(شامی ائربیس پر امریکی کروز میزائل حملہ محرک کون133 ٹرمپ یا پینٹاگون؟ (منیب حسین

192

امریکا نے شام میں مزاحمت کاروں کے زیر انتظام علاقوں میں کیمیائی حملے کے جواب میں بشارالاسد حکومت کے خلاف کارروائی شروع کردی ہے۔ جمعہ کے روز علی الصبح درجنوں میزائل اسدی فوج کی ایک ائربیس پر برسائے گئے۔ امریکی محکمہ دفاع کے مرکز پینٹاگون کا کہنا ہے کہ مشرقی بحیرہ? روم میں موجود امریکی بحری بیڑے سے 59 ٹام ہاک کروز میزائلوں سے شام کے ایک ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے ہی شام کی ائربیس پر حملے کا حکم دیا تھا۔ اس ائربیس سے گزشتہ منگل کے روز اسدی فضائیہ نے اپنے ہی شہریوں پر کیمیائی حملے کیے تھے۔ انہوں نے اس موقع پر عالمی برادری سے شام میں تنازع کو ختم کرنے میں مدد کرنے کی بھی اپیل کی ہے۔
یاد درہے کہ گزشتہ منگل کے روز شام کے شمال مغربی صوبے ادلب کے قصبے خان شیخون میں زہریلی گیس کے حملے میں 27 بچوں سمیت کم سے کم 72 شہری جاں بحق اور 500 کے قریب متاثر ہوئے تھے۔ امریکا اور اس کے مغربی اتحادیوں نے اس فضائی حملے کے دوران کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام شام پر عائد کیا تھا۔ اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے بھی کہا تھا کہ شام کے مستقبل میں بشار الاسد کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ شام میں منگل کو مشتبہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال ایک سنگین معاملہ ہے اور اس کے لیے سنجیدہ جواب کی ضرورت ہے۔ تاہم یہ سنجیدہ جواب ایک عسکری کارروائی کی صورت میں دنیا کے سامنے ا?یا، جس میں شام کے وسطی صوبے حمص میں اسدی فوج کی ایک بڑی ائربیس شعیرات تباہ کردی گئی۔
میزائل حملے میں اسدی فضائیہ کے طیاروں، رن وے، ایندھن کے اسٹیشن، گوداموں اور ٹاور کو نشانہ بنایا گیا۔ رپورٹس کے مطابق حملے میں ائر بیس کے بنیادی ڈھانچے اور ا?لات کو نقصان پہنچا، اور اب یہ ائربیس قابل استعمال نہیں رہی۔روسی ٹیلی وڑن نے جمعہ کے روز امریکی حملے کے بعد شعیرات ائربیس کی تصاویر نشر کیں۔ روسی ٹی وی کا کہنا تھا کہ امریکی میزائل حملے کے ذریعے اسد حکومت کے 99 لڑاکا طیارے تباہ کر دیے گئے۔ اسدی فوج کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ امریکی حملے میں 7 افراد ہلاک اور 9 زخمی ہوئے، جب کہ ہوائی اڈے کو بھاری مادی نقصان پہنچا ہے۔
حملوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شام کے صدر بشار الاسد کے رویے کو کئی بار تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن انہوں نے اپنے لوگوں پر کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا جو ناقابل قبول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام میں حملہ امریکی مفاد کے پیش نظر کیا گیا اور صرف مخصوص اہداف پر فوجی کارروائی کا حکم دیا گیا۔
اس حملے کے بعد عالمی برادری کی جانب سے مثبت ردعمل دیکھنے میں ا?یا ہے، تاہم بشارالاسد کے سب سے بڑے اتحادی اور بقا کے ضامن روس نے شعیرات ائربیس پر امریکی میزائل حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے خود مختار مملکت کے خلاف جارحیت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ امریکی میزائل حملوں کے بعد کریملن سے جمعہ کے روز جاری پہلے بیان میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ امریکی کارروائی سے واشنگٹن اور ماسکو کے تعلقات کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد روس نے امریکا کے ساتھ ایک معاہدے کو معطل کرنے کا باضابطہ اعلان بھی کردیا۔ اس معاہدے کا مقصد شام کی فضائی حدود میں دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی فضائی حادثے کو روکنا تھا۔ روس اور امریکا نے اکتوبر 2015ء4 میں ایک معاہدے کے پروٹوکول پر دستخط کیے تھے جس میں بعض اصول اور پابندیاں بیان کی گئی تھیں، تا کہ شام کی فضائی حدود میں دونوں ملکوں کے طیاروں کے درمیان کسی بھی واقعے کو پیش ا?نے سے روکا جا سکے۔
