آج جب ہم اپنے بچوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم نے لالٹین کی روشنی میں میٹرک پاس کیا تھا تو وہ حیران ہوتے ہیں، شروع شروع میں تو یہ سوال بھی ہوتا تھا کہ یہ لالٹین کیا چیز تھی اور چراغ کا ہماری زندگی میں کیا دخل تھا۔ ان کو اس کی تفصیل بتائی جاتی کہ چراغ ایک کپی نما ڈبیا ہوتی ہے جس کے ڈھکن میں ایک سوراخ ہوتا اس میں کپڑے کی بتی بنا کراس طرح گزارا جاتا کہ اس کا ایک سرا ڈبیا کے اندر مٹی کے تیل میں ڈوبا رہتا اور دوسرا سرا ڈھکن کے اوپر رہتا جس کو جلا کر روشنی کی جاتی چوں کہ ہوا میں بجھ جانے کا اندیشہ رہتا اس لیے اسے جھونپڑی یا کمرے کے اندر رکھا جاتا تھوڑی سی لاپروائی سے اکثر اوقات حادثات بھی رونما ہو جاتے تھے۔ اس کے مقابلے میں لالٹین میں شیشے کی چمنی ہوتی اس لیے وہ نسبتاً محفوظ ہونے کی وجہ سے دالان میں یا کھلے آنگن رکھی جاتی تھی۔
قیام پاکستان کے تقریباً بیس پچیس سال بعد تک کچھ اسی قسم کی صورت حال تھی۔ ہندوستان سے ہجرت کرنے والوں کی اکثریت کا رخ کراچی کی طرف تھا۔
پھر زندگی کی گاڑی آگے بڑھتی ہے پانی ٹینکر کی جگہ سرکاری نل گلیوں کے کونوں پر لگ جاتے ہیں قریب کے گھر والے ربڑ کے پائپ لگا کر اپنے گھروں میں پانی بھرتے دور والے بالٹیوں اور کنستروں میں بھر کر لے جاتے کھاتے پیتے گھروں اور ہوٹلوں میں بھشتی کمر پر مشک لادے بھاگتے دوڑتے نظر آتے۔ گھروں میں جو بیت الخلا ہوتے سیوریج کا سرکاری انتظام نہ ہونے کی وجہ روزآنہ کی بنیاد پر سوئپرز تمام فضلہ ایک بڑے ڈرم میں بھر لے جاتے اور ماہانہ کی بنیاد پر اپنی اجرت وصول کرتے کبھی وہ چھٹی کرلیں یا ان کی ہڑتال ہو جائے تو لوگوں کی پریشانیاں بڑھ جاتیں، جب یہ سلسلہ زیادہ بڑھا تو اس کا متبادل حل یہ ڈھونڈا گیا گھرں میں کوئیں کھودے جانے لگے یہ پانی کے لیے نہیں بلکہ سیوریج کے لیے، فلش سسٹم کو اس سے منسلک کردیا جاتا ہر ماہ دو ماہ بعد اس میں چونا ڈال دیا جاتا کہ کیڑے مکوڑے اور بدبو نہ پھیلے۔ جب بلدیہ کی طرف سے سیوریج کی لائنیں ڈالی گئیں تو لوگوں نے اس کا استعمال شروع کردیا۔
یہ صورت حال کراچی کی ان تمام بستیوں کی رہی جو لیاقت آباد کے ساتھ آباد ہوتی رہیں جن میں گولیمار جسے اب گلبہار کہا جاتا ہے، اس کے فوری بعد ناظم آباد باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے ساتھ بنایا گیا جہاں نسبتاً تعلیم یافتہ مالی طور پر آسودہ لوگ آباد ہوئے لیاقت آباد کے بعد جو بستیاں آباد ہوئیں ان میں لانڈھی، کورنگی، ملیر، سعودآباد، شاہ فیصل کالونی (پرانا نام ڈرگ کالونی)، جیکب لائن، جٹ لائن، رتن تلاؤ، نیو کراچی اور کچھ اور ملتی جلتی بستیاں شامل ہیں۔ ان بستیوں میں حکومت نے باقاعدہ چار دیواری کے ساتھ مکانات بنا کر دیے تھے۔ تیسرے مرحلے میں فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد اور نارتھ کراچی ا ور دیگر آبادیاں وجود میں آئیں۔ ان آبادیوں میں انفرا اسٹرکچر یعنی پانی، بجلی، گیس، سیوریج اور ٹیلی فون کی لائینیں پہلے سے موجود تھیں۔ یہ وہ دور تھا جب آپس میں دوست احباب اور رشتہ دار ایک دوسرے کی خبر گیری اور خیریت کے لیے ایک دوسرے کے گھروں میں ماہ یا دو ماہ بعد جایا کرتے تھے بلکہ دو چار دن رہ بھی جایا کرتے تھے ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ کھوکھرا پار سعودآباد میں ہمارے کچھ رشتہ دار رہتے تھے ہم بہن بھائیوں کو والدہ ان سب کے یہاں لے کر جاتی تھیں کھوکھراپار میں رشتے کی خالا کا گھر تھا بڑی محبت والی خاتون تھیں ان کے یہاں ہم دو چار دن رہ کر آتے تھے وہ بھی جب ہمارے گھر آتی تھیں تو چار چھ دن رہ کر جاتی تھیں یہ وہی بات ہو جو ایک دفعہ جناب منور حسن صاحب نے ایک تقریر میں کہا تھا کہ جب ہمارے گھروں میں ایک کمرہ ہوا کرتا تھا تو کبھی خالااور ان بچے آرہیں کبھی پھوپھو توکبھی چچا اور ماموں کی فیملی آرہی ہے اور وہ کئی کئی دن رہتے بھی تھے جگہ کم نہیں پڑتی تھی دل شاد باد رہتا تھا اب ہمارے گھروں میں ڈرائنگ روم الگ ڈائینگ روم الگ اور کئی بیڈروم ہونے کے باوجود اب کوئی رہنے کے لیے نہیں آتا،پہلے چھوٹے گھر بڑی جگہیں بن جاتی تھیں اب گھر بڑے ہوگئے لیکن جگہیں تنگ ہوگئیں،یعنی بڑھ گئے انسان گھٹ گئے سائے،اب رشتہ داروں،دوستوں اور احباب کی ملاقاتیں دو مواقعوں پر ہوتی ہیں ایک کسی کی شادی بیاہ اور دیگر خوشی کے موقع پر اور دوسرے کسی کی وفات کے موقع پرایک دوسرے کا حال چال معلوم کرلیتے ہیں۔ہو سکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ اس مضمون کے لکھنے کا مقصد کیا ہے یونہی بیٹھے بیٹھے پرانی باتیں کیوں لکھنا شروع کر دیں،میں جو بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ پہلے جب ہماری زندگی میں مشکلات تھیں تو ہم صبر و شکر کا پیکر نظر آتے تھے۔ایک فرد شدید گرمی پسینے سے شرابور دستی پنکھے سے ہوا جل رہا ہے کبھی کبھی اس پنکھے کی ڈنڈی سے پیٹھ کھجاتا۔ اس سے جب پوچھا جاتا اور بھائی کیا حال ہے تو وہ جس کے چہرے پر گرمی کی وجہ سے بیزاری اور ناگواری کا آثار نظر آتے یکایک اس کا چہرہ کھل جاتا اور بڑے شگفتہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہتا اللہ کا شکر ہے اس کا بڑا احسان ہے دال روٹی چل رہی ہے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا پڑتا وہ ان الفاظ کو صرف زبان ہی سے نہیں کہہ رہا ہوتا بلکہ پورا جسم اس کے ساتھ گواہی دیتا اس کی پوری باڈی لنگویج احساس تشکر کی علامت نظر آتی۔اور آج کیا حال ہے کہ ائر کنڈیشن میں بیٹھے ہیں صبح ہی پچاس لاکھ کی پیمنٹ آئی ہے اس سے کہیں زیادہ کے آرڈرز آئے ہوئے ہیں کروڑوں کے بنگلے میں رہائش ہے ہر بچے کے پاس الگ الگ گاڑیاں ہیں،جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اور سنائیے خان صاحب کیا حال ہے تو اچانک چہرے پر بیزاری اور ناگواری کی کیفیت طاری ہوجاتی اورجواب دیتے یار حال ٹھیک نہیں ہے اب پہلے جیسی بات نہیں رہی مارکیٹ میں کروڑوں روپے پھنسے ہوئے ہیں کاروبار کی صورتحال بہت خراب ہے وہ یہ الفاظ صرف کہہ ہی نہیں رہا ہوتا بلکہ پوری باڈی لنگویج سے ناشکری کا اظہار ہورہا ہوتا ہے کہ وہ اپنا برا وقت بھول جاتا ہے۔