(جاممعۃ الرشیدکا11واں سالانہ کانووکیشن(خالد محمود

284

گزشتہ اتوار کو جامعۃ الرشید کا11واں سالانہ کانووکیشن منعقد ہوا۔گزشتہ گیارہ سال سے جامعۃ الرشید یہ کانووکیشن منعقد کر رہی ہے۔ جس میں ملک کے طول و عرض سے شرکت کے لیے چنیدہ افراد کو مدعوکیا جاتا ہے۔ جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے 10 ہزار افراد شریک ہوئے۔
عمدہ اور منفرد انتظامات کی وجہ سے یہ تقریب ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ نظم و ضبط کو بہتر طور پر سنبھالنے کے لیے انتہائی مستعد افراد پر مشتمل مختلف امور سے متعلق چالیس کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔ ان کمیٹیوں نے تقریب کے انتظامات کو احسن انداز سے انجام دیا، جس کی بدولت شریک مہمانان گرامی نے جامعۃ الرشید کے اقدامات کو سراہا اور نظم و ضبط کی دل کھول کر تعریف کی۔ اسٹیج کا پروقار انداز، سلیقے اور ترتیب سے سجی نشستیں، اسٹیج اور پنڈال کے اطراف میں نصب دیو ہیکل اسکرینیں، مقررین کا انتخاب، مہمانوں کی پذیرائی، پروگرام کی ترتیب اور جامعہ کے مختلف شعبہ جات کے تعارفی اسٹالز، خدمت پر مامور رضاکار، انتظامی امور میں مصروفِ عمل عملہ اور اس کے علاوہ بھی تمام چیزیں منفرد اور مثالی تھیں۔ جامعۃ الرشید کا مقصد اسلام، مسلمان اور پاکستان کے مفادات کے لیے کام کرنا اور زندگی کے ہر شعبے میں وحی کے نور سے روشنی لے کر قرآن و سنت کے اصولوں کو متعارف کروانا ہے۔ تقریب میں پنڈال میں ایک بڑے پینا فلیکس پر نمایاں حروف میں لکھا ’’وحی کے نور کے بغیر عقل گمراہ ہے، دینی و دنیوی تعلیم کا امتزاج ناگزیر ہے‘‘ اس کی واضح مثال تھا۔
جامعۃ الرشید کا گیارہواں کانووکیشن شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے شاگرد رشید مولانا عبدالحلیم چشتی کی زیر سر پرستی منعقد ہوا۔ کانووکیشن کی صدارت سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کر رہے تھے جنہوں نے پروگرام کے آخر میں صدارتی خطبہ بھی پیش کیا۔ دیگر مقررین میں وفاقی وزیر برائے مذہبی امور جناب سردار محمد یوسف، شیخ الحدیث مولانا فدا الرحمٰن درخواستی (مہتمم جامعہ انوار القرآن کراچی)، مولانا ڈاکٹر ذیشان احمد(ریکٹر اینڈ ڈین KSBL)، ایڈمرل (ر)محمد آصف سندیلہ، لیفٹیننٹ جنرل(ر)غلام مصطفی (دفاعی تجزیہ نگار)، عبداللہ گل(چیرمین تحریک جوانان پاکستان و کشمیر)، زبیر موتی والا (سابق چیئرمین سندھ بورڈآف انویسٹمنٹ، محسن ابوبکر شیخانی(چیرمین ABAD) شامل تھے۔ وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمان کا ویڈیو بیان اور مفتی تقی عثمانی نے علالت کے باعث لکھا ہوا بیان ارسال کیا جسے جامعۃ الرشید کے شیخ الحدیث مفتی محمد نے حاضرین کے سامنے پیش کیا۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض مولانا احمد افنان (ڈایریکٹر کلۃ الشریعہ جامعۃ الرشید ) کے سپرد تھے۔ دعائیہ کلمات معروف روحانی شخصیت مولانا عزیز الرحمان ہزاوری نے ارشاد فرمائے۔
کانوکیشن سے خطاب کرتے ہوئے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے نامور افراد نے کہا کہ جامعۃ الرشید دینی ضرورت کے مختلف گوشوں میں قابل قدر خدمات سراانجام دے رہی ہے اور اس سے تشنگان علم فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔دینی مدارس کے فضلاء ہمارے معاشرے کا تعلیم یافتہ طبقہ ہے،دینی مدارس کے طلبہ کسی بھی صورت عصری تعلیم یافتہ طلبہ سے کم نہیں ہیں۔9/11 کے بعد دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا مختلف قسم کے الزامات لگائے گئے ، یہ الزامات ان ممالک کی طرف سے لگائے گئے جو نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کر کے آگے بڑھے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں دینی مدارس کے طلبہ کو مواقع فراہم کرنے ہوں گے اور ان کے لیے نظام بنانا ہوگا۔