ٹیلی فون انڈسٹریز آف پاکستان ہری پوری۔ بند نہیں بحال کریں سید محمود شاہ گیلانی، داتہ، مانسہرہ

94

پاکستان بننے کے بعد چار سال تک ٹیلی فون سیٹ اور ٹیلی فون ایکسچینجز امپورٹ ہوئے۔ پھر وزارت مواصلات نے علی پور کلکتہ کی طرح ٹیلی فون مقامی طور پر تیار کرنے کے لیے پروگرام بنایا اور باقاعدہ سروے کرایا گیا۔ سروے ٹیم نے رپورٹ دی کہ کراچی میں ہوا میں نمی کی وجہ سے ٹیلی فون کی مشینری جلد ناکارہ ہوجائے گی اور سندھ اور پنجاب میں نمی اور گرد کی وجہ سے جلد زنگ لگ جائے گا۔ اس لیے ٹیلیفون فیکٹری ہری پور میں لگانے کا فیصلہ ہوا۔ 1952-53 میں سیمنز (Siemens) جرمنی کے اشتراک سے قائم ہونے والی ٹی آئی پی (TIP) فیکٹری 7000 ٹیلیفون ایکسچینج لائنیں اور 10,000 ٹیلی فون سیٹ سالانہ سے شروع کرکے 10 سال میں 50,000 ایکسچینج لائنیں اور ایک لاکھ ٹیلی فون سیٹ سالانہ کی پیداوار تک پہنچ چکی تھی۔ 1963ء میں عمارت میں توسیع ہوئی، مزید ورکشاپس بنیں اور نئی مشینوں کی تنصیب ہوئی۔ 1965ء کی جنگ میں فیلڈ ٹیلی فون کی زیادہ ضرورت کے پیش نظر ایک نئی فیکٹری این آر ٹی سی (NRTC) بنی اور ٹی آئی پی کے فیلڈ ٹیلی فونوں کی اسمبلی لائن اس کو منتقل کردی گئی۔ بعد میں مشرقی پاکستان کے مطالبے پر 1967 میں ڈھاکا میں ٹی آئی سی ٹونگی (TIC Tongi) بنائی اور پھر 1967 میں ہی کھلنا میں کیبل (Cable) فیکٹری لگائی اور اسلام آباد میں 1969 میں سی ٹی آئی (STI) بنائی۔ یہ سب کام ٹی آئی پی کے تعاون سے ہوا۔ بہت سے ملازمین یہاں سے مہارت حاصل کرکے پاکستان مشین ٹول فیکٹری، ایچ ایم سی (HMC)، ایچ ایف ایف (HFF)، ایچ ای سی (HEC)، اور ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا گئے اور ان فیکٹریوں کو چلایا۔ تین سالہ اپرنٹس پروگرام کے تحت ہنر مند کارکنوں کی ایک فوج تیار کی جو ملک میں اور ملک کے باہر جہاں کہیں بھی گئے بڑا نام پیدا کیا۔ خود ٹی اینڈ ٹی (TNT) بھی ٹی آئی پی کے تعاون سے ترقی کرتی گئی کیوں کہ دونوں کا مشترکہ گروپ ایکسچینج پلاننگ اینڈ انسٹالیشن (EPIC) کے نام سے سارا سال کام کرتا رہتا تھا۔
ٹیلی فون کی ڈیمانڈ کم ہوئی تو ٹیلی پرنٹر مشینیں بنانی شروع کردیں۔ پھر پرتگال کی فرم میسا (MESSA) سے ٹائب رائٹر پروجیکٹ کے لیے مشینیں خرید لیں۔ اور پور ٹیبل اسٹینڈرڈ اور الیکٹرونک ٹائپ رائٹرز بنائے۔ پور ٹیبل ٹائپ رائٹرز اردو، انگریزی، ترکی او ردوسری زبانوں میں بنائے اور ایکسپورٹ بھی کیے۔ باقاعدہ ایکسپورٹ کا محکمہ قائم کیا۔ ٹیلی فون، ایکسچینجز اور الیکٹرونک ٹائپ رائٹرز ایکسپورٹ کیے۔ پی ٹی سی ایل کی تمام ایکسچینجز کے لیے ائر کنڈیشننگ کا سلسلہ قائم کیا۔ پھر بجلی کے میٹر ڈیزائن کیے اور ان کی پروڈکشن کی۔ مشکل ایام میں بھی ٹی آئی پی نے اپنے ملازمین کی فلاح وبہبود کے لیے بہت سے کام کیے۔ مثلاً1981ء میں سی پی ایف اسکیم یونین کے مطالبے پر ختم کی مگر جلد ہی پرائیویٹ پینشن اسکیم وزارت خزانہ سے منظور کرالی اور نافذ کردی۔ اسی طرح فیکٹری کے قریب 1000 کنال زمین 1000 روپے فی کنال کے حساب سے زمین خرید کر پلاٹ بنا کر 20 سال پہلے ملازمین کو دیے تا کہ لوگ یہیں مستقل رہائش اختیار کرلیں۔ اب پنجاب اور سندھ کے بیش تر پنشنرز یہیں آباد ہوگئے ہیں۔ 10 فی صد پلاٹ باقی تھے ان کی الاٹمنٹ پر منسٹری نے ہنگامہ کھڑا کردیا حالاں کہ باقی ملازمین کو ان کا حق دیا گیا۔
آخر اس ادارے کو کسی کی نظر بد کھا گئی۔ ہوا یوں کہ مشرف دور میں بجائے خراب کارکردگی والے اداروں کو پرائیویٹائز (privatize) کرنے کے نفع بخش ادارے پی ٹی سی ایل کو متحدہ عرب امارات کی کمپنی اتصالات کو 26 فی صد شیئر پر انتظامیہ ان کے حوالے کردی گئی۔ ابھی تک انہوں نے پوری رقم بھی ادا نہیں کی مگر پی ٹی سی ایل کی زمینوں پر کراچی سے لے کر ہری پور تک قبضے کی کوششوں میں لگ گئے۔ وزارت آئی ٹی (انفارمیشن ٹیکنالوجی) جس کے ذمے ٹی آئی پی کو چلانا تھا، وہ اس کو بند کرنے کا انتظار کرنے لگے۔ کبھی کنٹریکٹ والے ملازمین کی تنخواہیں بند کیں، کبھی ہسپتال، اسکول، اسٹیٹ آفس بند کردیے۔ ملازمین اور پنشنرز کے میڈیکل بل اور دوائیں بند کردیں۔ کچھ سینئر ملازمین کو غلط طور پر نیب کے حوالے کرکے پریشان اور بے عزت کردیا اور باقی کو ہراساں کررہے ہیں۔
اگر آئی ٹی وزارت ہاتھ اُٹھاتی ہے تو حکومت کو اس ادارے کو بہتر طور پر چلانے کے لیے منسٹری آف انڈسٹریز کے حوالے کردینا چاہیے۔ اگر یہ ادارہ ختم ہوگیا تو پھر اس علاقے کو ایسا ادارہ نہیں ملے سکے گا جس سے پورے علاقے کا روز گار وابستہ ہے چاہے جتنے بھی سی پیک بن جائیں۔ لگتا ہے کہ اتصالات کمپنی نے کوئی خاص چمک دکھائی ہے جس کی وجہ سے ایم ڈی ٹی آئی پی خالد رضا گردیزی اور ان کے ساتھی ایک بے بنیاد مقدمے کے بجائے اس کے کہ خود انکوائری کرتے، اس کو غیر ضروری طور پر نیب (NAB) کے حوالے کرکے سینئر افسران اور ان کے خاندانوں کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
جس طرح چند دن پہلے پاکستان اسٹیل ملز کے بارے میں فیصلہ ہوا ہے کہ اس کی زمینوں کو نہ چھیڑا جائے اور صرف عمارتوں اور مشینوں کو ٹھیکے پر دیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پی ٹی سی ایل اور ٹی آئی پی کی زمینوں کی حفاظت کے لیے سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے اور سازش کو بے نقاب کرے۔ جیسا کہ مغلوں کے دورِ حکومت میں تجارت کی غرض سے انگریز کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی نے پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا تھا بعینہ وہی صورت حال پیدا ہوجائے گی۔ خواہ کتنا ہی بڑا کام ہو زمینوں کا قبضہ کسی حال میں غیر ملکیوں کو نہ دیا جائے۔ اسی میں ملک کی بقا ہے۔