(کراچی کی روشنیاں لوٹا دو (شہزاد سلیم عباسی

116

کراچی میں کروڑوں انسانوں کا سمندر آباد ہے ، یہاں کے لوگ کمائی کر کے کر اپنے پیاروں، عزیزوں اور جاننے والوں کو خوب پیسے بھیجتے ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں پرائمری میں پڑھتا تھا تو ہمارے ابا جان بھی کراچی میں تھے اور خوب پیسے کماتے تھے اور جب ہم گاؤں آتے تو وہاں کے لوگ ہمیں شہری بابو کہتے تھے اور بے شمار لوگ اپنے بزنس کے سلسلے میں کراچی کا انتخاب کرتے اور اصرار کرتے کہ ہمیں کراچی میں بزنس شروع کرنا ہے ہمیں کراچی لے چلیں، گویا کہ کراچی کچھ عرصہ پہلے تک پاکستانیوں کے لیے ’’یو اے ای ‘‘ سے کم نہ تھا۔کراچی نے لوگوں کو اتنا مالا مال کیا کہ لوگ زمین سے آسمان تک پہنچ گئے لیکن ارباب اختیار نے جو سلوک اس کے ساتھ کیا ایسا سلوک تو کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہیں کرتا ! پچھلے ساڑھے آٹھ سال سے کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں رہا ۔ ہر طرف کچرا کچرا اور غلاظت کا ڈھیر ہے ۔ کراچی کی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی بدولت نہ صرف ٹریفک کا نظا م تعطل کا شکار ہے بلکہ شدید ٹریفک جام سے اعصابی بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ گٹروں پر ڈھکن نہیں تودوسری طرف پورا شہرگاڑیوں کے دھویں سے بھر ا رہتا ہے جس سے سانس اور سرطان کی بیماریوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی تجاوزات سے لے کر نکاسی آب کے نظام کی غیر فعالی، سیوریج کا تباہ حال نظام،صحت عامہ کی غیر تسلی بخش صورت حال ، ہسپتالوں میں سہولتوں کا فقدان اور پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی جیسے مسائل سے دوچار ہے۔
کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا، امن و آشتی کا مرکز تھا، رواداری و بھائی چارے کا مظہر تھا ، انصاف ، یقین ، ایمان اوراستحکام کا گہوارہ تھا، علم وعمل کا مسکن تھا، ادب ومیلے کی داستانیں رقم کر تا تھا،صنعتوں و فیکٹریوں کا منبع تھا،پاکستان کے سر کا تاج تھا، پاکستان کا پہلا دارالحکومت ہونے کی سعادت رکھتا تھااور جو کبھی پاکستان کے ماتھے کا جھومر تھا !! اسے کس کی نظر لگ گئی ؟کون ہے جو اس میں امن نہیں چاہتا ! کون ہے جو سازشوں کے تانے بانے بُن رہا ہے! اب کون ہے جو کراچی شہر کی گھتی اپنے طرز پر سلجھانے کی کوشش کر رہا ہے! وہ کو ن سے عناصر ہیں جو اس گھٹیا ڈراما سیریل کی پیداوار ہیں! کیا کوئی بیرونی قوتیں اس بین الاقوامی سازش میں شریک ہیں! کیا’’را‘‘، ’’موساد‘‘،’’سی ای اے‘‘، جیسی ایجنسیاں اس گھناؤنی سازش میں ملوث ہیں! مجھے اندیشہہے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہمارے اپنے لوگ بھی اس سازش میں ملوث ہوں! کیا کراچی کی سیاسی قیادت(ایم کیوایم، پیپلزپارٹی ، پی یس پی، اے این پی) ان سازشوں سے آگاہ نہیں! کیا کراچی کی بر سرِاقتدار سیا سی قیادت ان چیزوں میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے! کیا اب کراچی آپریشن ، رینجرز کنٹرول اور دو پارٹیوں کی لانچنگ کے بعد پی پی پی اور ایم کیو ایم امن نہیں چاہتے۔
بے نظیر مرحومہ نے 93ء میں 121 ارب روپے کا بجٹ منظور کیا تھا اور آج سی ایم مراد علی شاہ نے کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے صرف 10 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جن ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا ان میں پاکستان اسٹیل ملز کا قیام، پورٹ قاسم، ایکسپورٹ فری زون ، این ای ڈی یونیورسٹی،میجر ضیاء الدین شہید عباسی ہسپتال،لیاقت آباد سپر مارکیٹ،سندھ میڈیکل کالج،کراچی پولٹری اسٹیٹ جس کے لیے 25 ہزار ایکٹر مختص کی، شاہراہ فیصل،شاہراہ قائدین،نیو کراچی منصوبے، سپر ہائی وے،گلستان جوہر کے رہائشی منصوبے، لیاقت آباد ہسپتال، کے ایم سی اور کینپ کے ایٹمی بجلی گھر کاقیام کے منصوبے شامل ہیں۔ اگر ان ادوار میں ایسے بڑے بجٹ اور ترقیاتی منصوبے شروع کیے جاسکتے تھے تو کیا بعید ہے کہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی پی پی اپنے بزرگوں کو فالو نہیں کر رہی ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پیپلزپارٹی کراچی دشمنی میں اتنا آگے نکل گئی کہ انہیں اب کراچی کی ترقی سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے ۔ کراچی ہمیشہ سے بین الاقوامی سازش کا حصہ رہا ہے اور حصہ بننے میں مدد کون فراہم کرتا ہے یہ سب کو معلوم ہے ۔ ضیا ء دور سے لے کرلے کر جنرل مشرف کی کراچی یلغار تک اور مشرف دور میں ایم کیوایم کو کھلی چھوٹ دینے تک اور پھر ایم کیو یم کو دوحصوں میں بانٹنے سے لے کر پی ایس پی بنانے تک کے سارے پتے اور چالیں کون چلتا ہے اور کس اسٹیبلشمنٹ کے پاس اس کا ریموٹ کنٹرول ہے وہ بھی آشکار ہو جائے گا ۔حکومت شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے ۔ جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی سب سے بڑی وجہ بے روزگاری ہے جس کے تدارک کے لیے حکومت نے اب تک کسی قسم کے سنجیدہ اقدامات نہیں کیے۔حکومت اگر شہریوں کو تعلیم، روزگار،صحت ، صفائی،امن و امان جیسی بنیادی سہولیات فراہم نہ کرسکے تو شہری کس سے فریاد کریں۔
خدا راہ کراچی کے عوام اور کراچی کی روح سے کھلواڑ نہ کریں ۔ کراچی کو ایک دہائی پہلے والا کراچی بنائیں ۔ کراچی میں روشنیاں پھر سے لوٹائیں ۔