SAY NO TO CORRUPTION (پر عمل کریں (ڈاکٹر شجاع صغیر خان

126

آج کل جگہ جگہ یہ جملہ SAY NO TO CORRUPTION نظر آتا ہے سرکاری اشتہارات میں بھی یہ جملہ لکھا ہوتا ہے۔ سرکاری ٹینڈرز کا اشتہار ہو یا اسامیاں خالی ہیں کے اشتہارات اب ہر بینک میں بھی یہ جملہ نظر آتا ہے۔ یہ جملہ تو بہت طاقت ور ہے مگر اس پر عمل درآمد کون کرائے گا جس جگہ یہ جملہ لکھا ہوتا ہے وہاں پر ہی کرپشن نظر آتی ہے، ہمارے ملک کا سب سے طاقت ور ادارہ نیب بھی کرپشن رکوانے میں ناکام نظر آتا ہے، نیب کے علاوہ اور بھی ایسے حکومتی ادارے موجود ہیں جن کا کام کرپشن کو روکنا ہے مگر اُن اداروں میں خود کرپشن اپنے عروج پر ہے، کون سا کام ایسا ہے جو ہو نہیں سکتا بس رشوت وزن دار ہونی چاہیے اگر ایک ایک ادارے کا نام بتاؤں تو یہ زیادتی ہوگی کیوں کہ تمام محکمے اس میں ملوث ہیں۔ ایک خبر نظر سے گزری کہ نیب نے گزشتہ 17 سال میں 917 کرپٹ افراد کے ساتھ پلی بارگین کر رکھی ہے۔ 917 کرپٹ سیاستدانوں، افسران اور تاجروں نے قومی خزانے سے کھربوں روپے لوٹ رکھے ہیں ایسا لگتا ہے کہ قومی خزانہ ان کے باپ کا مال ہے تاہم نیب نے صرف 45 ارب روپے وصول کیے ہیں جب کہ باقی کھربوں روپے کرپٹ عناصر سے وصول نہیں کیے جاسکے۔ ایک سرکاری دستاویز میں نیب حکام نے پلی بارگین کے تحت دیے گئے اعداد و شمار میں بتایا ہے کہ پلی بارگین اور رضا کارانہ واپسی کے تحت کھربوں روپے ان لوگوں سے واپس لینا ابھی باقی ہیں۔ پلی بارگین کے تحت فائدہ اٹھانے والے کرپٹ عناصر سے نیب ابھی تک باقی اربوں روپے وصول کرنے میں ناکام ہے کیوں کہ کرپٹ افراد پہلی قسط ادا کرنے کے بعد بیرون ملک بھاگ گئے ہیں یا ملک کے اندر روپوش ہوگئے ہیں، جیسا کہ نیشنل ہائی ویز کرپشن کیس ہے جس میں ملزم 25 کروڑ کی پلی بارگین کرکے صرف 8 کروڑ روپے دے کر ملک سے فرار ہوگیا، این ایچ اے کے ٹھیکیدار نے 2014ء میں سرکاری حکام کے ساتھ مل کر سڑک پکی کرنے کے نام پر کروڑوں روپے کی کرپشن کی تھی، پرویز الٰہی دور کے مشہور کرپشن کیس پنجاب بینک کرپشن کیس کے ملزم افضل شیخ نے 34 کروڑ روپے کی پلی بارگین کی تھی لیکن ابھی تک 23 کروڑ ملزم نے ادا نہیں کیے ہیں۔ واپڈا کے سابق چیئرمین جنرل (ر) زاہد علی اکبر نے بھی پلی بارگین کر رکھی ہے لیکن کرپشن کی رقم واپس نہیں کی اس کا داماد میاں صاحب کا مشیر ہے۔ کے پی کے کے سابق وزیراعلیٰ کے مشیر معصوم شاہ کو بھی پلی بارگین کے تحت 120 ملین سے زائد ابھی ادا کرنے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ کے پی کے کے بھائی غزنی خان اور رشتہ دار رضا علی خان کو بھی پلی بارگین کے تحت کروڑوں روپے ابھی واپس کرنے ہیں۔ 11 فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو نیب سے پلی بارگین کے تحت ایک ارب 18 کروڑ ادا کرنے ہیں۔
توانا پاکستان منصوبے کے ڈائریکٹر عرفان اللہ تنویر نے بھی 60 ملین اب تک واپس نہیں کیے، پلی بارگین کے تحت سہیل مجید شاہ کو ایک ارب روپے ادا کرنے ہیں، XEN واپڈا رحمت شاہ کو 10 ملین روپے ادا کرنے ہیں۔ اس نے 66 کروڑ کی کرپشن کی تھی، ڈبل شاہ سے نیب کے ساڑھے 3 ارب روپے وصول کرنے ہیں جس نے 29 ہزار لوگوں کو لوٹا تھا، مفتی احسن نے اسلامی بینکنگ کے نام پر لوگوں سے8 ارب روپے لوٹ رکھے ہیں اور مضاربہ اسکینڈل کے تحت اربوں کی ریکوری ابھی باقی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 285 افراد نے نیب کے ساتھ پلی بارگین کی تھی ان سے 15 ارب کے بجائے صرف 5.3 ارب وصول ہوئے ہیں۔ رضا کارانہ اسکیم کے تحت فائدہ اٹھانے والے 1080 کرپٹ افراد کو نیب
(باقی صفحہ نمبر9پر)
کو 13 ارب روپے جمع کرانے تھے لیکن صرف 9 ارب روپے جمع کرائے گئے ہیں جب کہ 151 کرپٹ افراد کو پلی بارگین کے 18 ارب 40 کروڑ روپے ابھی تک وصول ہی نہیں کیے جاسکے۔ میں نے اپنے ایک کالم (پلی بارگین بھی ایک جرم ہے) تحریر کیا تھا جس کے چند روز کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی پلی بارگین کے حوالے سے ایک (reference) دیا جب کہ میری نظر میں کرپشن کرنے والے قوم کے ملزم نہیں بلکہ قومی مجرم ہوتے ہیں کیوں کہ رشوت لینا یا کرپشن کرنا ایک جرم ہے اور جو جرم کرتا ہے اس کو مجرم کہتے ہیں جب کہ نیب کے نزدیک وہ ملزم ہے۔ سونے پہ سہاگا یہ ہے کہ جو سرکاری افسر پلی بارگین کرتا ہے وہ واپس اپنے عہدے پر آکر لگ جاتا ہے۔ اب اُس کے پاس شرافت کی سند آگئی اب وہ مزید کرپشن کرے گا اور پلی بارگین کی قسط ادا کرتا رہے گا۔ کیا یہ اسلامی قانون ہے ایک اسلامی ریاست کا غیر اسلامی قانون نیب کے قانون میں ترمیم کرنا ہوگی، کرپشن پر کوئی پلی بارگین نہیں ہونی چاہیے۔ سماجی لوگوں کا یہ مطالبہ ہے کہ نیب ملزمان کی فہرست اور اُن کی کرپشن کی رقوم کو اخبارات میں شائع کرے اور تمام ٹی وی چینلوں پر اُن کے نام اور رقوم کو بھی چلایا جائے تا کہ عوام قومی مجرمان کو پہچان سکیں۔ اللہ کے واسطے اس پاک دھرتی کو اب کرپشن سے پاک کردو، ہر فرد، ہر ادارہ اپنا اپنا کردار ادا کرے، آپ سب ملک کے مالک ہیں رحم کریں۔