(پاکستان کے بین الاقوامی معاہدات(روفیسر مفتی منیب الرحمن

84

اسلام ایفائے عہد کی تعلیم دیتا ہے اور تاکید فرماتا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے (1): ’’اور وعدے کی پاس داری کرو، بے شک وعدے کے بارے میں باز پرس ہوگی، (بنی اسرائیل:)‘‘، (2) سورۂ بقرہ، آیت: 177میں نیکی کی جامع خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور جب وہ عہد کرلیں، تو اپنے وعدوں کی پاس داری کرتے ہیں‘‘۔ (3) اسی طرح سورۂ المؤمنون میں فلاح یافتہ اہلِ ایمان کی متعدد صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہد کی پاس داری کرنے والے ہیں، (المومنون:8)‘‘۔
عہدِ رسالت مآب ؐ میں مشرکین سے کھلی جنگ تھی، اس دوران رسول اللہ ؐ نے اُن سے معاہدات بھی کیے، وہ معاہداتِ بینَ الاقوام تھے۔ اُن میں سے ایک معاہدۂ حدیبیہ تھا، جس کی بعض شرائط بظاہر مسلمانوں کے حق میں نہیں تھیں اور ان پر صحابہ کرام کو اضطراب بھی تھا، لیکن رسول اللہ ؐ نے اُن شرائط کی پاس داری کی۔ اُن میں سے ایک شرط یہ تھی: قریش کا جو فرد اپنے ولی کی اجازت کے بغیر سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کے پاس آئے گا، اگرچہ وہ دینِ محمد پر ہو، اُسے واپس اُس کے ولی کے پاس لوٹا دیا جائے گا اور جس شخص نے محمد رسول اللہ ؐ کی اتباع کی ہو، اگر وہ قریش کے پاس آئے گا، تو قریش اُسے واپس نہیں لوٹائیں گے۔ ابھی معاہدے پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ابوجَندَل بن سہیل مسلمانوں کے پاس پہنچے، انہیں اُن کے باپ سہیل نے بیڑیاں پہنا کر قید کر رکھا تھا، وہ قید خانے سے نکل کر بچتے بچاتے حدیبیہ پہنچے۔ مسلمان اُن کو خوش آمدید کہنے کے لیے کھڑے ہوئے، جب اُن کے باپ سہیل نے انہیں دیکھا تو اٹھ کر انہیں لاٹھیوں سے مارنے لگا اور گلے سے پکڑ کر کہا: اے محمد! میں یہ پہلا مقدمہ آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں، اِسے واپس لوٹا دیجیے۔ رسول اللہ ؐ نے اس انتہائی تکلیف دِہ صورتِ حال میں فرمایا: ہم عہد شکنی نہیں کریں گے۔ اس دوران صحابہ ابوجندل کو پناہ دے چکے تھے، ابوجندل نے کہا: میں مسلمان ہوکر آیا ہوں، کیا اب مجھے بے یارومددگار کر کے مشرکوں کی طرف لوٹا دیا جائے گا؟، وہ اذیت ناک حالت میں تھے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: اے ابوجندل! صبر کرو، اجر پاؤ گے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اور تمام بے بس لوگوں کے لیے کشادگی اور مشکل سے نجات کی صورت مقدر فرمائے گا۔ ہم نے ایک قوم سے معاہدہ کرلیا ہے اور شرائط طے کرلی ہیں، ہم دھوکا نہیں دیں گے، (سبل الھدیٰ والرشاد)‘‘۔ الغرض رسول اللہ ؐ نے یک طرفہ طور پر اس معاہدے کو نہ توڑا، پھر مشرکوں نے عہد شکنی میں پہل کی تو رسول اللہ ؐ نے پہلے اُن کو وارننگ دی اور فرمایا: اب ہم پر اس عہد کی پاس داری لازم نہیں رہی اور آپ فتحِ مکہ کے سفر پر روانہ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو تاریخی فتح عطا فرمائی، جس کا ذکر قرآنِ مجید میں موجود ہے۔
نو ہجری کو حجۃ الاسلام فرض ہوا اور مسلمان سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی امارت میں حج کے لیے مکۂ مکرمہ تشریف لائے۔ پھر سیدنا علیؓ رسول اللہ ؐ کے نمائندۂ خاص کے طور پر سورۂ برأت کی ابتدائی آیات کا اعلامیہ جاری کرنے کے لیے آئے اور میدانِ عرفات سے تاجدارِ ختمِ نبوت ؐ کی نیابت میں یہ اعلامیہ جاری ہوا:
