شراب کی فروختعفت عالم(ناظم آباد،کراچی)

59

منگل 21مارچ 2017ء کی ’’روزنامہ جسارت‘‘کی اشاعت میں عدالت عظمیٰ کے حوالے سے ایک خبر نمایاں انداز میں شائع ہوئی ہے جس میں سندھ ہائی کورٹ کے شراب کی فروخت پر پابندی کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے اس سلسلے میں دائر اپیل کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔ یہی خبر ’’روزنامہ جنگ‘‘کے فرنٹ پیج پر لیکن انتہائی غیر اہم انداز میں’’اہم خبروں‘‘میں لگا دی گئی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے2 رکنی بینچ نے جس میں جسٹس اعجاز افضل خان اور جسٹس مظہر عالم شامل ہیں، کہا ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کا اختیار نہیں تھا،کیونکہ شراب کی ریگولیشن عدالت عالیہ کا کام نہیں۔
پابندی کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت کے بارے میں تو ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے البتہ پاکستان کے ایک عام ’’مسلمان‘‘شہری کی حیثیت سے یہ خبر نہایت افسوس ناک محسوس ہوئی۔ اس تازہ ترین خبر کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ شراب کی دکانوں کے مالکان کی جانب سے عاصمہ جہانگیر نے دلائل دیے اور وکالت کی، جو اس قسم کے کیس لڑنے کے لیے اب نہایت معروف ہوچکی ہیں۔ عدالت عالیہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حوالے سے گزشتہ دنوں عزت مآب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے’’توہین رسالت‘‘کے حوالے سے دیے گئے فیصلے پر عاصمہ جہانگیر نے جو الفاظ کہے تھے ان کی گونج اب میڈیا کے ذریعے ہر طرف نمایاں ہوچکی ہے اور اب عدالت عظمیٰ کی طرف سے یہ انتہائی غیر اسلامی بیان پر معنی 1979ء کے آئین کے تحت شراب کی فروخت اور اس کا دکانوں میں رکھنا جرم ہے لیکن اس سے متعلق ریگولیشن کا عدالت عالیہ سے تعلق نہیں۔ یہ کیسا فیصلہ ہے۔ آج جس طرح اسلامی قوانین اور اقدار کے بارے میں بیانات سامنے آرہے ہیں۔ ان کے ذریعے حکومتی اداروں اور عدالتوں کے دائرہ کار کو بھی نشانہ بنایاجارہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘کہلانے والے اس ملک کی ’’اشرافیہ‘‘ ان لوگوں کو زبردستی مواقع دینا چاہتی ہے جو پاکستان سے دین اسلام کو دنیاسے اکھاڑ دینا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کو زیر کرتے کرتے ختم کردینا چاہتی ہے جو دین اسلام کی حقیقی ترقی کے خواہشمند ہیں۔
شراب کی فروخت پر پابندی کسی عدالتی حکم کی بناء پر نہیں ہے۔ یہ تو اللہ اور اس کے رسولؐ کی دی ہوئی شریعت کے عین مطابق ہے۔ لیکن افسوس جن لوگوں نے’’توہین رسالتؐ‘‘جیسے واقعے کو ہنسی مذاق بنالیا ہے۔ ان کے نزدیک شراب کی فروخت پر پابندی دراصل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے لوگوں کے کاروبار کی بندش ہے اور اس عبوری بندش(جو ایک ماہ کی تھی)کے نتیجے میں ان کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ یہ اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی مخالفت میں جمتے ہی جارہے ہیں۔
ایک اسلامی مملکت کے لیے یہ اور اس جیسے تمام واقعات انتہائی نامناسب ہیں۔ اللہ اپنے دشمنوں کے مقابلے میں ان کی مدد کرنے پر قادر ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں کی عظمتوں کو پہچانیں۔ اس سلسلے میں قومی اسمبلی میں اقلیتی منتخب نمائندے کا بیان بھی قابل غور ہے جنہوں نے ہندو برادری کی طرف سے شراب کی فروخت پر پابندی کے فیصلے کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ ہندو مذہب میں بھی شراب نوشی پر پابندی ہے۔ یہ کیسا مضحکہ خیز معاملہ ہے کہ ہندو برادری کا ایک منتخب فرد جو شراب کی فروخت پر پابندی کے فیصلے کی توثیق کررہا ہے اور اس کی حمایت میں بیان دے رہا ہے جبکہ خود کو مسلمان کہنے اور کہلانے والے اور عدل وانصاف کے کٹہروں کے ذمے داران کا اللہ کی شریعت سے مذاق کا یہ رویہ ہے۔ افسوس تو ان صحافتی اداروں پر بھی ہے جو کرکٹ کے کھیل میں اسپاٹ فکسنگ کو تو بڑھا چڑھاکر بیان کررہے ہیں لیکن شریعت کی پامالی جیسے اہم معاملے کی اہمیت کو کمزور کرنے کے لیے بھی سرگرداں ہیں۔ یہ خبر(شراب کی فروخت پر پابندی کے حکم کو معطل کرنا)اگر ان کے نزدیک کرکٹ کی خبر سے زیادہ اہم ہوتی تو اس کی گنجائش بھی ویسی ہی نظر آتی۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہوا۔ ہمارے ٹی وی چینلز بھی 23مارچ کے حوالے سے 22مارچ سے ہی راگ راگنیاں سناتے ہوئے اور دلفریب نغموں کی گونج میں اس دن کی خیر مقدمی تقریبات کا بیان کررہے ہیں۔ لیکن اس واقعے کی جانب متوجہ نہیں۔ایسے میں ان صحافتی اداروں اور میڈیا کے کرتا دھرتا افراد سے شریعت کے کسی بھی حکم پر عملدرآمد کی کیا توقع ہوسکتی ہے؟