دو دن سے مسلسل ہونے والے شور شرابے کے بعد امریکی جارحیت کسی قسم کا کوئی سرپرائز نہیں رکھتی ہے
خان شیخون پر کیمکل کی بات صرف ایک شوشہ اور بہانہ تھا اور امریکہ ایسے ایک بہانے کی تلاش میں ہی تھا
امریکی جلد بازی کی ایک وجہ یہی تھی کہ اس سے قبل کہ خان شیخون کے کیمکل حملے کی بین الاقوامی سطح پر مکمل تحقیق ہوجاتی اور حقائق سامنے ا?تے امریکہ نے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت چوتھے مسلمان عرب ملک پر بمباری کردی اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس جارحیت کو ویلکم کرنے والا پہلا ملک سعودی عرب تھا جس کے بعد اسرائیل اور پھر ترکی۔
امریکی اس حملے نے ہمارے زخم تازہ کردیے ،عراق ،لیبیا اور یمن میں بھی اسی قسم کے بے بنیاد بہانوں سے بمباری کی گئی اور بعد میں حقائق کھل کر سامنے ا?گئے کہ وہ تمام الزامات جو ان ممالک پر لگائے گئے تھے سب کے سب جھوٹے اور ان حملوں کے لئے تراشے گئے بہانے تھے۔
ا?ج ان تینوں مسلم عرب ملکوں کی حالت انتہائی بدتر ہے امریکی ان حملوں کے بعد امن و سکون کے لئے ان تین مسلم ممالک کی عوام ترس گئے ہیں۔
امریکی نیا صدر چھ سال سے مسلط کردہ جنگ سے شدید متاثر ملک شام پر بمباری کرکے خود ایک مضبوط فرد کے طور پر پیش کرنا چاہتا ہے جو اس کی کمزوری کی دلالت ہے۔
امریکی جنگ کے سبب عراق میں دس لاکھ سے زائد افراد مارے گئے ہیں تو لیبیا میں ایک لاکھ سے زیادہ افراد اور ہزاروں یمن میں جبکہ شام کے عوام دربدر پھررہے ہیں۔
امریکی اس بمباری سے شام میں اس کی من پسند اسرائیل نواز حکومت تو نہیں بن سکتی لیکن ایک مسلم عرب ملک تباہ و برباد ہوسکتا ہے جیساکہ اس سے پہلے تین ملک باضافہ افغانستان کے ہوگئے ہیں۔
اس سامراجی ایجنڈے میں امریکی اسرائیلی اور سعودی باہم متحد ہیں جبکہ ترکی بھی ان کا ہمنوا ہے
سعودیہ ،اسرائیل اور ترکی میں ایک چیز مشترکہ ہے کہ ان تینوں ملکوں نے اپنے ہمسائیوں کیخلاف جنگ شرو ع کی ہوئی ہے سعودیہ نے ہمسایہ غریب ملک یمن پر ،ترکی نے شام کیخلاف جبکہ اسرائیل نے مظلوم فلسطینوں اور لبنانیوں کیخلاف اور یہ تینوں ملک اس وقت عالمی سامراج کے ساتھ کھڑے ہیں
عرب خطہ اس وقت بری طرح ایک ا?تش فشاں پر کھڑا ہے جہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن جو کچھ بھی ہو نقصان مسلمانوں اور عربوں کا ہی ہوگا ،تباہی ان کے ملکوں میں ہوگی اور دربدری بھی یہ اٹھاینگے جبکہ اس جنگ کا بل بھی سعودیہ جیسے تیل والے ملکوں کو ادا کرنا ہوگا جو ہمیشہ کرتے ا?ئے ہیں۔