوہر مراد جو دم توڑتی اشتراکیت کے آخری آخری پروانے ہیں، سرساجدین، سر فخرالدین، سرابوزر، سر راشد، نئی نئی کوآپریٹیو ٹیچرریحانہ، اسی طرح طلبہ و طالبات میں ناصر چھیپا، دومعین دونوں کا تعلق بائیں بازو کی یوایس ایم سے تھا اب ایک مذہبی داڑھی کے ساتھ عملی مسلمان ہوگئے ہیں اور دوسرے اسٹیٹ بینک میں ملازمت کرتے ہیں، حسیب ابدالی اب امریکا میں ہیں، عقیل احمد آج کل نیشل کالج کے پرنسپل ہیں، منصب علی دُنیا چھوڑ گئے، رفعت سلطانہ، ثروت اقبال اللہ جانے کہاں ہیں۔
پی ایچ ڈی ڈاکٹر جناب طاہر مسعود کا ذکر کرتے کرتے خیال بے راہ ہوگیا، ڈاکٹر صاحب ایسے اچھے لکھنے والے ہیں کہ پڑھنے والا ان کی تحریر کی پہلی لائن اپنے اختیار سے پڑھتا ہے لیکن اس کے بعد بے اختیار ہوکرپڑھتے پڑھتے آخری لائن تک پہنچ جاتا ہے، میں بھی اُن کا قاری ہوں، کچھ عرصے پہلے ڈاکٹر صاحب کو اُن کے کسی رشتہ دار نے ملیرکینٹ دعوت پر بُلایا، ملیرکینٹ میں داخلے کے لیے شناختی کارڈ اور اگر گاڑی ہے تو ڈرائیونگ لائسنس اور اگر موٹرسائیکل ہے تو لائسنس کے ساتھ سواروں کا ہیلمٹ پہنا لازمی کردیا گیا ہے، ملیرکینٹ میں داخل ہونے کے خواہش مند حضرات اورخواتین گاڑی پارک کرکے لائن لگا کر اپنے پاکستانی ہونے کے دستاویزی ثبوت فراہم کرتے ہیں تب اُنھیں اندر جانے کی اجازت ملتی ہے، طریقے کے مطابق ڈاکٹر صاحب اور دوسروں نے تو اپنا شناختی کارڈ پیش کردیا اُن کے ساتھ امریکا سے آئی پاکستانی نژاد امریکی خاتون رشتہ دار بھی ساتھ تھیں چیک پوسٹ پر موجود عملے نے ان خاتون سے پاکستانی کارڈ طلب کیا جو کہ اُن کے پاس نہیں تھا سپاہیوں کو لاکھ سمجھایا کہ یہ امریکی شہری ہیں ان کے پاس پاکستان کا شناختی کارڈ کیسے ہوسکتا ہے لیکن سپاہیوں پر کوئی دلیل کارگر نہ ہوئی اور لاکھ کوشش کے بعد بھی ڈاکٹر صاحب اور اُن کے ساتھی ملیر کینٹ میں داخل نہ ہوسکے، اس واقعے نے جناب طاہر مسعود صاحب کو بدمزا کیا ڈاکٹر صاحب کی یہ بدمزگی بجا تھی، عقل کا تقاضا یہ تھا کہ چیک پوسٹ کا عملہ امریکی پاسپورٹ کو دیکھ کراور جامعہ کراچی کے معزز استاد کی ضمانت پر خاتون کوبھی جانے کی اجازت دے دیتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
یہ ساری روداد ڈاکٹر صاحب نے جسارت سنڈے میگزین میں تحریر کی تھی، اس تحریر میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے کچھ دوستوں کا ذکر کیا ہے جو اُن کے ساتھ پڑھتے تھے یہ دوست تعلیم کے بعد فوج میں چلے گئے اور بڑے افسر بن کر ریٹائر ہوئے جب کہ ڈاکٹر صاحب نے شعبہِ تعلیم کا انتخاب کیا، ڈاکٹر صاحب نے اپنے اس مضمون میں بتایا کہ اُن کے فوجی دوست شاہانہ ملازمت کے بعد پاکستان کی مہنگی آبادی ڈیفینس میں بڑے بڑے پلاٹ لے کر اور بہت سی جائیدایں بناکرمزے کررہے ہیں جب کہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد رہنے کے لیے گھر بنانے کی کوشش کروں گا۔ یہ مضمون پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہو کہ ڈاکٹر صاحب شعبہ تعلیم کے انتخاب کے اپنے ’’اچھے فیصلے‘‘ پرپچھتا رہے ہیں۔
