عدم توازن کا شکار خارجہ پالیسی کے خوفناک نتائج کو ہم سے زیادہ کوئی دوسرا ملک نہیں سمجھ سکتا۔ قیام پاکستان کے بعد ہی عالمی اور علاقائی صورت حال نے نوزائیدہ ریاست کو سرد جنگ کے دو طاقتور فریقوں میں سے کسی کو چننے کی راہ پر ڈال دیا۔ پاکستان نہ چاہتے ہوئے یہ تلخ فیصلہ کرکے ایک مستقل عذاب کو گلے لگا بیٹھا۔ عمومی طور پر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کو اس بنا پر مطعون کیا جاتا ہے کہ انہوں نے سوویت یونین کے دورے کی دعوت مسترد کرکے امریکا کی دعوت قبول کرکے سوویت یونین مخالفت کا موقع اور جواز فراہم کیا مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان اس وقت برطانیہ سے آزاد اور ہندوستان سے الگ تو ہوا تھا مگر بہت سی پالیسیوں پر برطانوی دور کی چھاپ نمایاں تھی اور پاکستان کی نئی پالیسیاں بھارتی رویے اور خطرے کے گر دگھوم رہی تھیں۔ امریکا اس وقت ڈوبتے ہوئے برطانیہ کا جانشین بن کر اُبھر رہا تھا اور پاکستان کے لیے برطانیہ کے جانشین سے فاصلہ پیدا کرنا آسان نہیں تھا۔ جو بھی ہوا مگر اس پالیسی نے پاکستان کو بہت نقصان اور چرکے ہی لگائے۔ ڈوبتے مشرقی پاکستان کو بچانے کے لیے ساتویں بحری بیڑے کا انتظار تو اب انتظارِ لاحاصل کے حوالے کے لیے ایک محاورہ سا بن کر رہ گیا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے غیر متوازن تعلق میں ساتویں بحری بیڑے جیسے بے شمار مقام اور موڑ آتے رہے ہیں۔ مدتوں بعد امریکا کے وزیر خارجہ کولن پاؤل کا پاکستان کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف سے دھمکی میں ملفوف ایک مختصر سوال کہ ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ‘‘ اس افسانے کا ایک اور موڑ ہے۔ پرائی لڑائیوں میں پڑ کر پاکستان نے اپنے ہاتھ جلانے کے سوا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اس لیے اب بھی اگرپاکستان کی حکمران اشرافیہ اپنے سب انڈے، ڈنڈے اور جھنڈے کسی ایک ٹوکری میں ڈالنے پر مصر ہو تو اس پر کفِ افسوس ملنے کے سوا اور کیا جا سکتا ہے؟۔
غیر متوازن خارجہ پالیسی کے مضمرات کے لیے پاکستان کو کسی دوسرے ملک کی تاریخ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ خود پاکستان کی تاریخ کا گہرائی میں جا کر مطالعہ کرے تو تاریخ اور تجربے سے بڑا اتالیق کوئی ثابت نہیں ہوگا اور انہیں خارجہ پالیسی میں عدم توازن کے نقصانات کا بخوبی اندازہ ہوگا۔ ملامتی اور مذمتی گروہ کی بات چھوڑیں مگر خدا لگتی ہے بات ہے کہ پاکستان کی ماضی قریب کی کچھ پالیسیوں میں ماضی بعید سے سبق حاصل کرنے کے اشارے ملتے ہیں۔ اب پاکستان ہمہ وقت بروئے کار آنے پر تیار نہیں رہتا خواہ اس کے لیے مہربانوں اور دوستوں کی پیشانیوں پر شکنیں ہی کیوں نہ اُبھریں۔ دودھ کا جلا چھاچھ کو بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے کے مصداق ماضی کی یہی یادیں اور تلخیاں ہیں کہ پاکستان کسی تنازعے میں فریق بننے لگتا ہے تو خدشات اور اعتراضات کا ایک بحرِ بیکراں سامنے آتا ہے اور لوگ برملا غیر متوازن ہوتی ہوئی پالیسی پر لب کشائی کرنے لگتے ہیں۔ کچھ یہی معاملہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کو سعودی قیادت میں بننے والے فوجی اتحاد کی سربراہی سونپنے کے فیصلے کے بعد ہورہا ہے۔ حکومت کی طرف سے جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب کی قیادت میں قائم ہونے والے انتالیس ملکی فوجی اتحاد کی سربراہی کے لیے این او سی جاری ہونے کے بعد سے ایران کی طرف سے اس فیصلے پر مسلسل تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے دونوں اسلامی ملکوں کے درمیان تعلقات میں توازن رکھنے کی بات بھی مسلسل کی جارہی ہے اور یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ انتالیس رکنی فوجی اتحاد کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اب اس معاملے میں سب سے اہم وضاحت سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کی طرف سے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں پیش کی ہے۔ سیکرٹر ی خارجہ نے قائمہ کمیٹی کے ارکان کے بہت تلخ سوالوں کا صراحت کے ساتھ جواب دیا۔ مثلاً ایک رکن نے پوچھا کہ کیا یہ اتحاد اسرائیل کے خلاف لڑائی کرے گا؟ تہمینہ جنجوعہ کا کہنا تھا کہ پاکستان ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں توازن رکھے گا۔ مسلم ممالک کو یکجا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسلامی عسکری اتحادی کسی فرقے کے خلاف ہے اور نہ ہی ہم ایرانی مفادات کے خلاف جائیں گے۔ کسی ریٹائرڈ پاکستانی جنرل نے بھی ایران کی کبھی مخالفت نہیں کی۔
تہمینہ جنجوعہ کی طرف سے دوٹوک وضاحت کے ساتھ ہی فوج کے ادارے آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے لندن میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگرجنرل راحیل شریف کو سعودی عرب بھیجنا ریاست کا فیصلہ ہے اگر یہ سمجھا گیا کہ جنرل راحیل کو بھیجنے کے مقاصد پورے نہیں ہوئے تو انہیں واپس بھی بلاسکتے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے بھی ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں توازن رکھنے کی بات کی۔ تہمینہ جنجوعہ کی وضاحت جو پاکستان کی سیاسی اور سویلین فورسز کی ترجمانی کہا جا سکتا ہے تو جنرل آصف غفور کی وضاحت کو پاکستانی فوج کا موقف قراردیا جا سکتا ہے یوں پاکستان کے پاور اسٹرکچر کی دو اہم قوتیں جنرل راحیل شریف کی سعودی عرب روانگی اور ایران سعودی تعلقات میں توازن کے حوالے سے یکساں موقف کی حامل ہیں۔ ان کھلی اور غیر مبہم وضاحتوں کے بعد یہ خدشات اب ختم ہوجانے چاہیے کہ پاکستان دو ملکوں کی کشمکش میں کسی ایک فریق کا ساتھ دے کر اپنی خارجہ پالیسی کا توازن خراب کررہا ہے۔ ایسا خود پاکستان کے لیے بھی کسی طور مناسب نہیں۔ ایران اور سعودی عرب دونوں پاکستان کے کھلے دشمن نریندر مودی سے گرم جوش تعلقات قائم کرنے میں مگن ہے مگر پاکستان نے کسی ملک سے شکوہ نہیں کیا۔ ملکوں اور ریاستوں کو باہمی مفاد میں اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے کا حق ہوتا ہے۔ تاآنکہ ان تعلقات کی زد کسی تیسرے ملک پر نہ پڑے۔ سردست ایسا ہوتا نظر نہیں آتا امریکا کی خاطر بار بار استعمال ہو کر پاکستان نے تاریخ سے بہت سبق سیکھ لیا ہے۔