وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس جناب ریاض احمد خان نے ریمارک دیتے ہوئے کہا ہے کہ سود کی ممانعت جس دور میں آئی اسے آج نافذ نہیں کیا جاسکتا نیز یہ کہ پہلے اس بات کی وضاحت ہونی چاہیے کہ کیا ربٰو، سود اور انٹرسٹ کے معنی ایک ہی ہیں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ موجودہ دور میں ’’ا نٹرسٹ‘‘ کے معنی سود نہیں بلکہ نقصان کا ازالہ ہیں مزید برآں پرانے وقتوں کی معیشت آج کے دور کی معیشت سے بہت مختلف تھی۔ وکیل معاون نے وضاحت کرتے ہوئے سوال کیا، کیا موجودہ دور میں لین دین اور کاروبار کے معنی بدل گئے ہیں؟ غبن دھوکا اور تجارت کی تعریف آج بھی وہی ہے جو صدیوں پہلے تھی۔
۱۰؍اپریل، بروز پیر، وفاقی شرعی عدالت میں بلاسودی بینک کاری کے سلسلے میں جب چار رکنی بینچ کارروائی کا آغاز کیا، جس میں جناب جسٹس فدا محمد، جسٹس شیخ نجم الحسن اور جسٹس ظہور احمد شامل تھے اور جس کی صدارت خود وفاقی شرعی عدالت کے چیف جسٹس جناب ریاض احمد کر رہے تھے، ان کے ریمارکس نے اس وقت سب کو حیرت میں ڈال دیاجب انہوں نے یہ کہا کہ سود کے متعلق اللہ کا وہ حکم جو آج سے چودہ برس پہلے آیا تھا اس کو موجودہ دور میں نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات اگر کوئی عام آدمی کہہ رہا ہوتا تو شاید کسی سننے والے کے لیے اتنی حیرت کا سبب نہیں بنتی لیکن ایک چیف جسٹس اور وہ بھی شرعی عدالت کا، ایسا کہے تو اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔
ان کا یہ کہنا کہ اُس دور کے تقاضے کچھ اور تھے اور اِس دور کے تقاضے کچھ اور ہیں، ایک افسوسناک امر بھی ہے اور ان کے اس بیان سے (نعوذ باللہ) قرآن کا آخری کتاب ہدایت ہونے میں بھی شبہ پیدا ہو جانے خدشہ مضمر ہے (ہزار بار خدانخواستہ)۔ اسی عدالت میں ان کے معاون وکیل نے جو بات کہی ہے وہ بہت وزن رکھتی ہے کہ کیا موجودہ دور میں لین دین اور تجارت کا مفہوم بدل گیا ہے اور کیا غبن دھوکا اور چوری کے معانی تبدیل ہو گئے ہیں باالفاظ دیگر اگر اب بھی لین دین کا عمل جاری ہے، تجارت کی جاتی ہے، غبن کو غبن، دھوکے کو دھوکا اور چوری کو چوری سمجھا جاتا ہے تو پھر سود کا مفہوم بھی وہی ہے جس کا ذکر قرآن میں آیا ہے اور وہ جس طرح پہلے حرام تھا اسی طرح آج بھی حرام ہے اور سود کی بنیاد پر معیشت کا جو ڈھانچہ بھی تیار کیا جائے گا وہ دھوکے کی ٹٹی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔
جسٹس صاحب فرماتے ہیں کہ ’’موجودہ دور میں انٹرسٹ کا مطلب سود نہیں، نقصان کا ازالہ ہے‘‘ گویا نعوذ باللہ، ’’سود‘‘ یا سودی نظام جس کو عرف عام میں ’’انٹرسٹ‘‘ کہا جاتا ہے وہ کسی کو نقصان پہنچانے کے بجائے فائدہ پہنچاتا ہے۔ یہ بیان بجائے خود قرآن کے احکامات کی تضحیک میں آتا ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مفہوم ہمیں یہی بتاتا ہے کہ سود میں ہمارے لیے کسی بھی قسم کا کوئی فائدہ نہیں اور جب سودی کاروبار میں نقصان ہی نقصان ہے تو پھر ایسا کاروبار کسی کے نقصان کا ازالہ کیونکر کر سکتا ہے؟ ان کی یہ بات ضرور غور طلب ہے کہ پوری دنیا میں ہر سال کرنسی کی ’’قدر‘‘ میں کمی آجاتی، اس بات کو بنیاد بنا کر وہ استفسار کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’کیا اگر کسی سے سو روپے قرض لیے جائیں تو اگلے سال اسے سو ہی واپس کیے جائیں گے یا ایک سو سے زیادہ‘‘۔ قرض کا اصول تو یہی کہتا ہے کہ اتنی ہی رقم ادا کی جائے جتنی لی گئی ہو لیکن کرنسی کی قدر میں کمی اور خصوصاً پاکستانی کرنسی جس تیزی کے ساتھ انحطاط کا شکار ہے اس کی روشنی میں اس بات پر غور کیا جانا بھی معنی رکھتا ہے۔
وہ رقم جو ہم بطور امانت کسی بینک کے حوالے کرتے ہیں، بینک اس جمع شدہ رقم کو بہر صورت کاروبار میں لگاتا ہے۔ بے شک بہت سارے کاروبار میں اس کو منافع اور بہت سارے کاروبار میں اسے نقصان کا سامنا ہوتا ہوگا لیکن بحیثیت مجموعی بینک کو منافع ہی ہوتا ہے جس کو وہ صارفین میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کر دیتا ہے۔ لہٰذا اس بات کا تعین بھی بہت ضروری ہے کہ کیا بینک جس سرمائے کو تجارت میں لگا رہا ہے، کسی کو قرض دے رہا ہے، خواہ کاروبار کے سلسلے میں یا کسی تعمیر کے سلسلے میں یا خود کوئی بلاواسطہ کارو بار کر رہا ہے، وہ قرض کسی اسی تجارت یا تعمیر میں تو صرف نہیں ہو رہا جس کا مقصد ’’حرام‘‘ ہو؟ اگر ایسا ہے تو لگایا گیا سرمایہ یا اس کا نفع کیسے حلال ہو سکتا ہے۔ گویا یہ بات سود سے بھی پہلے سوچنے اور غور کر نے کی ہوئی، ابھی تو عدالت میں کارروائی کا آغاز ہوا ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ چیف جسٹس صاحب اپنے تبصرہ کیے گئے الفاظ کا جائزہ لیتے ہوئے ان کو واپس بھی لیں گے اور اس کار خیر میں بھی اپنا حصہ ڈالیں گے کہ نظام بینک کاری سود سے پاک ہوجائے تاکہ اس پاکستان میں جس کو اسلام کے لیے حاصل کیا گیا تھا اللہ کے نظام معیشت کو نافذ کیا جا سکے۔