اس کے بعد جسارت کے فرائیڈے اسپیشل میں ڈاکٹر صاحب کا ایک اور مضمون حسین حقانی پر شائع ہوا، اس مضمون میں اُنھوں نے حقانی کی زندگی کے چھپے ہوئے گوشوں پر سے پردے اُٹھائے ہیں، حقانی کی اس پردہ دری میں میرے جیسے عام قاری کے لیے سیکھنے کو کیا تھا؟ یہ میں آج تک نہیں سمجھ سکا ہوں، ڈاکٹر صاحب نے اس مضمون میں لکھا ہے کہ وہ اور حقانی دونوں ملیر کے رہائشی تھے اور کبھی کبھی ملیر کالابورڈ سے حسین حقانی کے ساتھ موٹر سائیکل پر جامعہ کراچی جاتے تھے دوستی ہونے کی وجہ سے اپنی رو میں حقانی بہت سی باتیں ڈاکٹر صاحب کے کان میں کیا کرتے ہوں گے موٹر سائیکل پر بیٹھے سواروں کے بیٹھنے کی پوزیشن ایسی ہی ہوتی ہے یہ سمجھ نہیں آتا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے اور حقانی کے درمیان ہونے والی موٹر سائیکلی گفتگو کو پبلک کیوں کیا ان باتوں میں میرے جیسے قاری کے لیے کیا تھا؟
ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون میں حقانی کی ایک بُری عادت کا ذکر کیا ہے، محمود احمد اللہ والا کی صدارت کے زمانے میں ایک جوڑا ویرانے میں ’’باہمی سیاحی‘‘ کرتے ہوئے پکڑا گیا اس جوڑے کی تصویر اخبارات میں شائع کروادی گئی جس پر کیمپس میں ہنگامہ ہوگیا کہ اس تصویر کی وجہ سے جامعہ کی بدنامی ہوئی ہے لہٰذا جامعہ کی یونین کو لینے کے دینے پڑگئے حقانی کی تقریر کے اس جملے نے یونین کو مشکل سے نکالا ’’جو لوگ یہ الزام لگا رہے ہیں وہ بدی سے نہیں ڈرتے بدنامی سے ڈرتے ہیں، حالانکہ بدی سے ڈرنے لگیں توبدنامی کیوں ہو‘‘۔
جناب طاہر مسعود کو شکایت ہے کہ حقانی نے اس جملے کی کامیابی کو تو خوب انجوائے کیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس جملے کا خالق کون ہے، میرا خیال ہے کہ جناب طاہر مسعود کے جملے نے اس لیے کلک کیا کہ اِسے حقانی نے ادا کیا تھا، جیسے حکمرانوں کی کرپشن کے پول ایک عرصے سے کھولے جارہے ہیں لیکن یہ الزمات آئے گئے ہوتے رہے ہیں مگر جب سے عمران خان نے کرپشن پر بات کی ہے تو اُن کے لگائے الزامات ہر جگہ دہرائے جانے لگے ہیں۔
حقانی کی موقع پرستی، رشوت خوری، محسن کشی، چال بازی کو سرعام کرنے سے کیا حاصل ہوا، حقانی یونیورسٹی چھوڑنے کے بعد رول ماڈل نہیں رہے کہ اُن کی شر سے اہل خیر کو بچانے کے لیے اُن کی اصلیت سے آگاہ کرنے کا کارِ خیر انجام دینا ضروری ہو۔
ابھی حال ہی میں جناب طاہر مسعود نے شفیع نقی جامعی پر ایک مضمون لکھا ہے یہ مضمون بھی مفادِعامہ کی کوئی خوبی نہیں رکھتا، ڈاکٹر صاحب نے اپنے مضمون کا آغاز آج کے طلبہ کی زبوں حالی پر افسوس سے کیا ہے، ڈاکٹر صاحب اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ معاشرے میں تبدیلی ایک لحمے میں نہیں آتی، آج نوجوان بد تہذیبی، باطنی بد صورتی کا جو بیٹن پکڑے ہوئے ہیں وہ زندگی کے طویل مراتھن دوڑ میں بڑوں نے اُس کے ہاتھ میں پکڑایا ہے، آگے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ شفیع نقی نے جامعہ ملیہ کے بانی ڈاکٹر محمود حسین کا انٹرویو لیا جس کا تعارفی نوٹ شفیع نقی نے بہت ہی اچھا تحریر کیا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ نوٹ مولوی عبدالحق کی خاکوں کی کتاب ’’میرے چند ہم عصر‘‘ سے چُرایا گیا تھا، شفیع نقی نے ایسی خوشہ چیناں کرکے اپنی منزل پالی اب اس راز سے پردہ اُٹھانے میں قاری کے لیے کیا افادیت ہے؟ آگے تحریر ہے کہ شفیع نقی نے اپنی لیے گوری کا انتخاب کیا اس گوری نے اُن کی زندگی کو کالا کردیا، میرا مشاہدہ ہے کہ ازدواجی زندگی کو کالا کرنے کے لیے گوری لازمی نہیں بعض کالوں کی ازدواجی زندگی کالیاں بھی کالی کردیتی ہیں، ایسا ایک آدھ کیس جناب طاہر مسعود کے آس پاس بھی ضرور ہوگا۔
