سرکاری سرپرستی میں دیوالی اور ہولی کیوں؟ذکیہ فرحت(ناظم آباد، کراچی)

88

اس بار ہولی اور دیوالی جو باقاعدہ سرکاری سطح پر منائی گئی اور اس کی تصویر بھی اخبار میں شائع ہوئی اس سے پاکستانی قوم کے جذبات انتہائی مجروح ہوئے ہیں۔ آخر ہمارے حکمرانوں کو کیا ہوگیا ہے۔ وہ کیوں یہ بات بھول جاتے ہیں کہ وہ ایک اسلامی ملک کے مسلمان حکمراں ہیں۔ کیا یہ سب کچھ کسی سازش کے تحت کیا جارہا ہے؟
ہولی ہو یا دیوالی یہ خالص ہندوؤں کا تہوار ہے۔ مسلمانوں کا اس سے کوئی تہذیبی، معاشرتی یا نظریاتی تعلق قطعی نہیں۔ ہندو اپنے دیوی دیوتا کے نام پر یہ تہوار مناتے ہیں جس کی دین اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ پھر یہ گورنر ہاؤس میں بعد اہتمام منایا جانا کس بات کا اظہار ہے؟شاید وہ اسے یکجہتی کا اظہار سمجھتے ہوں لیکن حقیقت میں ان کے دل میں اپنے دین اسلام سے محبت نہ ہونے کا ثبوت ہے۔ اور دراصل اسے مناکر اپنے دین ومذہب کا مذاق اڑانا اور درپردہ دین کے دشمنوں کو خوش کرنا ہے جن کا ان پر دباؤ ہے اور اپنے اقتدار کے تحفظ کی خاطر دشمنان دین کی خوشنودی میں لگے ہوئے ہیں۔
ہماری ان سے گزارش ہے کہ وہ سمر قند وبخارا کی تاریخ نہ دہرائیں بغداد وبلخ کے حکمرانوں کی طرح جنہوں نے اقتدار کے لیے سازشیں کرکے شہر کے شہر تاتاریوں کے ہاتھوں کٹوادیے تھے۔
خدارا اس ملک کو جو بڑی جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں سے وجود میں آیا ہے دوبارہ غلامی کی دلدل میں نہ دھنسائیں۔ اس دلدل سے وہ آگ اور خون کا دریا پار کرکے نکلی ہے اسے پھر غلامی کی زنجیر نہ پہنائیں۔ وہ مسلمان ملک کے حکمراں اور مسلمان قوم کے رہنما ہیں وہ اپنے ملک وقوم کی رہنمائی کریں۔ ان پر مغربی پابندی تہذیب اختیار کرنے کی کوئی پابندی نہیں بلکہ وہ خدا اور رسول کے پابند ہیں۔
انہیں اگر ہندی تہذیب وتہوار سے اتنی ہی محبت ہے تو وہ شوق سے ہندو مت اختیار کریں انہیں کچھ نہیں کہا جائیگا لیکن خدا کے لیے قوم پر رحم کریں اسے مجبور نہ کریں کہ اپنی رہی سہی اسلامی تہذیب واقدار سے بھی برگشتہ ہوجائے شاید ایسے ہی حکمرانوں کیلیے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ ۔
ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
عقل حیران ہے کہ بھارتی حکومت جو ہر روز ہماری سرحد پر کسی سپاہی یا شہری کو نشانہ بناتی ہے جس نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کررکھا ہے ماؤں بہنوں کی عزتیں پامال ہورہی ہیں اور ہم یہاں ان کا تہوار مناکر خوش ہورہے ہیں۔ کیا ہندوؤں نے بھی کبھی ہمارا تہوار منایا ، ہمارا لباس پہنا، ہماری مسجدوں میں آئے اس کے برعکس وہاں ہمارے ایک دینی شعار گائے کے ذبیحہ پر بھی پابندی ہے اور اس کی سزا انسانوں کا قتل ہے۔ پھر ہم پر کیا افتادپڑی ہے کہ ہم اس شرک اور بت پرست قوم کی نقالی کریں۔
گورنر صاحب یقیناًیہ جانتے ہونگے کہ اقتدار ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں اس کی خاطر یہ اتنی پستی میں نہ گرجائیں کہ اقتدار کے ساتھ دین وایمان سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں اور دنیا ہم پر ہنسے کہ
یوں تو سید بھی ہومرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہوں