قصہ اسکول کی تاریخی عمارت اور ’’بلڈرز پارٹی‘‘ کا!

184

تعلیمی ادارے کو ختم کرنے کے عمل کو ہی تو ’’تعلیمی نظام‘‘ کا قتل کہا جاتا ہے۔ تعلیمی ادارے تاریخی اور قدیم ہوں یا جدید ان کی یکساں اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن تاریخی عمارتیں تاریخی حقیقت کو زندہ رکھنے کا باعث ہوتی ہیں۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں ہفتے اور اتور کی درمیانی شب انتہائی چالاکی اور منصوبہ بندی کے ساتھ سولجر بازار میں واقع گورنمنٹ جفل ہرسٹ اسکول کو مکمل منہدم کرنے کی کوشش کی گئی۔ خوش قسمتی سے جماعت اسلامی کے کارکنوں اور شہر کا احساس کرنے والی حساس شخصیات کی بروقت مداخلت اور مزاحمت سے سولجر بازار میں واقع اس عمارت کو مٹی کا ڈھیر بنانے کی کوشش ناکام بنادی گئی۔ یہ کوئی معمولی نہیں ہے بلکہ تعلیم اور تاریخی ورثہ کی اہمیت کو سمجھنے والوں کے لیے بہت ہی بڑا واقعہ ہے۔ ایک اسکول کا خاتمہ سیکڑوں بچوں کو تعلیم سے دور کرنے کی سازش تھی۔ لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا، اس سے قبل جوبلی کے علاقے میں بھی بلڈرز مافیا، سیاسی اور سرکاری شخصیات کی پشت پناہی میں بلدیہ کراچی کے اسکول کے ساتھ بھی ہوچکا ہے جس کا مقدمہ عدالت میں چل رہا ہے جب کہ اس میں ملوث سرکاری افسران تاحال ملازمتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور میں روٹی، کپڑا اور مکان کا ذکر ہے، تعلیم کو اس پارٹی نے ترجیحات میں رکھا ہی نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج یہاں جس پارٹی کی حکومت ہے اسے پیپلزپارٹی کے بجائے ’’پاکستان بلڈرز پارٹی‘‘ کی حکومت کہا جارہا ہے۔ ایسا اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس پارٹی کے کرتا دھرتا اور لیڈروں میں اہم رہنما سمیت متعدد ’’کنسٹرکشن‘‘ کے کاروبار سے نہ صرف دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ خود بھی مختلف ناموں سے بلڈر اینڈ ڈیولپر بنے ہوئے ہیں۔ سب ہی جانتے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے بلڈرز کو کس کی سپورٹ حاصل ہے اور انہوں نے اپنے کاموں میں حائل ہونے والی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کیوں ’’فائیلوں کو پہیے لگانے کی بات کی تھی‘‘۔ ملک ریاض اپنا کاروبار پنجاب سے شروع کرنے کے بعد اب کراچی میں چھا چکے ہیں۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی سیکڑوں ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ کا مقدمہ عدالت میں ہے۔ سارا کچھ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ہی تو ہوا۔ سندھ حکومت کے ایک سابق وزیر، ایک سابق اسپیکر اور موجودہ اہم عہدیداروں کے فرنٹ مین۔ ایسی صورت میں راتوں رات تاریخی عمارت میں قائم اسکول کی عمارت کو مہندم کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ سب کچھ باآسانی ہوجاتا ہفتے کی رات اگر اسکول کی عمارت کو مہندم کرنے کی کارروائی کسی طرح مکمل ہوجاتی تو پھر صرف شور ہوتا اور تحقیقات کے دعوے کیے جاتے جیسے اب بھی کیے جارہے ہیں۔ کچھ ہونا تھا اور نہ اب ہوگا۔کیوں کہ دور ’’بلڈرز پارٹی‘‘ کا ہے۔
بلڈر مافیا ایسی ہوکہ جس کے تانے بانے حکومت سے ملتے ہیں تو پھر پولیس کے غریب اہلکار کیا کرسکتے ہیں ماسوائے غیر قانونی احکامات ماننے کے۔ سب ہی کو یقین ہے کہ پولیس کی نگرانی اور پشت پناہی میں ہی قومی ورثہ قراردی گئی اسکول کی عمارت کو منہدم کیا گیا ہوگا۔ مگر اس کے باوجود صرف ایس ایچ او کو معطل کیا گیا ہے۔ ڈی ایس پی اور ایس ایس پی سپروائزنگ آفیسر ہوتے ہیں مگر شاید ذمے داروں کو یہ بھی یقین ہے کہ ان دونوں افسران کا اس معاملے سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوگا۔ ممکن ہے کہ پولیس کے افسران کو اس کا علم ہی نہ ہو اور یہ سب ایس ایچ او کی سطح پر ہی کیا گیا ہو۔ مذکورہ تاریخی عمارت سو سال پرانی اور مس ایس ڈی اپری او کی ملکیت تھی جنہوں نے اس میں اسکول قائم کردیا تھا۔ یہ ایک نجی اسکول تھا تاہم اسے 1971 میں حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ اس عمارت کی بدقسمتی صرف یہ ہے کہ اس بلڈنگ کے قریب چند سال پہلے ایک نئی بلند عمارت تعمیر کرلی گئی تھی، اطلاعات ہیں کہ یہ نئی عمارت سابق صوبائی وزیر بلدیات کی ہے۔ یہ وزیر اچھے ’’اسپیکر‘‘ بھی ہیں لیکن ان کی تقریروں یا انداز بیاں کی بازگشت کم ہوتی ہے۔ مذکورہ تاریخی عمارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں قائم اسکول کے پرائمری سیکشن میں بھارت کے سابق ڈپٹی پرائم منسٹر ایل کے ایڈوانی نے بھی تعلیم حاصل کی ہے۔ جب کہ متعدد دیگر نامور شخصیات بھی اسی اسکول کے طالب علم رہ چکے ہیں۔
اسکول کے انہدام کی کوشش کے واقعے پر سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شرقی فیصل عبداللہ نے تھانہ سولجر بازار کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) ارشاد سومرو کو معطل کردیا۔ ارشاد سومرو کی معطلی کا مطلب یہ نہیں کہ اس واقعے میں ملوث اصل ملزمان کو بھی پولیس گرفتار کرلے گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فوری طور پر ’’پولیس پر اٹھنے والی انگلیوں کو نیچے کردیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ یعنی ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر سے بھی اس بارے میں کچھ پوچھ گچھ کی جارہی ہے یا نہیں؟ آخر وہ بھی تو کسی نہ کسی طور پر اس عمارت کی حفاظت ہی کیا اپنے علاقے میں کی جانے والی قانونی اور غیر قانونی کارروائیوں کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ چلیں ضلعی انتظامیہ کو بھی چھوڑ دیتے ہیں، ایک ادارہ ہے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) جسے کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کو توڑ کر اسی طرح بنایاگیا ہے جس طرح ان دنوں کسی چھوٹی عمارتوں کو مہندم کرکے وہاں بلند عمارتیں تعمیر کردی جاتی ہیں۔ اس ادارے کی ذمے داریوں میں صرف یہی نہیں ہے کہ غیرقانونی تعمیرات کو روکنا بلکہ یہ بھی ہے کہ نئی اور پرانی عمارتوں کے انہدام کی اجازت بھی دینا اسی اتھارٹی کا کام ہے۔ راقم نے اس ضمن میں معلومات کی تو پتا چلا کہ اس جفل ہرسٹ اسکول کی عمارت کو 2010 میں ہی خطرناک قراردیدیا گیا تھا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس عمارت کو قانونی طور پر توڑنے کے لیے گزشتہ سات سال سے کوششیں کی جارہی تھیں۔ قانون کے مطابق تاریخی ورثہ قراردیے جانے والی عمارت کو منہدم کرنے کے لیے ہیرٹیج فاؤنڈیشن کی اجازت ضروری ہوتی ہے۔ تاہم ایس بی سی اے نے اس عمارت کے انہدام کے لیے نہ تو ہیرٹیج فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا تھا اور نہ ہی اس کے منہدم کے لیے کوئی فائل چلائی تھی۔ پھر کس نے اور کیوں اس کو منہدم کرایا تھا؟۔ اطلاعات کے مطابق اس بلڈنگ کو ایک ایف آئی اے کے افسر کی پشت پناہی کی وجہ سے گرایا جارہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایف آئی اے کا افسر ہو یا کوئی اور اس طرح کیسے کوئی عمارت کو گراسکتا ہے؟ خصوصاً جہاں ایک سرکاری اسکول چل رہا ہو، وہ کوئی بھی کیسے ختم کرسکتا ہے؟ اہم سوال یہ بھی ہے کہ جس عمارت کو 2010 میں کراچی بلڈنگزکنٹرول اتھارٹی نے خطرناک قرار دے کر اس فوری منہدم کرنے کی سفارش کی تھی تو وہ سات سال بعد بھی کس طرح قابل استعمال رہی؟ اور اگر یہ قابل استعمال نہیں تو یہاں سندھ گورنمنٹ نے کیوں اپنا اسکول قائم کیا ہوا تھا؟ پھر 29 جنوری 2016 کو تاریخی ورثہ قرار دی گئی اس عمارت کو حکومت کے محکمہ کلچر، ٹورزم اور انٹیکیوٹیز کیوں اپنی تحویل میں نہیں لے سکی اور اس کی مناسب دیکھ بھال کا کیوں انتظام نہیں کیا گیا گیا؟۔
مذکورہ عمارت کے انہدام کے حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ ’’تباہ کی گئی عمارت قومی ورثہ تھی اور جس نے بھی اسے تباہ کیا اسے معاف نہیں کیا جائے گا‘‘۔ آئی جی پولیس کا عزم اپنی جگہ لیکن خدشہ ہے کہ سب کچھ وقت کے ساتھ جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گا۔ جو کچھ اس عمارت کے ساتھ ہوا وہ قابل افسوس اور باعث شرمندگی ہے مگر اب بھی لوگوں کو توقع ہے کہ فوری طور پر اس تاریخی عمارت کو دوبارہ اس کی اپنی اصل حالت میں بحال کیا کردیا جائے گا ساتھ ہی مکمل توجہ سے اسے تاریخی اسکول میں تبدیل کرکے اس کی مسلسل دیکھ بھال کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ تاہم سابق ایڈمنسٹریٹر بلدیہ کراچی فہیم زمان خاں کو اس بات کی کوئی امید نہیں ہے کہ موجودہ حکومت اس عمارت کو محفوظ کرنے اور بحال کرنے کے لیے کوئی اقدام اٹھائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ بلڈرز مافیا اب مزید مستحکم ہوچکی ہے۔ اس کے تعلقات حکمرانوں سے جاکر ملتے ہیں۔ اس لیے انہیں کسی قسم کی اچھی توقعات نہیں ہیں۔