’’اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اُن مشرکوں سے بے زاری کا اعلان ہے، جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا، سو (اے مشرکو!) اب تم چار ماہ (آزادی سے) چل پھر لو اور یقین رکھو کہ تم اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے حجِ اکبر کے دن تمام لوگوں کے لیے اعلانِ عام ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بریُ الذّمہ ہیں، سو اگر تم توبہ کرلو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے اور اگر تم اعراض کرتے ہو تو یقین رکھو کہ تم اللہ کو عاجز کرنے والے نہیں ہو اور (اے رسول!) کافروں کو دردناک عذاب کی خوش خبری دیجیے، ماسوا اُن مشرکوں کے جن سے تم نے معاہدہ کیا تھا، پھر انہوں نے (اُس عہد کی پاس داری میں) تمہارے ساتھ کوئی کمی نہیں کی اور نہ تمہارے خلاف کسی کی مدد کی، سو اُن سے کیے گئے معاہدے کی مدت پوری کرو، بے شک اللہ تعالیٰ متقین کو پسند فرماتا ہے، (التوبہ:1-4)‘‘۔
اندازہ لگائیے کہ حالاتِ جنگ میں بھی اسلام نے عہد کی پاس داری کی تعلیم دی اور رسول اللہ ؐ نے معاہداتِ بینَ الاقوام کے ایفا کی شان دار روایات قائم فرمائیں۔ پس جو دین حالتِ جنگ میں بھی عہد شکنی کی اجازت نہ دے، وہ حالتِ امن میں اِسے کیسے گوارا کرسکتا ہے۔ یہ تمہیدی کلمات میں نے اس لیے لکھے کہ بلوچستان میں رکوڈک کے سونے کے ذخائر کے بارے میں غیرملکی کمپنی ٹی تھیان سے معاہدہ ہوا تھا، لیکن عدالت عظمیٰ کی
مداخلت کی بنا پر وہ معاہدہ منسوخ کرنا پڑا۔ حال ہی میں عالمی عدالت نے یک طرفہ طور پر معاہدہ توڑنے کی بنا پر پاکستان پر بھاری جرمانہ عائد کیا ہے۔ یہ صورتِ حال ہمیں اس لیے پیش آتی ہے کہ ہماری حکومتیں عالمی معاہدات کرتے وقت انتہائی عجلت میں ہوتی ہیں اور بین الاقوامی قوانین کے ماہرین سے اُن معاہدات کی شرائط کا تجزیہ نہیں کراتیں اور اُس کے نتیجے میں وہ گلے گلے تک دھنس جاتی ہیں۔
یہی غفلت انتہائی منفعت بخش ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی نج کاری کے موقع پر ہوئی۔ امارات کی کمپنی سے معاہدہ کرلیا گیا اور 26فی صد کی ادائیگی پر پورا انتظامی کنٹرول انہیں دے دیا گیا۔ معاہدے میں حکومتِ پاکستان نے یہ ذمے داری قبول کی کہ پی ٹی سی ایل کی تمام املاک کی قبضے سمیت ملکیت خریدار کمپنی کے حوالے کی جائے گی۔ ہمارے ہاں کئی سرکاری املاک پر تجاوزات ہوتی ہیں اور انہیں واگزار کرنا حکومت کے لیے دشوار ہوتا ہے، کیوں کہ قابضین کی طرف سے مزاحمت پر حکومت کے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اب حکومت بے بس ہے، اتصالات نے کئی ملین ڈالرکے بقایا جات ادا نہیں کیے، وہ اِس عرصے میں بے تحاشا نفع کماکر لے گئے اور اب انہوں نے پی ٹی سی ایل کو چین کی کمپنی زونگ کو فروخت کردیا ہے۔
اسی طرح پاکستان اسٹیل کی نج کاری اکیس ارب میں ہونا قرار پائی تھی، مگر عدالت عظمیٰ نے اِسے روک دیا، اس کے بعد پاکستان اسٹیل ملز ایک مفلوج ادارہ بن چکا ہے اور ہر ماہ حکومت کروڑوں روپے تنخواہوں کی مد میں سرکاری خزانے سے ادا کررہی ہے۔ لیکن اگر وہ نج کاری ہوچکی ہوتی، تو پاکستان اسٹیل کی کھربوں روپے کی زمینی جائداد خریدار کمپنی کے ہاتھ آجاتی اور وہ اُسے اوپن مارکیٹ میں بیچ کر غائب ہوجاتے۔ بہت سی صنعتیں جو قومیائے جانے کے بعد نجی ملکیت میں دی گئیں، اُن کا یہی حشر ہوا۔
