(آئین کی پاسداری کا دن کون منائے گا؟(متین فکری

156

10اپریل کو سینیٹ کے زیر اہتمام ’’یوم آئین‘‘ منایا گیا۔ یہ دن منانے کا آئیڈیا چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی کا تھا۔ 1973ء کے آئین کو نافذ ہوئے چوالیس سال ہورہے ہیں بلاشبہ یہ وطن عزیز کا نہایت اہم اور تاریخ ساز واقعہ ہے۔ یہ آئین نہایت مشکل حالات میں مکمل قومی یک جہتی اور یک سوئی کے ساتھ تشکیل دیا گیا اور پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے ہر قسم کے سیاسی اختلاف سے بالا تر ہو کر غیر معمولی نظریاتی ہم آہنگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتفاق رائے سے ایک ایسے آئین کی منظوری دی جس میں ’’پاکستان کا مطلب کیا۔ لاالہ الاللہ‘‘ کے نظریے کو پوری طرح سمو دیا گیا تھا اور اسلام کی حاکمانہ قوت کھلے دل سے تسلیم کی گئی تھی۔ اس طرح 1973ء کے آئین نے پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک ’’اسلامی جمہوری پاکستان‘‘ بنادیا جس میں اسلام کے زریں اصولوں کی عملداری کو یقینی بنایا گیا تھا اور ان اصولوں کی روشنی میں ایک جمہوری پارلیمانی نظام کے ساتھ وطن عزیز کے مستقبل کو وابستہ کیا گیا تھا۔ بلاشبہ اس کا کریڈٹ پیپلز پارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے جنہوں نے اکثریت کے بل پر چھوٹی جماعتوں کی تجاویز و سفارشات کو بلڈوز کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہیں آئین کا حصہ بنانے میں پوری طرح معاونت کا مظاہرہ کیا۔ اس کی مثال ہم جماعت اسلامی کی کنٹریبوشن (contribution) سے دے سکتے ہیں جس کے ارکان کی تعداد اگرچہ چار پانچ سے زیادہ نہ تھی لیکن اس نے آئین کی تشکیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پروفیسر غفور احمد آئین کی ایک ایک شق پر دماغ سوزی کرتے رہے۔ انہیں مختلف الخیال سیاسی لیڈروں کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی آئین کی صورت گری میں پروفیسر صاحب کی ساعی کی بھرپور تحسین کی اس طرح جو آئین تشکیل پایا اس میں شق 62 اور 63 کے ذریعے اس بات کی ضمانت دی گئی تھی کہ جو سیاست دان انتخابات کے ذریعے اس ملک کے حکمران بنیں گے یا منتخب ہو کر پارلیمنٹ میں آئیں گے وہ صادق و امین اور ہر قسم کی اخلاقی کمزوریوں سے پاک بے داغ کردار کے حامل ہوں گے۔ ملک کے نظام کو اقربا پروری کے بجائے میرٹ کی بنیاد پر چلایا جائے گا۔ قانون سازی اسلامی اصولوں کی روشنی میں کی جائے گی۔ ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ کیا جائے گا اور اردو مقدس زبان کی حیثیت سے نفاذ آئین کے پندرہ سال کے اندر قومی سطح پر رائج کردیا جائے گا۔
بلاشبہ آئین میں ہر سطح پر قومی امنگوں کی ترجمانی کی گئی تھی لیکن المیہ یہ پیش آیا کہ اس آئین کے خالق اور محرک نے ہی اس کے نفاذ کے بعد اس کی بے توقیری شروع کردی۔ آئین کو کاروبار مملکت سے بے دخل کردیا۔ ملک میں آئین کے منافی بدترین قسم کی فسطائیت قائم کرلی اس نے نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین کا جینا دوبھر کردیا بلکہ اپنی ہی پارٹی میں اختلاف رائے رکھنے والوں کو بھی نہ بخشا اور انہیں شرمناک ظلم کا نشانہ بنایا پھر جب 1973ء کے آئین کے تحت نئے انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو اس میں بھی آئین کو بری طرح پامال کیا۔ انتخابات میں کھلے عام دھاندلی کی گئی، بلامقابلہ منتخب ہونے کی خواہش میں اپنے حریف امیدوار کو اغوا کیا گیا اور ملک میں لاقانونیت کی انتہا کردی گئی۔ بالآخر پوری قوم اس جبر کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ جس جونیئر جرنیل کو اس شخص نے اپنا ذاتی وفادار سمجھتے ہوئے فوج کا سربراہ بنایا تھا اسی لیے اقتدار پر قبضہ کرلیا، نہ صرف اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ اپنے ’’محسن‘‘ کو پھانسی پر بھی لٹکادیا۔ یہ درحقیقت آئین سے انحراف بیوفائی کی سزا تھی جسے قدرت نے ممکن بنایا تھا، یہ جائے عبرت نہیں تو اور کیا ہے۔ اقتدار پر قبضہ کرنے والا جرنیل بھی آئین کو بے توقیر کرنے پر المناک انجام سے نہ بچ سکا اور طیارے کے حادثے میں مارا گیا۔ پھر اس کے بعد سول جمہوریت بحال ہوئی اور قدرت نے حکمرانوں کو موقع دیا کہ وہ آئین کی بالادستی قائم کرکے اپنے ربّ سے کیا گیا وعدہ پورا کریں لیکن بے نظیر ہوں یا میاں نواز شریف کوئی بھی آئین کی پاسداری کا علم بلند نہ کرسکا۔ دونوں حکمرانوں نے دو دو بار ملک پر حکومت کی لیکن آئین مظلوم رہا۔ میرٹ کو پامال کیا گیا اور ملک میں اقربا پروری اور کرپشن کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وطن عزیز ایک بار پھر فوجی آمریت کے چنگل میں آگیا، اس فوجی آمر نے بھی آئین کی بے حرمتی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ بالآخر اسے بھی انجام بد سے دوچار ہونا پڑا اور آج وہ پاکستان سے بھاگنے پر مجبور ہوگیا ہے۔ آئین سے بیوفائی کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو بھی اپنے المناک انجام کو پہنچ گئی ہیں اور اب میاں نواز شریف پر بھی پاناما کیس کی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ انہوں نے اقتدار کے نشے میں آکر آئین کو پاؤں تلے خوب روندا ہے اور ان کے حلقوں سے یہ آواز بلند ہورہی ہے کہ وزیراعظم کے لیے آئین کی شق 62 اور 63 پر پورا اُترنا ضروری نہیں۔
چیئرمین سینیٹ جناب رضا ربانی نے ’’یوم آئین‘‘ منا کر بہت اچھا کیا لیکن وہ اس مایوس قوم کو یہ بھی بتائیں کہ آئین کی پاسداری کا دن کون منائے گا؟ وہ روشن دن کب طلوع ہوگا جب ملک میں آئین کو بالادستی حاصل ہوگی اور آئین کے مطابق قوم کے جمہوری حقوق بحال ہوں گے؟۔