کونسل ا?ف ریشین فیڈریشن کی بین الاقوامی کمیٹی کے سربراہ کانسٹینٹائن کوساچوف نے کہا ہے کہ حملوں کے بعد شام کے حوالے سے روس امریکا اتحاد مشکوک ہو گیا ہے۔ بیان میں ایک بار پھر دعویٰ کیا گیا ہے کہ شام کی سرکاری فوج کے پاس کیمیائی ہتھیار نہیں ہیں، حملے بے بنیاد دعویٰ کی روشنی میں کیے گئے، کیوں کہ اسد حکومت کے پاس کیمیائی ہتھیار نہیں ہیں۔ کونسل ا?ف ریشین فیڈریشن کی ڈیفنس کمیٹی کے سربراہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی کارروائی سے شام میں دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکی کارروائی کے کچھ ہی دیر بعد روس کا یہ موقف بھی سامنے ا?یا ہے کہ ماسکو شام پر امریکی حملے کے بعد اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا اجلاس بلائے گا۔ روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخاروفا نے جمعہ کے روز کہا کہ ان کے ملک نے صورت حال کا جائزہ لینے کے واسطے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
دوسری جانب ازبکستان میں موجود روسی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ شام میں امریکی حملہ جارحیت ہے۔ اپنے ازبک ہم منصب کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرگئی لاروف نے کہا کہ اس میں ذار بھی شک نہیں کہ شعیرات پر امریکی حملہ ایک جارحانہ کارروائی ہے۔ اس نے 2003ء4 کی یاد تازہ کر دی ہے، جب سلامتی کونسل سے رجوع کیے بغیر ہی عراق پر حملہ کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکا نے خان شیخون پر حملے کی تحقیقات کے نتایج کا انتظار کیے بغیر ہی شام کو نشانہ بنا ڈالا ، اور اس حملے کے بعد روس اور امریکا کے درمیان کسی بھی قسم کا تعاون ناممکن نظر ا?تا ہے۔
اسی طرح بشارالاسد کے دوسرے بڑے حلیف اور شام میں عسکری طور پر موجود ایران نے امریکی حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے شدت پسندوں کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ ایرانی نیوز ایجنسی ا?ئی ایس این اے نے وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے شام اور خطے میں حالات کو مزید پیچیدہ کر دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران اس یک طرفہ حملے کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ ان حملوں سے شام میں دہشت گردوں کو فروغ ملے گا۔
ادھر شامی ہوائی اڈے پر امریکی میزائل حملے پر امریکا کے ایوان نمائندگان نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا۔ امریکا کی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے چیئرمین ایڈ رائس نے اپنے ردعمل میں کہا کہ شام کے صدر بشار الاسد کو امریکا اور اقوام متحدہ کی طرف سے بار ہا متنبہ کیا گیا، لیکن دانستہ طور پر معصوم مردوں، خواتین اور بچوں کو نشانہ بنانا نا قابل برداشت ہے۔ ایڈ رائس نے مزید کہا کہ اب بشار الاسد ایک اور کیمیائی حملہ کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں، جس پر امریکی انتظامیہ نے ایک محتاط جواب دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ا?گے چل کر امریکی انتظامیہ کو کانگریس کے ساتھ مل کر شام اور خطے سے متعلق واضح پالیسی کا تعین کرنا چاہیے۔
ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے ایک ممتاز رکن ایڈم شف ڈی کلاف نے کہا کہ صدر ٹرمپ کو مستقبل میں ایسی کسی کارروائی کے بارے میں کانگریس سے رابطہ کر کے اسے مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس فضائی کارروائی سے بشار الاسد کی حکومت کا جلد خاتمہ تو نہیں ہو گا۔ لیکن شاید یہ اسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے مزید استعمال کو روکنے میں مددگار ثابت ہو۔ شف ڈی کلاف نے کہا کہ اس میزائل حملے اور شام میں پہلے سے موجود ہماری فوج کی کارروائی کی کانگریس سے منظوری ہونا ابھی باقی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب کانگریس کا اجلاس ہو گا تو میں داعش اور القاعدہ کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت دینے کا مجوزہ بل پیش کروں گا۔ کانگریس اب مزید اپنی ذمے داریوں سے پہلو نہیں ہو سکتی ہے۔
بشارالاسد مخالف شامی حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی امریکی میزائل حملوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے امریکا سے ایسے مزید حملے جاری رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس امر کا اظہار شامی حزب اختلاف کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کیا۔ شام کی انقلابی اور قومی اپوزیشن کونسل کے اتحاد کے میڈیا سیل کے سربراہ احمد رمضان نے ایک بیان میں کہا کہ شامی اتحاد امریکی حملوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے واشنگٹن سے اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بشار الاسد کے مستقبل میں ایسے حملوں کی صلاحیت ختم کرنے کے لیے ایسے مزید حملوں کا سلسلہ جاری رکھیں۔ احمد رمضان نے دعویٰ کیا کہ امریکی میزائل حملے کا نشانہ بننے والی ائر بیس پر دھماکا خیز بیرل بم سمیت کیمیائی مواد کے حامل میزائل تیار کیے جاتے تھے۔ حزب اختلاف کے ترجمان نے بتایا کہ مہلک ہتھیاروں کو شامیوں کے قتل میں استعمال کیا جاتا تھا۔
اس حوالے سے سعودی عرب کا ردعمل بھی مثبت رہا۔ سعودی وزارت خارجہ کے ایک ذمے دار نے اسد حکومت کی جانب سے نہتے معصوم شہریوں کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں اسدی فوجی اہداف پر امریکا کے کروز میزائل حملوں کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔ سعودی وزارت خارجہ کے اعلیٰ عہدے دار نے امریکا کے حالیہ فوجی حملے کی ذمے داری اسد حکومت پر ڈالتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دلیرانہ فیصلہ دراصل اسد حکومت کے مسلسل جرائم کا جواب ہے، کیوں کہ عالمی برادری اب تک بشار الاسد کو اپنے جرائم روکنے میں بری طرح ناکام دکھائی دیتی تھی۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے بھی ان حملوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ شام کے شمال مغربی صوبے ادلب میں خان شیخون کے مقام پر گزشتہ منگل کے روز ہونے والے کیمیائی حملے کے بعد وہ اسد انتظامیہ کے خلاف کسی بھی فوجی کارروائی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ترک صدر کا مزید کہنا تھا کہ ان کا ملک شام میں فوجی کارروائی کاحامی ہے اور اگر ضرورت پڑی تو اس میں مدد بھی فراہم کرے گا۔ ترکی کے ٹی وی چینل سیون کو دیے گئے ایک انٹرویو میں صدراردوان نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ادلب میں فضائی حملوں کے ردعمل میں کہا ہے کہ اسد انتظامیہ کے ہاتھوں شہریوں کے وحشیانہ قتل عام کے بعد خاموش رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ میں امریکی صدر کے اس بیان پر ان کا شکر گزار ہوں، مگر اب وقت باتوں اور بیانات سے ا?گے بڑھ کر عملی کارروائی کا ہے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ اگر ایسی کارروائی مزاحمت کاروں کی جانب سے کی جاتی توہم اس کی بھی شدید مذمت کرتے۔ ہم ترکی میں ہیں، مگر ہمیں اپنی ذمے داریوں کا احساس ہے۔ ترکی اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اسد انتظامیہ اگر ادلب میں نہتے شہریوں پر کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی قصور وار ہے تو اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ صدراردوان نے کہا کہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ خطے میں خطرے کے وائرس کون کون سے ہیں اور ان سے کیسے نمٹنا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اردوان نے کہا کہ خان شیخون میں ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے پر انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے بھی بات کی ہے۔ ترک صدر کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کن گھڑی ہے اور ہمیں خان شیخون واقعے کی تہہ تک پہنچ کر اس کے مرتکب جنگی مجرموں کو سزا دینی ہوگی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شامی زئربیس پر امریکا کے کروز میزائل حملے صدر بشار الاسد کے لیے ایک واضح پیغام کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اب ایسا نہیں چلے گا۔ کیمیائی ہتھیار استعمال ہوں گے تو امریکا طاقت سے جواب دے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس کارروائی کے نتایج واضح نہیں کہ ا?یا اقتدار پر اسد کی گرفت اتنی ہی مضبوط رہے گی جتنی کہ تھی، یا پھر ان کی مزید کیمیائی حملے کی استعداد کچھ کم ہو چکی ہے۔ کارروائی کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ فوجی اقدام کا مقصد چوکنہ کرنا تھا۔ جب کہ امریکی اہل کاروں نے کہا کہ شعیرات ائربیس کو نشانہ اس لیے بنایا گیا کہ وہ دوبارہ قابل استعمال نہ رہے اور اس طرح کے حملے کرنے کے لیے استعمال نہ کی جاسکے، جس میں تقریباً 100 افراد ہلاک ہوئے۔
امریکا نے شام کے خلاف اعلانِ جنگ نہیں کیا۔ یہ مداخلتی اقدام انتہائی محدود نوعیت کا تھا، جس سے اسدی فوج کی صلاحیت میں کمی لانے کی کوشش کی گئی ہے، تاکہ وہ اپنا طرزِ عمل بدلے اور امریکا نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ ضرورت پڑنے پر کسی مزید فوجی اقدام کو وسعت دینا ممکن ہے۔ تاہم میزائل کے حیران کن یکے بعد دیگرے نشانوں سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ ا?یا حالیہ دنوں کے دوران ٹرمپ کے موقف میں ا?نے والی اس تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے شام کے معاملے پر پالیسی اب کیا رخ اختیار کرتی ہے۔ ایک ہفتہ نہیں گزرا کہ ان کی انتظامیہ نے زور دے کر کہا تھا کہ اسد کو اقتدار سے ہٹانا ان کے لیے ترجیحی معاملہ نہیں اور امریکا کا دھیان ملک کے شمال میں داعش کی سرکشی کو شکست دینے پر مرتکز ہے، لیکن جمعرات کی رات یوں لگا کہ ٹرمپ نے ایک نئے کھلے عزم کا انداز اپنایا ہے کہ اسد کی جانب سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے استعمال کا جواب ناگزیر ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کے الفاظ میں ’یہ امریکا کی قومی سلامتی کے مفاد کا ایک کلیدی اصول ہے کہ ہم کسی طور پر مہلک کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال اور پھیلاو? کو برداشت نہیں کرتے اور اسے روکیں گے‘۔ تاہم خیال یہی کیا جا رہا ہے کہ روس کو قریب کرنے کے خواہاں ٹرمپ کی جانب سے یہ اقدام بعید تھا۔ ممکنہ طور پر امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے صدر ٹرمپ کی پے در پے انتظامی ناکامیوں کے بعد انہیں ایسا کرنے پر راضی کیا۔ اس لیے شامی ائربیس پر کروز میزائلوں سے حملوں میں بڑا کردار ممکنہ طور پر پینٹاگون کا ہے امریکی صدر ٹرمپ کا نہیں۔