(یہودی بستیوں160کی تعمیر کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنا ہے(مرکز اطلاعات فلسطین)

172

فلسطینی مرکز برائے مخطوطات کے ڈائریکٹراورسرکردہ فلسطینی تجزیہ نگارخلیل التفجکی نے کہا ہے کہ 1967ء4 کی 6 روزہ عرب۔ اسرائیل جنگ کے بعد صہیونی ریاست نے ایک دن بھی یہودی ا?باد کاری نہیں روکی۔
فلسطینی مخطوطات مرکز کے ڈائریکٹرنے ان خیالات کا اظہار مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ اسرائیل نے 20 سال کے بعد غرب اردن میں کوئی یہودی کالونی قائم کرنے کی منظوری دی ہے۔ صہیونی ریاست نے عملاً 1967ء4 کے بعد ایک روز کے لیے بھی یہودی ا?باد کاری نہیں روکی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ غرب اردن اور بیت المقدس میں یہودی ا?باد کاری کے بارے میں صہیونی ریاست پوری دنیا کو گمراہ کررہی ہے۔ 1967ء4 کی جنگ کے بعد صہیونی ریاست مسلسل غیرقانونی یہودی ا?باد کاری کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
خلیل تفکجی کا کہنا ہے کہ اسرائیل ایک سیریز کی شکل میں فلسطین میں یہودی بستیاں تعمیر کررہا ہے۔ پہلے ’گیلو1‘ پھر ’گیلو2‘ اور اب ’گیلو3‘ یہودی کالونی قائم کی گئی۔ ان کالونیوں کی منظوری بھی حالیہ برسوں میں دی گئی تھی جو اب بھی جاری ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ صہیونی ریاست پیچیدہ انداز میں یہودی کالونیوں کی منظوری دے رہا ہے۔ اسرائیل کا اپنا دعویٰ ہے کہ اگر وہ یہودی کالونیوں کیاندر مکانات تعمیر نہیں کرے گا تو وہ کالونیوں کے باہر یا یہودی فوجی کیمپوں کے اطراف میں ا?باد کاری کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ دیکھیں کہ اسرائیل فلسطین میں یہودی کالونیوں کیدرمیان ربط کیسے قائم کررہا ہے۔ غزہ کے وسط میں قائم راس العین اور اطراف کی یہودی کالونیوں کو گرین لائن کے اندر کفر قاسم کے علاقوں تک پھیلایا گیا ہے۔ وادی اردن کی یہودی کالونیوں کو غرب اردن کے شمالی علاقوں میں قائم ’ارئیل بلاک‘ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ اسی طرح شیلو کو ترمسعیا اور جلود کے ساتھ جوڑا گیا۔ یہودی ا?باد کاری کی اس شکل پر نظر ڈالنے کے بعد کوئی شک نہیں رہتا کہ صہیونی ریاست غرب اردن کو شمالا جنوبا ایک دوسرے سے کاٹ رہا ہے۔
فلسطینی ریاست کا قیام روکنے کی سازش
مرکزاطلاعات فلسطین کو دیے گئے انٹرویو میں ڈاکٹرخلیل التفکجی نے کہا کہ عرب شہروں میں یہودی توسیع پسندی صہیونی دشمن کے ایک منظم منصوبے کا حصہ ہے، جس کا اصل مقصد فلسطینی ریاست کیقیام کی راہ روکنا ہے۔ فلسطینی علاقوں میں جغرافیائی اور ا?بادیاتی تبدیلیوں کی صہیونی سازش کے در پرد مذموم مقاصد میں بھی فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا ہے۔
اسرائیل اپنے تمام تر توسیع پسندانہ ہتھکنڈوں سے یہ ثابت کر رہا ہے کہ سرزمین فلسطین میں ا?زاد فلسطینی ریاست کے قیام کا کوئی وجود نہیں۔ ہرا?نے والے دن فلسطینی ریاست کیقیام کومزید مشکل اور پیچیدہ کیا جا رہا ہے۔ یہودی کالونیاں اور فلسطینی علاقوں میں توسیع پسندی اصل میں فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں خلیل تفکجی نے کہا کہ عالمی برادری کی طرف سے بھی صہیونی ریاست پرفلسطینی ریاست کیقیام کی راہ روکنے کے خلاف کوئی خاطر خواہ دباو? نہیں ڈالا جا رہا ہے۔عرب ممالک بھی اس حوالے سے مجرمانہ غفلت کا شکار رہے ہیں۔ عرب لیگ صہیونی ریاست پر دباو? ڈالنے اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے جاری جدو جہد کو ا?گے بڑھانے میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکی ہے۔
عرب ممالک کے لیے پیغام
اسرائیلی حکومت نیغرب اردن کے شمالی شہرنابلس میں ایک نئی یہودی کالونی کے لیے 977 دونم اراضی کی منظوری ایک ایسے وقت میں دی گئی ہے جب اس کے ایک ہی روزقبل اردن کی میزبانی میں عرب سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔
صہیونی ریاست کی طرف سے غرب اردن میں مزید کالونی کے قیام کی منظوری عرب ممالک کے لیے بھی واضح پیغام ہے۔ وہ یہ کہ صہیونی ریاست عرب ممالک کے مطالبات کو کسی خاطر میں نہیں لاتی۔ وہ غرب اردن ، بیت المقدس اور وادی اردن میں دھڑا دھڑ مکانات کالونیاں بسا کر نہ صرف عرب لیگ کے مطالبات کو نظرانداز کررہا ہے بلکہ اسے سلامتی کونسل کی قرارداد 2234 کی بھی کوئی پروا نہیں ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں خلیل تفکجی نے کہاکہ صہیونی ریاست نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے غرب اردن کے جس علاقے میں یہودی کالونی کے قیام کی منظوری دی ہے وہ صہیونی مملکت کا حصہ ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ صہیونی ریاست فلسطینی شہروں میں غیرقانونی ا?باد کاری روکے گا۔ اسرائیلی حکومتی گزشتہ کئی عشروں سے جس پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ اسی کو ا?گے بڑھاتے ہوئے 2020ء4 تک غرب اردن میں اپنی توسیع پسندانہ پروگرام کو ا?گے بڑھانے کے لیے پرعزم ہے۔ جب کہ 2050ء4 کا القدس کے لیے اسرائیلی منصوبہ زیرتکمیل ہے۔ اس منصوبے کے تحت مغربی کنارے کے سیکٹر E1 میں ’معالیہ ادومیم‘ کالونی کو مکمل کرنا۔ بیت المقدس میں ایک نیا ہوائی اڈہ قائم کرنا اور دیگر منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ’عظیم تر یروشلم‘ کے منصوبے کو مکمل کرنا ہے۔