بہت سے لوگوں کو برا لگے گا اگر میں یہ کہوں کہ پاکستان میں دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کو منظم کرنے کی کارروائی کے دوران پکڑے جانے والے ہندوستانی جاسوس کلبھوشن یادو کے خلاف خفیہ کورٹ مارشل میں مقدمہ چلانے کے سلسلے میں دانشمندی سے کام نہیں لیا گیا۔ کلبھوشن یاد نے خود اپنے اعترافی ویڈیو میں جن سنگین جرائم کا اقرار کیا ہے اس کے پیش نظر اس کے خلاف بھلے کورٹ مارشل ہوتا لیکن کھلے عام ہوتا کیوں کہ اس کے بین الاقوامی مضمرات سے انکار نہیں، اس مقدمے کی سماعت بین الاقوامی صحافیوں کو بھی سننے کی اجازت ہوتی تو ہندوستان کو اعتراضات کے ڈھول پیٹنے کا موقع نہ ملتا۔
کورٹ مارشل میں صحافیوں کی شمولیت کوئی غیر معمولی بات نہیں ہوتی۔ میں خود پاکستان میں کئی کورٹ مارشل کے مقدمات کی کارروائی رپورٹ کر چکا ہوں۔ پھر دنیا میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار افراد کے خلاف کھلے عام مقدمات کی سماعت ہوتی رہی ہے۔
سب سے مشہور مقدمہ، امریکا میں جولیس اور ایتھل روزن برگ کے خلاف تھا جن کو سویت یونین کے لیے جاسوسی کرنے اور ایٹم بم کے سے متعلق خفیہ فوجی راز سویت یونین کو افشا کرنے کے الزام میں جولائی 1950کو گرفتار کیا گیا تھا اور مارچ میں گرینڈ جیوری کے سامنے مقدمہ چلایا گیا تھا۔ 13 ماہ بعد انہیں عدالت نے سزائے موت سنائی گئی اور 1953میں انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔
اسی طرح امریکی سی آئی اے کے ایک عملدار ایلڈرچ ایمس کے خلاف روسی خفیہ کے لیے جاسوسی کے الزام میں کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا لیکن مقدمہ کی سماعت کے دوران ایمس نے اقبال جرم کر لیا اور عدالت نے اسے عمر قید کی سزا دی، جو اب بھی وہ بھگت رہا ہے ۔
3 مارچ 2016کی بلوچستان میں کلبھوشن یادو کی گرفتا ری کے بعد سے حکومت ایسا معلوم ہوتا تھا کچھہ تذبذ ب اور تردد کاشکار رہی ہے۔ ایک عرصہ سے حکومت ، ہندوستان پر یہ الزام لگاتی رہی ہے کہ وہ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو اکسا رہا ہے اور ان کی مدد کر رہا ہے، اور جب کلبھوشن یادو کی گرفتاری اور اس کا اقبالی بیان سامنے آیا تو اسے علی الاعلان پوری دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ پاکستان کے لیے بڑا اچھا موقع تھا کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کلبھوشن کے اقبالی بیان کو بلوچستان میں ہندوستان کی دہشت گردی کی امداد اور مداخلت کے ثبوت کے طور پر پیش کر سکتا تھا لیکن نہ جانے کیا مصلحتیں تھیں کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں کلبھوشن کا نام تک نہیں لیا۔
ہندوستان کی حکومت کا بھی کلبھوشن یادو کی گرفتاری پر عجیب و غریب ردعمل سامنے آیا ہے۔ کلبھوشن کی گرفتاری کے بارے میں جب پاکستان نے اعلان کیا تو ایک عرصہ تک ہندوستان کی حکومت خاموش رہی۔ پھر جب پاکستان میں ہندوستان کے ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کر کے پاکستان نے احتجاج کیا کہ را کا ایک اعلیٰ افسر غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہو کرتخریبی کارروائی میں مصروف تھا، تو ہندوستان کی حکومت کے ترجمان، وکاس سروپ نے اس کی تردید کی کہ کلبھوشن یادو نامی شخص کا ہندوستان کی حکومت سے کوئی تعلق ہے اور یہ شخص انڈین نیوی سے قبل از وقت ریٹائر ہو چکا ہے۔
پھر ہندوستان نے کئی ہفتے کی خاموشی اختیار کر لی لیکن 29 مارچ 2016کو جب پاکستان نے کلبھوشن یادو کا اعترافی ویڈیو جاری کیا جس میں اس نے صاف صاف کہاکہ وہ اب بھی انڈین نیوی کا حاضر افسر ہے اور را کے لیے کام کر رہا ہے، تو پہلے تو ہندوستان کی حکومت نے کہا کہ یہ وڈیو جعلی ہے اور ایذا رسانی کے بعد یہ ویڈیو بنایا گیا ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ہندوستان نے اس بنیاد پر یادو سے سفارتی رسائی کا مطالبہ کیا کہ یہ ہندوستانی شہری ہے۔
ہندوستان کی حکومت کے ان متضاد بیانات سے صاف ظاہر تھا کہ وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کرہی تھی کہ یادو کا را سے کوئی تعلق نہیں اور در اصل یہ حسین مبارک پٹیل ہے جو ایران کی بندرگاہ چاہ بہار میں شپنگ کا کام کر رہا تھا جسے اغوا کیا گیا ہے۔
اب کلبھوشن یادو کو سزائے موت سنائے جانے کے بعد ہندوستان میں ایک تہلکہ مچ گیا ہے اور پاکستان کو دھمکیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔کلبھوشن کے بارے میں بھاشن پر بھاشن دیے جارہے ہیں۔ ہندوستان کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے کہا کے یادو کے لیے ہر فورم پر لڑا جائے گا۔
ہندوستان میں سارا زور اس پر ہے کہ یادو کے خلاف صحیح طور پر کوئی مقدمہ نہیں چلا ہے بلکہ فوج نے سزائے موت کا اعلان کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی حکومت یہ بھول گئی ہے کہ 1985 میں جب ہندوستان میں ان 19افراد کے خلاف وزیر اعظم اور وزارت دفاع میں جاسوسی کا گروہ منظم کرنے اور غیر ملکی سفارت کاروں کے ساتھ رابطے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا تھا تو یہ بند کمرے میں خفیہ تھا ۔
اس گروہ کے رابطے میں جو چھ غیر ملکی سفارت کار تھے انہیں خاموشی سے ہندوستان سے رخصت کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ان 19افراد کے خلاف مقدمہ کی اس قدر خفیہ سماعت تھی کہ کسی کو پتا نہیں چل سکا کہ سماعت میں کیا ہوا اور اس مقدمہ کا کیا فیصلہ ہوا۔ کم از کم کلبھوشن یادو کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ اسے پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت دی گئی ہے اور اسے چالیس دن کے اندر اندر فیصلہ کے خلاف اپیل کا حق ہے اور وہ صدر مملکت سے سزا معاف کرنے اور اسے نرم کرنے کی بھی درخواست دے سکتا ہے۔