پراپرٹی ڈِوَلپر جب کوئی ہاؤسنگ اسکیم لانچ کرتے ہیں، تو ماحول انتہائی زرق برق، لش پَش اور چکاچوند سے معمور ہوتا ہے۔ پلاٹوں یا فلیٹوں کے خریدار معاہدۂ خریداری کی دستاویز کو پڑھے اور سمجھے بغیر دستخط کردیتے ہیں اور جب وہ قسطیں ادا نہیں کرپاتے اور معاہدۂ خریداری کو منسوخ کرنے کے لیے ڈِوَلپر سے رابطہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ساری شرائط ڈولپر کے حق میں ہیں، وہ چند قسطیں ادانہ کرنے پر یک طرفہ طور پر معاہدہ منسوخ کرسکتا ہے، اُن کی ادا کردہ اقساط کو ضبط کرسکتا ہے اور خریدار کے حقوق کے تحفظ کی کوئی شِق اُس معاہدے میں نہیں ہوتی، لیکن: ’’اب پچھتائے کیا ہووت، جب چڑیا ں چگ گئیں کھیت‘‘ کا منظر ہوتا ہے، یہی حال ہمارے حکمرانوں اور ہمارے نظامِ حکومت کا ہے۔
(باقی صفحہ نمبر9پر)

چند سال پہلے ایک کانفرنس میں بین الاقوامی قانون کے ماہر جناب احمر بلال صوفی نے ہمیں بتایا تھا کہ ہم اہلِ پاکستان پر تقریباً نو ہزار ملکی قوانین اور تیرہ ہزار بین الاقوامی قوانین حاکم ہیں۔ جب عالَمی اداروں میں یہ قوانین بن رہے ہوتے ہیں، تو وہاں ہماری نمائندگی نہیں ہوتی یا جو نمائندہ بن کر جاتے ہیں، وہ اُن خشک اجلاسوں میں شرکت کے بجائے ہوٹلوں میں آرام فرماتے ہیں یا سیر وتفریح کر رہے ہوتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس بیدار مغز قوموں کے نمائندے قانون کے ایک ایک لفظ اور ایک ایک شق پر طویل بحثیں کرتے ہیں۔ اِسی صورتِ حال کا سامنا ہمیں ہندوستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے میں درپیش ہے۔ ہندوستان معاہدے سے تجاوز کرکے ڈیم پہ ڈیم تعمیر کرکے پاکستان کے حصے کے پانی کو روک رہا ہے، اُس کے نتیجے میں آنے والے سال میں پاکستان خطرناک حد تک قلتِ آب کے خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے۔ پاکستان کو عالمی عدالت سے کوئی تحفظ ملنے کی امید نہیں ہے، کیوں کہ معاہدہ کرتے وقت ہم نے اُس کی شقوں کا بغور جائزہ نہیں لیا تھا اور قانونِ بینَ الاقوام کے ماہرین سے رہنمائی حاصل نہیں کی تھی، جس کا خمیازہ ہمیں اب بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح سی پیک سے متعلق معاہدات کا بھی کسی کو علم نہیں ہے، حالاں کہ یہ معاہدات اشخاص کے درمیان نہیں ہوتے، بلکہ اقوام اور ممالک کے درمیان ہوتے ہیں اور ان کے نتائج بھی ملک وقوم کو بھگتنے پڑتے ہیں۔ قطر سے ایل این جی کا معاہدہ بھی مستور ہے۔
ہمارے سِول حکمران اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر خصوصی فوجی عدالتوں کے حق میں تو آئینی ترامیم منظور کرلیتے ہیں، لیکن از خود کوئی ایسی آئینی ترمیم اتفاقِ رائے سے لانے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ہمارے عالمی معاہدات کا طریقۂ کار کیا ہو، ملکی اور قومی مفادات کا تحفظ کس طرح کیا جائے اور اس کے لیے آئینی اور قانونی Check List کیا ہونی چاہیے۔ ماضی میں جو ہوچکا، اُس کی تلافی تو اب ممکن نہیں ہے، لیکن کم از کم آئندہ کے لیے ہمیں کوئی پیش بندی ضرور کرنی چاہیے۔