آئین کے مطابق ہمارا نظام تعلیم اسلامی اصولوں کے تحت ہونا چاہیے۔ امت مسلمہ کو کہیں فرقہ اور کہیں مسلک کے نام پر تقسیم کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ایک ادھورا خواب ہے، اسے پورا کرنا ہوگا۔ ہمیں حق اور سچ بات کرنا ہوگی۔ جامعۃ الرشید قوم کی رہنمائی کر رہی ہے۔میڈیا دیکھتے ہیں تو ہر طرف تاریکی اور مایوسی نظر آتی ہے۔ مگر یہاں ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔بزنس کمیونٹی کو ایسی کوئی بھی پریشانی ہو یا دینی رہنمائی کی ضرورت ہوتو جامعۃ الرشید ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ جامعۃ الرشید کے فضلا کی مجموعی تعداد امسال 390 تھی۔ جن میں درس نظامی کے 75، کلیہ الشریعہ کے20، ایم بی اے، بی ایس ، بی کام اوربی اے کے 107، تخصص فی فقہ المعاملات المالیہ والعلوم الاداریہ کے 4، تخصص فی الحدیث کے 8، تخصص فی الافتا کے 10، تخصص فی القرآت ، تجوید کورس برائے حفاظ علماء اور تحفیظ القرآن کے 42کلیہ الدعوہ کے 22، دراسات دینیہ کے 15، صحافت کورس،عربک اینڈ انگلش لینگویج کورس کے 87طلباء4 نے سند فراغت حاصل کی۔مفتی محمد تقی عثمانی علالت کی وجہ سے شرکت نہیں کرسکتے۔ ان کا پیغام جامعۃ الرشید کے شیخ الحدیث مفتی محمد نے پڑھ کر سنایا۔ مفتی محمد تقی عثمانی نے اپنے پیغام میں کہا کہ آج جامعۃ الرشید کے سالانہ جلسے میں شرکت کا ارادہ تھا لیکن اچانک طبیعت ایسی ناساز ہوئی کہ حاضری کا ارادہ ملتوی کرنا پڑا۔ الحمد للہ جامعۃ الرشید دینی ضرورت کے مختلف گوشوں میں قابل قدر خدمات سراانجام دے رہی ہے اور اس سے تشنگان علم فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ جامعۃ الرشید کی انتظامیہ کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے آج اس اجتماع میں مدعو کیاہمارا مذہب اور آئین اقلیتوں کو تحفظ دیتا ہے۔قیام پاکستان کے بعد تعلیمی اداریں قائم نہیں کیے گئے ان حالات میں دینی مدارس نے اس کمی کو پورا کیا۔دینی مدارس کے فضلاء ہمارے معاشرے کا تعلیم یافتہ طبقہ ہے،دینی مدارس کے طلبہ کسی بھی صورت عصری تعلیم یافتہ طلبہ سے کم نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ 9/11 کے بعد دینی مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ کیا گیا ، مخلتف قسم کے الزامات لگائے گئے ، یہ الزامات ان ممالک کی طرف سے لگائے گئے جو نہیں چاہتے کہ پاکستان ترقی کر کے آگے بڑھے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں دینی مدارس کے طلبہ کو مواقع فراہم کرنے ہوں گے اور ان کے لیے نظام بنانا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ جب نبی کریمﷺ کو نبوت دی جا رہی تھی تو آپﷺ پر پہلی جو نازل ہوئی اس میں پڑھنے کا حکم کیا گیا۔دین اسلام نے مسلم معاشرے کے لیے تعلیم کو فرض قرار دیا ہے چاہے وہ عورت ہو یا مرد تعلیم کی حصول کا حکم دونوں کے لیے ہے۔وفاقی وزیر مذہبی امورسردار محمد یوسف نے کہا کہ دوسری بار جامعۃ الرشید آیا ہوں لیکن آج آکر بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے۔ اس پروگرام میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں۔ الحمد للہ جامعہ کی صدارت میں ایسے ادارے موجود ہیں جو عوام کی توقعات کو پورا کر رہے ہیں۔ یہاں پر عصری اور دینی تعلیم کا حسین امتزاج ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اتنے فضلاء انسانیت کی خدمت کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ جامعہ جیسے دیگر ادارے قائم ہو تو نہ صرف ہماری ضرورت پوری ہوگی بلکہ دنیا میں پاکستان کا نام بھی روشن ہوگا۔ اس نظام تعلیم کی بدولت پاکستان کا نظام حکومت بھی بہتر ہوگا۔ جامعۃ الرشید کے فارغ التحصیل میرٹ کی بنیاد پر معاشرے میں اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ 18ویں ترمیم کے نتیجے میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنا ممکن نہیں رہا لیکن ہمیں اس کے لیے کوشاں ہونا چاہیے اور برابری کے مواقع فراہم کرنے چاہیے۔ آج الحمد للہ یہ دینی ادارے کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے پہلی دفعہ عصری تعلیمی میں قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کی اشد ضرورت ہے۔ عصری تعلیمی اداروں میں بھی یہ کام ہو رہا ہے۔ اس طرح باقی دینی مدارس بھی اس کام میں جامعۃ الرشید کی تقلید کریں تو ہمار مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ امید ہے جس طرح بہت کم عرصے میں جامعۃ الرشید نے یہ مقام حاصل کیا ہے اب مزید ترقی کریں اور وقت کی ضرورت کو پورا کرے۔وزیر مملکت انجینئر بلیغ الرحمن نے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ میرے لیے باعث افتخار ہے کہ میں آپ سے مخاطب ہوں۔ صحت کے مسائل کی وجہ سے شرکت نہیں کرسکا۔ جامعۃ الرشید وہ ادارہ ہے جہاں اعلیٰ تعلیم اعلیٰ اخلاقی قدروں کے ساتھ دی جاتی ہے۔ آج وہ اساتذہ لائق تحسین ہیں جن کی خدمات سے تعلیمی سلسلے جاری ہیں۔ عوام کا مستقبل تعلیم سے وابستہ ہے۔ پاکستان اقوام عالم میں اہم ترین ملک ہے۔ امت مسلمہ کا دسواں حصہ اس ملک میں رہتا ہے۔ تعلیم اب صوبوں کی ذمے داری ہے۔ ہم نے بین الصوبائی وزرائے تعلیم کنونشن کا انعقاد کیا۔ آئین کے مطابق ہمارا نظام تعلیم اسلامی اصولوں کے تحت ہونا چاہیے۔ الحمد للہ اسکولز میں قرآن کی تعلیم کو نصاب کا لازمی حصہ بنایا گیا ہے۔ بقیہ معاشرے کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ سابق چیف آف نیول اسٹاف و چیئرمین معاون فاؤنڈیشن ایڈمرل (ر) محمد آصف سندیلہ نے کہا کہ جامعۃ الرشید کو مبارکباد دیتا ہوں کہ دینی علوم کے ساتھ عصری علوم پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔ہم میڈیا دیکھتے ہیں تو ہر طرف تاریکی اور مایوسی نظر آتی ہے۔ مگر یہاں ایسے ادارے بھی موجود ہیں جو انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس لیے مجھے امید کی کرن نظر آرہی ہے۔ میں نے ٹاٹ والے اسکول سے تعلیم حاصل کی اور آج اس مقام پر ہوں۔سابق کور کمانڈر منگلا لیفٹینٹ جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا کہ میں نے جو خواب دیکھا تھا آج اس کو پورا ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ تعلیم کو دینی اور غیری دینی میں تقسیم کرنے پر بہت افسوس ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنا نظام تعلیم ٹھیک کرلیں تو پاکستان دنیا میں اپنا مقام حاصل کرلے گا۔ قرآن ہمیں آزاد کرنے آیا تھا، ہمیں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کرنے نہیں۔ جامعۃ الرشید آکر یہ اندازہ ہو رہا ہے کہ اب ہماری سوچ آزاد ہوگی۔ ہم آپ کو آزادی نہیں دے سکے مگر یہ نوجوان آزاد نسل ہے۔ ان کو کسی سے خوف نہیں ہے۔ اگر پاکستان ہے تو آپ اور ہم سب ہیں۔ لیکن اگر ملک کو نقصان پہنچا تو پھر کچھ بھی نہیں رہے گا۔ یونیورسٹی آف لاہور کے چیئرمین اویس رؤف نے کہا کہ فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ مبارکباد کے مستحق ہیں، جنہوں نے دینی و دنیاوی علوم حاصل کیں۔انہوں نے کہا کہ آج امت مسلمہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کو دین و دنیا کے نام پر تقسیم کردیا گیا ہے۔