ڈاکٹر جمیل جالبی سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی نے ڈاکٹر محمود حسین کی زندگی کا نقشہ کچھ یوں بیان کیاایک نہایت شریف آدمی تھے، شریف آدمی کی تعریف یہ ہے کہ زندگی گزارنے اور زندگی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے چند اصول ہوں اور وہ وقتی فائدے کے لیے زندگی سے سمجھوتا نہ کرتا ہو، وہ پڑھا لکھا ہو، خوش ذوق ہو خیر اور شر میں تمیز رکھتا ہو، باہمت ہو، کینہ پرور نہ ہو، منافق نہ ہو، مخالفین کو شکست دینے کے لیے اوچھے ہتھیار استعمال نہ کرتا ہو، اس میں نرمی و مٹھاس ہو، باتوں میں کشش اور خلوص ہو، انسانی ہمدردی اس کا طرہ امتیاز ہو، چھوٹا اس سے ملے تو اسے چھوٹا ہونے کا احساس نہ ہو، بڑا ملے تو اسے اپنے قد کا پتہ چلے، بیک وقت وہ طوفان ہو اور شبنم بھی ہو، یہ سب باتیں ڈاکٹر محمود حسین کی ذات میں نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب شرافت و انسانیت کا ایک ایسا سانچا تھے جو ان کے ساتھ ہی ٹوٹ گیا۔
ممتاز ماہر تعلیم و اردو ادب کے مایہ ناز ادیب علامہ نیاز فتح پوری مرحومکا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمود حسین پاکستان کے ان چند مخصوص افراد میں سے ہیں جن میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ ان کا شمار ان نفوس میں سے ہے جن کے ذکر میں اگر قطعاً کسی قسم کے مبالغہ سے کام نہ لیا جائے تو بھی قحط انسانیت کے اس دور میں اسے مبالغہ یا قصیدہ نگار ہی سمجھا جائے گا۔ ڈاکٹر محمود حسین خان نے درس و تدریس کے حوالے سے معروف تو تھے ہی مگر شرافت و انکساری، شائستگی، شگفتگی اور شعائر اسلامی کا وہ بہترین نمونہ تھے۔ نرم دم گفتگو دم جستجو کے حامل تھے وہ بہت سی خوبیوں کی حامل شخصیت تھے۔ ایک شفیق استاد، ایک ناصح، ایک ممتاز تاریخ داں، ایک مفکر، ایک دانش ور اور ایک سچا پکا مسلمان وہ لا تعداد مناصب پر فائز رہے ڈھاکا و کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے، وزیر مملکت رہے، وزیر تعلیم رہے اور پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ علاوہ ازیں آپ جامعہ ملیہ ملیر کے بانی اور کراچی یونیورسٹی کے مسودہ قانون کے خالق تھے۔ جس کے تحت جامعہ کراچی کا قیام عمل میں آیا وہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر ماہر تعلیم مانے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 1964ء میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی اور 1965ء میں کولمبیا یونیورسٹی کے مہمان پروفیسر کے تحت خدمات انجام دینے سیاسی میدان میں ڈاکٹر محمود حسین کو ترقی کے بہت مواقع تھے۔ لیکن آپ نے سیاسی میدان کے بجائے تعلیمی میدان کو ترجیح دی جس سے آپ کے علم دوستی کا پتا چلتا ہے۔ ڈاکٹر محمود حسین ہمہ وقت مصروف رہتے تھے اس کے باوجود لا تعداد مقالات اور متعدد کتب بھی تحریر کیے جو تاریخی، علمی و ادبی کتب میں ممتاز حیثیت رکھتی ہیں، ڈاکٹر محمود حسین کا شمار ان ہستیوں میں ہوتا ہے جو علم کے ساتھ ساتھ کردار سازی کی طرف بھی توجہ دیتے ہیں تاکہ جب طلبہ و طالبات درس گاہ سے نکل کر جائیں تو عملی زندگی میں بہتر انسان بن کر ملک و معاشرے کے کام آسکیں۔ ڈاکٹر محمود حسین خان 15 جولائی 1907ء کو انڈیا میں پیدا ہوئے آپ نے میٹرک اسلامیہ ہائی اسکول اور اٹاوہ سے اور جامعہ ملیہ دہلی سے بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1929ء میں پی ایچ ڈی کے لیے جرمنی چلے گئے جرمنی میں قیام پاکستان کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی میں بحیثیت تعلقات عامہ کے پروفیسر مقرر ہوئے بعد ازاں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ آپ نے حکومتی امور میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 1947ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے 1949ء میں محکمہ دفاع کے وزیر مملکت بنے امور خارجہ کے نائب وزیر رہے۔ 1952ء میں وزیر تعلیم مقرر کیے گئے۔ 1953ء کو آپ کو جامع کراچی کے شعبہ تاریخ کا صدر بنایا گیا پھر تھوڑے ہی دنوں بعد ڈین آف آرٹس جامعہ کراچی کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 15 دسمبر 1960ء کو ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے اور اس عہدے پر 1963ء تک فائز رہے آپ اس دوران ڈھاکا یونیورسٹی میں اپنے اعلیٰ کردار اور بہتر تعلیمی ماحول فراہم کرنے پر وہاں کے طلبہ و طالبات میں بے ہد مقبول رہے گو کہ ان دنوں ڈھاکا یونیورسٹی میں انتشار پھیلا ہوا تھا لیکن آپ نے انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے سے اپنا فریضہ انجام دیا ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلری کے بعد آپ دوبارہ کراچی یونیورسٹی میں بحیثیت پروفیسر اور صدر شعبہ تاریخ مقرر ہوئے۔ 4 اگست 1971ء کو آپ جامعہ کراچی کے چوتھے وائس چانسلر مقرر کیے گئے۔ آپ جس وقت جامعہ کراچی کے وائس چانسلر بنے تھے اور وقت جامعہ کراچی 1965ء کی جنگ اور المیہ 1971ء کے سبب انتہائی نامساعد حالات سے دوچار تھی۔ بقول ڈاکٹر احسان رشید مرحوم سابق وائس چانسلر جامعہ کراچی اس آڑے وقت میں جبکہ اس کی کشتی شدید مالی بحران کے ایسے گرداب میں پھنس چکی تھی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ صحیح و سالم نکال کر لیجانے کا سہرا ڈاکٹر محمود حسین کے سر ہے۔ 10 اپریل 1975ء کو علم و ادب کا روشن چراغ غروب ہوگیا۔ آپ کی قبر جامعہ ملیہ ملیر کراچی میں ہے۔