جسارت کی خبر پر کارروائی،میئر کراچی نے باغ ابن قاسم کی تباہی کا نوٹس لے لیا

69

کراچی(رپورٹ : محمد انور )بلدیہ عظمیٰ کراچی نے کلفٹن میں واقع باغ ابن قاسم میں کی گزشتہ سالوں کے دوران تباہی اور باغ کے اندر سے ایک 62منزلہ عمارت کے لیے غیر قانونی سیوریج لائن بچھاکر باغ کو نقصان پہنچانے کے عمل کا نوٹس لیکر تحقیقات شروع کردی ہے ۔ اس مقصد کے لیے ایک سابق ماہر باغات کی خدمات رضاکارانہ بنیاد وں پر حاصل کی گئی ہیں۔باخبر سرکاری ذرائع کے مطابق میئر کراچی وسیم اختر نے باغ سے غیرقانونی سیوریج لائن گزارنے کے لیے کارروائی کا نوٹس روزنامہ جسارت میں12اپریل کو شائع ہونے والی خبر پر لیا ہے۔انہوں نے ڈائریکٹر جنرل باغات آفاق مرزا کو ہدایت کی ہے کہ گزشتہ سالوں کے دوران باغ میں ہونے والی تباہی کے ذمے داروں کا تعین کیا جائے اس مقصد کے لیے اپنے ذاتی تعلقات اور صلاحیتیوں کو استعمال کیا جائے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ہدایت پر ڈائریکٹر جنرل نے رضا کارانہ بنیاد پر سابق ڈائریکٹر جنرل باغات لیاقت علی کی خدمات حاصل کی ہیں جن کی مدد سے وہ نہ صرف پورے باغ ابن قاسم کے نظام کو سمجھیں گے بلکہ زمین میں ڈالی گئی سیوریج لائنوں اور دیگر غیرقانونی تبدیلیوں کے حوالے سے انکوائری میں مدد فراہم کریں گے۔اس ضمن میں ڈائریکٹر جنرل باغات آفاق مرزا نے نمائندہ جسارت کے رابطہ کرنے پر تصدیق کی ہے کہ لیاقت علی کی خدمات رضا کارانہ طور پر باغ ابن قاسم کی حالت بہتر بنانے کے لیے لی گئی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ میئر کراچی وسیم اختر نے 3ماہ کے اندر پارک کی خوبصورتی بحال کرنے اور اس میں کی جانے والے بے قاعدگیوں کے حوالے سے تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ دریں اثنا ء سرکاری ذرائع نے بتایا ہے کہ باغ ابن قاسم کے قریب تعمیر ہونے والے 62 منزلہ آئیکون کے لیے سیوریج لائن ڈالنے سے قبل باغ کی دیکھ بھال کا ٹھیکا کسی طرح بحریہ نامی ایک فرم نے گزشتہ سال2016 ایک سال کے لیے محض ایک کروڑ 62 لاکھ روپے میں لیا تھا جبکہ یہ ٹھیکا ہر سال 4کروڑ روپے سے زائد رقم میں جایا کرتا تھا لیکن کے ایم سی نے انتہائی کم لاگت آنے پر ٹھیکا مذکورہ فرم کے حوالے کردیا تھا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ فرم نے کنٹریکٹ لینے کے بعد مبینہ طور پر پورے باغ میں شرائط اور کنٹریکٹ کے مطابق کسی قسم کا کام نہیں کرایا ۔ جبکہ اس دوران باغ میں کھدائی کرکے سیوریج لائن بچھادی گئی ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس دوران باغ کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا لیکن حیرت انگیز طور پر نہ تو اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل باغات نے کوئی ایکشن لیا اور نہ ہی کے ایم سی اور حکومت سندھ کی جانب سے کسی قسم کا نوٹس لیا گیا ۔ نتیجہ میں ایک سو 30 ایکڑ رقبے پر مشتمل پارک تباہ ہوگیا۔