اس کی وجہ اگر چہ پروفیشنل لوگ تو پیدا ہورہے ہیں لیکن ایسے لوگ اپنی رویات سے بے خبر ہوتے ہیں۔ہم اس تفریق کو ختم نہیں کرسکیں مگر الحمد للہ جامعۃ الرشید نے اس کا آغاز کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے تقدیر کے فیصلے کرنے والے دین سے نابلد ہیں ،اس لیے ہمیں قیادت تیار کرنی ہوگی۔ تحریک جوانان پاکستان کے سربراہ عبداللہ گل نے کہا کہ یہ بات میرے لیے باعث اعزاز ہے کہ آج میں اس تقریب میں شریک ہوں۔ پہلے جنرل حمید گل مرحوم کے ساتھ آیا کرتا تھا۔ آج اکیلا آیا ہوں۔ میں نظریاتی آدمی ہوں اور نظریاتی لوگوں کے ساتھ کھڑا ہوں۔ پاکستان ایک عظیم تحفہ ہے اور ایک خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔ ہم نے اسے اسلام کے نام پر بنایا لیکن اسلام کو بطور نظام نافذ نہیں کرسکے۔ آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔ریکٹر اینڈ ڈین KSBL ڈاکٹر ذیشان احمد نے کہا کہ موت کے وقت تمام اعمال رک جاتے ہیں مگر صدقہ جاریہ، تعلیم اور نیک اولاد۔ ان اعمال کا ثواب موت کے بعد بھی ملتا ہے۔ مسلمانوں کے سنہرے دور میں مدارس، اوقاف کے ادارے صدقہ تھے۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا۔ مغرب میں ایسی مثالیں آج بھی ملتی ہیں۔ بل گیٹس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ جامعہ کا شعبہ سی پی آر ڈی یہی کام کر رہا ہے۔سابق چیئرمین سندھ بورڈ آف انویسمنٹ زبیر موتی والا نے کہا کہ آج کا یہ پروگرام جامعۃ الرشید کے نظم کا عکس ہے۔ہمیں اس بات پو غور کرنا ہوگا کہ اس ادارے میں ایسا مثالی نظم کیوں ہے۔تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ ادارہ ایسے افراد تیار کررہا ہے جو نظم و ضبط کے پابند ہیں۔ہمیں اپنے معاشرے میں ایسا نظم و ضبط قائم کرنا ہوگا اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایسا تعلیمی نظام لائیں جو جامعۃ الرشید نے اپنایاہے۔ہمیں آج یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کو ایسے تعلیمی اداروں میں پڑھائیں جہاں دنیا کے ساتھ ساتھ دین کی تعلیم بھی دی جاتی ہو۔انہوں نے کہا کہ ہمیں جامعۃ الرشید کا دست و بازو بننا ہوگااور جامعہ کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنا ہوگا۔ہم نے اگر پاکستان کو تبدیل کرنا ہے تو جامعۃ الرشید کو آگے بڑھانا ہوگا۔چیئرمین آباد محسن ابو بکر شیخانی نے کہا کہ بزنس کمیونٹی کو ایسی کوئی بھی پریشانی ہو یا دینی رہنمائی کی ضرورت ہوتو جامعۃ الرشید ہماری رہنمائی کرتی ہے۔ جامعۃ الرشید کا نظام دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہے۔ یہ ایک سلسلہ ہے جسے بہت آگے لے کر جانا ہے۔ لوگوں کو جامعۃ الرشید کی ضرورت ہے۔ ہمیں حلال اور حرام کی تمیز ہونی چاہیے۔ اس پر نوجوانوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وائس پریذیڈنٹ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ڈاکٹر منیر احمد نے کہا کہ جامعہ میں بہت کشش ہے۔ جامعہ کی ایک سالہ کارکردگی خوش کن ہے۔ یہاں کے طلبہ کا مستقبل روشن ہے۔ دینی و عصری علوم کو یکجا کرنا بڑا کارنامہ ہے۔ ہماری یونیورسٹی آپ کے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج کے اس پر مسرت موقع پر اپنی پیشہ وارانہ خدمات جامعہ کو دینے کا اعلان کرتا ہوں۔جامعہ انوار القرآن کے مہتمم مولانا فداء4 الرحمن درخواستی نے کہا کہ آج پہلی بار جامعۃ الرشید میں حاضری پر بہت خوشی محسوس ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جامعۃ الرشید دینی مدارس کے لیے رول ماصل کی حیثیت رکھتا ہے ،دینی مدارس کو جامعۃ الرشید کے نظام تعلیم سے سیکھنا چاہئے۔