90 (روز کی سعودی مہلت‘ پاکستانی سفارت خانے کے لیے خدمت کا موقع (ارسلا ن ہاشمی جدہ)

160

مملکت سعودی عرب کی جانب سے غیر قانونی تارکین وطن کی بیدخلی کے لیے 29 مارچ 2017ء4 سے 90 روزہ خصوصی شاہی مہلت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ اس مہلت کے دوران اپنے ملکوں کو روانہ ہو جائیں۔ جو افراد ان 3 ماہ میں مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ملکوں کو روانہ ہوں160گے انہیں بلیک لسٹ نہیں کیا جائے گا او ران پر عائد اقامہ اور قوانین محنت کے جرمانے بھی وصول نہیں کیے جائیں گے۔ حالیہ دی جانے والی مہلت کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ ان 90 دنو ں میں وہ افرا د جو عمرہ ، وزٹ، حج ، ٹرانزٹ یا سرحد عبور کر کے ا?ئے ہیں اور غیر قانونی طور پر مقیم ہیں وہ اپنے ملکوں کا ٹکٹ خریدیں سیٹ کنفرم کروائیں اور براہ راست ائر پورٹ پہنچ جائیں جہاں ان افراد کے لیے خصوصی کاؤنٹرز قائم کیے گئے ہیں۔ اس مہلت سے وہ افراد بھی مستفیذہوسکتے ہیں جن کے خلاف ماضی میں حج خلاف ورزی ریکارڈ پر ا?چکی ہے اور ان کے فنگرپرنٹس سسٹم میں فیڈ ہو گئے ہیں۔ قانون کے مطابق حج خلاف ورزی یعنی حج پرمٹ لیے بغیر فریضہ حج ادا کرنے والے وہ افراد جن کے فنگر پرنٹ محکمہ پاسپورٹ اینڈ امیگریشن میں فیڈ ہو چکے ہیں۔ محکمہ پاسپورٹ کے مرکزی سسٹم میں ان کا تمام ریکارڈ بلاک کر دیا جاتا ہے جس کے سبب خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے تمام سرکاری کام روک دیے جاتے ہیں۔ حج خلاف ورزی کے مرتکب افراد پر مالی جرمانوں کے علاوہ قید اور ملک بدری کی سزا مقر ر ہے۔ حالیہ دی جانے والی 3 ماہ کی مہلت میں ان افراد کو بھی شامل کیا گیاہے۔ ان پر عائدتمام خلاف ورزیاں ختم ہو جائیں گی اور وہ اس مہلت سے استفادہ کرتے ہوئے مملکت سے باعزت طریقے سے جاسکتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے دی جانے والی خصوصی مہلت کا اعلان ہوتے ہی ان تمام ممالک کے سفارت خانے متحرک ہو گئے ہیں جن کے شہری بڑی تعداد میں مملکت میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ پاکستانی، بھارتی، بنگلا دیشی اور دیگر ممالک کے سفارت خانے اور قونصلیٹ میں خصوصی ڈیسک قائم کردیے گئے ہیں160جہاں ہفتے کے ساتوں دن بڑی تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ سفارت کاروں کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے ان شہریوں کو جو غیر قانونی طور پر مملکت میں مقیم ہیں ملک روانہ کروایا جاسکے۔
یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ا س مہم سے جہاں بڑی تعداد میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن مستفید ہو رہے ہیں وہاں ان بچوں کی بھی کمی نہیں جن کے والدین مختلف شہریت کے حامل ہیں۔ ایک سروے کے مطابق صرف جدہ میں اس وقت 3 سے 5سو کے قریب ایسے خاندان ہیں جن کے پاکستانی سربراہ خانہ نے غیر قانونی طور پر دیگر ممالک کی خواتین سے شادی کی جو خود بھی عمرہ ویزے پر غیر قانونی طور پر مقیم تھیں۔ ان شادیوں کو برسوں گزر چکے ہیں۔ ان کی اولادیں جوان ہو نے کے قریب ہیں۔ مگر ابھی تک انہیں کوئی شناخت نہیں دی جاسکی۔ ایسے بچوں کا سوال ہے کہ ہم کون ہیں ؟ کہاں جائیں؟۔ اس حوالے سے اگر بین الاقوامی قانون شہریت کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے مطابق بچے باپ کی شہریت کے حقدار ہیں۔حصول شہریت کے لیے قوانین مقرر ہیں جس میں سب سے پہلا مرحلہ برتھ سرٹیفکیٹ کا حصول ہے جو ان خاندانوں کے پاس نہیں ہے۔ انہو ں نے پیدائش کے سرٹیفکیٹ کیو ں حاصل نہیں کیے یہ ایک الگ داستان ہے تاہم اس وقت موضوع بحث یہ ہے کہ کیا وہ بچے بھی اس مہلت سے مستفید ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب کس کے پاس ہے ؟ کیا سیکڑوں خاندان ہمیشہ کے لیے بچھڑ جائیں گے؟ کیا ان ممالک کے سفارت کار اپنے شہریوں کے لیے کچھ کرنے سے قاصر ہیں؟ سعودی عرب نے اتنی بڑی مہلت کا اعلان صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا ہے تو ایسے میں ہمارے ملک کے سفارت کار ان بچوں کے لیے کیا لائحہ عمل رکھتے ہیں۔
سعودی عرب کے حوالے سے ماضی میں ایسے کیس موجود ہیں جن میں پاکستانی سفارت کاروں نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ان خاندان کے بچوں کو عارضی سفری دستاویز جاری کی تھی جن کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ نہیں تھے یا ان کی پیدائش بعض وجہ سے گھروں میں ہوئی تھی۔ اب جبکہ سعودی حکومت کی جانب سے خصوصی مہم شروع کی گئی ہے ان بچوں کے بارے میں سوال یہ ہے کہ ہمارے سفارت کار کیا کوئی راہ نہیں نکالیں گے ؟ تاکہ وہ اپنے والدین کے زیر سایہ پروان چڑھ سکیں۔ اس میں شک نہیں کہ قانون انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتا ہے۔ جدہ میں سابق قونصل جنرل مسعود اختر کے وہ جملے ا?ج بھی اہل جدہ کی یاداشت میں تازہ ہیں جن میں انہو ں نے کہا تھا ’قانون انسانوں کے لیے ہوتا ہے انسان قانون کے لیے نہیں‘۔ اگر سفارت کار چاہیں تو کوئی نہ کوئی سبیل، کوئی راہ اور طریقہ نکالا جاسکتا ہے جس سے ان سیکڑوں خاندانوں کا بھلا ہو سکتا ہے اور انہیں ہمیشہ کے لیے بچھڑنے سے بچایا جاسکتا ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے شروع کی گئی مہم کے حوالے سے باخبر ذرائع کاکہنا ہے کہ ہر وہ شخص اس مہم سے مستفید ہو سکتاہو جس نے کوئی واردات نہ کی ہو اور وہ قانون کو مطلوب نہ ہو اس کے علاوہ جو بھی غیر قانونی طریقے سے مقیم ہیں وہ اپنے ملکوں کو جانے کے لیے ا?زاد ہیں جن کے پاس سفری دستاویزات نہیں وہ اپنے ملکو ں کے سفارت خانوں سے سفری دستاویز حاصل کریں ان کا باعزت طریقے سے ایگزٹ لگا دیا جائے گا۔ اب یہ ہمارے سفارت کاروں پر منحصر ہے کہ وہ اس موقع سے کس طرح اپنے شہریوں کو فائدہ دلواسکتے ہیں اور کتنے خاندانوں کو بکھرنے سے بچا سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض ممالک کے سفارتخانے اپنے شہریوں کے ان بچوں جن کے پاس برتھ سرٹیفکیٹ نہیں ہے، کے لیے عارضی سفری دستاویز کا اجرا محض اسپتال کی جانب سے جاری کیے جانے والے عارضی سرٹیفکیٹ یا گواہی پر کر رہے ہیں توہم کیوں نہیں ؟