کر اچی کے قبرستانوں میں خودساختہ ٹھیکے داری نظام قائم ہو نے کی وجہ سے آخری آرام گاہ کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے

190

کر اچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) کر اچی کے قبرستانوں میں خودساختہ ٹھیکے داری نظام قائم ہو نے کی وجہ سے آخری آرام گاہ کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے، بلدیہ عظمی کراچی سے رجسٹرڈ قبرستانوں میں قبر کے لیے ڈھائی ہزار روپے فیس مقرر ہے جب کہ شہر کے مختلف قبرستا نوں میں گو رکن اور ٹھیکے دار مافیا مل کر فی قبر 15 سے30ہزار روپے تک وصول کررہے ہیں،مقامی انتظامیہ کی غفلت کے نتیجے میں قبرستانوں میں غیرقانونی سرگرمیوں کا سلسلہ بھی عروج پر ہے،کراچی کے شہری اپنے عزیزوں کو سپرد خاک کرنے کے معاملے میں بھی نہایت بے بس اور مجبور نظر آ تے ہیں،انہیں قبرستانوں میں مردوں کی تدفین کے لیے
ایک بڑی رقم خرچ کرنا پڑتی ہے،کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن نے شہر کے 237 قبرستانوں میں سے 224 کا کنٹرول خودساختہ انتظامیہ، لینڈوقبضہ مافیاکے ہاتھوں میں دیا ہو ا ہے،شہر کے بیشتر قبرستانوں میں مردوں کو دفنانے کی جگہ ہی نہیں بچی اور انتظامیہ نے بعض قبرستانوں میں مزید مردے دفنانے پر پابندی بھی لگا دی ہے لیکن گورکنوں کے لیے جگہ نکالنا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ اس پابندی کے باوجود اپنے کسی پیارے کی تدفین کے لیے رابطہ کرنے والوں کو مایوس نہیں لوٹنے دیتے،بلدیہ عظمیٰ کراچی سے رجسٹرڈ قبرستانوں کی تعداد 237کے قریب ہے، جن میں سے 28 قبرستانوں میں مزید تدفین کی گنجایش نہیں ہے جس کے باعث انہیں بند کردیا گیا ہے،ان میں سخی حسن، پاپوش نگر،میوہ شاہ،شاہ فیصل کالونی،مہاجر کیمپ، سوسائٹی ،طارق روڈ،یاسین آباد،النور فیڈرل بی ایریا،الیاس گوٹھ ،لیاقت آباد،جہانگیرآباد،گولیمار،ماڈل کالونی ایک نمبر، جعفرطیار سوسائٹی،الفتح اور اورنگی ٹا ؤ ن کے قبرستان شامل ہیں،اس کے باوجود مختلف قبرستانوں میں 15 سے30 ہزار روپے فیس کے نام پر تدفین کے لیے قبر فراہم کی جارہی ہے،ان میں سخی حسن،پاپوش نگر،شاہ فیصل کالونی اور ماڈل کالونی کے قبرستان شامل ہیں، افسوس ناک بات یہ ہے کہ پرانی قبروں کو توڑ کر نئی قبریں بنائی جارہی ہیں اور انتظامیہ نے اس طرف سے اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ذار ئع کا کہنا ہے کہ طارق روڈ کے قبرستان میں تدفین کے لیے سب سے زیادہ رشوت لی جاتی ہے، جسے فیس کا نام دیا گیا ہے، اس قبرستان میں فی قبر 50 ہزار روپے تک طلب کیے جاتے ہیں اور پیسے لینے کے بعد گورکن نہایت آسانی سے قبر تیار کر دیتے ہیں ،انتظامیہ کی طرف سے عا ئد پابندی اور گنجائش نہ ہونے کا مسئلہ رقم ملتے ہی حل ہو جاتا ہے،شہر کے بعض قبرستانوں میں دیکھ بھال اور صفائی کا بھی کوئی انتظام نہیں ہے، قبریں بے ترتیب اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں،یہی نہیں بلکہ گورکن اور ٹھیکے دار پرانی قبروں کو مسمار کر کے نئے مردوں کے لیے جگہ بنا دیتے ہیں جو حساس نوعیت کا معاملہ ہے تاہم اس کا حل نکالنے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی کوشش نہیں کی جا رہی ہے اور یہ مسئلہ وقت کے ساتھ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ قبرستانوں میں صفائی اور روشنی کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسائل جنم لے رہے ہیں،رات کے وقت کسی میت کو دفنانے کے لیے آنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جنازے کے شرکا قبروں کی بے ترتیبی کی وجہ سے مشکل میں پڑ جاتے ہیں جب کہ تدفین کے موقع پر انہیں ایمرجنسی لائٹ کا خود ہی انتظام کرنا پڑتا ہے، قبرستان میں نشہ کرنے والوں کی موجودگی نیا مسئلہ نہیں ہے،یہ لوگ نہ صرف رات کے وقت بلکہ دن میں بھی ناپسندیدہ سرگرمیاں کرتے دیکھے جاسکتے ہیں، قبرستانوں میں ایسے افراد گندگی اور غلاظت پھیلاتے ہیں اور قبروں کی بے حرمتی کرنے کا باعث بنتے ہیں، اس سلسلے میں قبرستان کی انتظامیہ کوئی کارروائی کرتی نظر نہیں آتی، بعض قبرستانوں میں بارش کے پانی کی نکاسی کا معقول انتظام تک نہیں ہے، جس کی وجہ سے قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں، افسوس ناک صورت حال چھوٹے قبرستانوں کی ہی نہیں بلکہ شہر کے بڑے اور پرانے قبرستان بھی اسی مسئلے سے دوچارہیں،شارع فیصل پر واقع مسیحیوں کے لیے مخصوص گورا قبرستان بھی ابتر حالت میں ہے جہاں بارش کے بعد کئی ہفتے تک پانی کھڑا رہتا ہے۔کراچی کے شہریوں کا مقامی انتظامیہ سے کہنا ہے کہ وہ ایسے بے حس ،لالچی اوربد عنوان افرادکے خلاف فوری کارروائی کریں ،جو انہیں اپنے پیاروں کے بچھڑنے کی تکلیف اور دکھ کے موقع پر بھی مشکلات سے دوچار کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں کے ایم سی میونسپل سروسز کے ڈائریکٹر مسعود عالم نے 200 سے زائد قبرستانوں پر دیگر گروپوں کے قبضے کے حوالے سے تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کے مضافات میں 6 نئے قبرستان قائم کیے جانے کے منصوبے پر غور کیا جارہا ہے کیوں کہ شہر کے قبرستانوں میں اب جگہ موجود نہیں ہے۔