اس مضمون میں جامعہ ملیہ کے ڈاکٹر محمود حسین اور شفیع نقی کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی جو فلمی منظر کشی کی ہے اس کے بعد مسجد میں شفیع نقی کے دوسرے چہرے کا ذکر کیا ہے، ان دونوں مناظر نے شفیع نقی اورعبدالملک مجاھد دونوں کے مقام کوکم کیا ہے۔
شفیع نقی کے بنائے جانے والے تھنڈر اسکواڈ کا ذکر ضرور آج کی جمعیت کے لیے سیکھنے کا سبب ہوسکتا ہے، اس بے ضرر تھنڈر اسکواڈ کی نامعلوم کاروائیوں کی شہرت کی وجہ سے جامعہ کراچی میں پہلی بار کلاشنکوف چلانے والے حافظ اسلم شہید کے قاتل سلام اللہ ٹیپو کی جان نشین شرمیلا فاروقی جیسے جمعیت، جماعت کو تھنڈر اسکواڈ کی کاروائیوں کا طعنہ دیتی ہیں حالانکہ شرمیلا اس اسکواڈ کی کوئی ایک واردات کے بارے میں نہیں جانتی ہوں گی۔
بظاہرکامیاب ان دونوں شخصیتوں کی انسانی خامیوں کے ذکر سے آج کے نوجوان کا یہ بات سمجھ لینے کا خدشہ ہے کہ کامیابی کے لیے محسن کشی، مفاد پرستی، موقع پرستی، رشوت خوری، چال بازی کرنا ضروری ہے،کیوں کہ یہ دونوں بھی ان ہی ’’خوبیوں‘‘ کی وجہ سے کامیاب ہوئے ہیں۔
جناب ڈاکٹرطاہر مسعود ہر آدمی کو زندگی میں مختلف مواقع ملتے ہیں ان مواقعوں میں سے ہر آدمی اپنی صلاحیت اور دلچسپی کے لحاظ سے موقع کو پہچان بھی لیتا ہے اور اس پر چل کر کامیاب بھی ہوجاتا ہے، اور جو مواقع اُس کی صلاحیت اور دلچسپی سے مطابقت نہیں رکھتے وہ ان مواقع کو نہ پہچان پاتا ہے اور نہ ان سے کوئی فائدہ اُٹھا پاتا ہے اور اکثر ناگزیر وجوہات کی وجہ سے انہی جگہوں پر جانے سے محروم رہتا ہے جس کا اُسے طویل عرصے تک قلق بھی رہتا ہے۔
یہ قلق اللہ کی دی گئی صلاحیتوں پر راضی نہ ہونے کی ایک علامت ہے، اللہ نے دُنیا کے نظام کو اس طرح ترتیب دیا ہے کہ سب کو سب کچھ نہیں ملتا، اللہ نے کسی کو مالِ کثیر دیا ہے تو کسی کو کثیر الیعال کردیا ہے، کسی کے لیے حصولِ علم کو آسان کردیا ہے اور کسی کے لیے عمل کو زیادہ سہل بنا دیا ہے، کوئی ہزاروں کے مجمع کے سامنے بولتا ہے تو ایسا سُنائی دیتا ہے جیسے جھرنا بہہ رہا ہو، کوئی ایسا لکھتا ہے کہ لفظ، جملے، فقرے ہاتھ باندھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں، کسی پر لفظ ایسی ترتیب و تنظیم سے اُترتے ہیں کہ آپ سے آپ شاعری بن جاتے ہیں،کسی کو پری چہرہ بنایا ہے تو کسی کو اچھے کردار کے پر لگا دیے ہیں، کسی کو خادم بنایا ہے توکوئی مخدوم ہے۔
آج کا آدمی مایوسی کا شکار نظر آتا ہے قریب قریب ہر آدمی ذہنی تناو میں مبتلا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ جو اُسے دیا گیا ہے اُس پر راضی نہیں ہے، اس مسئلے کا یہ حل نہیں کہ ہم ہل من مزید کی نفسیات میں مبتلا ہو جائیں اس مسئلے کا حل صرف قناعت ہے، قناعت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ کی تقسیم پر راضی ہوجائے، قناعت مال پر بھی ضروری ہے، قناعت صلاحیت پر بھی ضروری ہے، قناعت شکل و صورت پر بھی ضروری ہے ، قناعت وضع قطع پر بھی ضروری ہے۔
آدمی اگر جاننے کے ساتھ مان بھی لے کہ جوکچھ میسر ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جوکچھ میسر نہیں وہ بھی اللہ کی مرضی سے ہے اور یہ کہ سب کچھ یہیں نہیں ملے گا اور یہ کہ سارا کا سارا انصاف اسی دُنیا میں ہونا ضروری نہیں ہے، تو ہم پریشانیوں سے بچ جائیں گے۔
بلا شبہ جو لوگ اللہ کے دیے پر راضی ہوجاتے ہیں وہ مطمئن دل پاتے ہیں اور جو اس کے برخلاف رویہ اختیار کرتے ہیں سکون، خوشی اُن سے چھین لی جاتی ہے۔
nn