(وجود برق سے ہے تصویر کائنات میں رنگ(بابا الف کے قلم سے

249

صاحبو! گرمی کے آغاز کے ساتھ ہی دوپہر میں وہ لُوچل رہی ہے کہ جون ایلیا یاد آجاتے ہیں۔
لُوچل رہی ہے محو ہے اپنے میں دوپہر
خاک اُڑ رہی ہے اور کھنڈر خیریت سے ہیں
کراچی کا موسم دیوانہ ہوگیا ہے۔ چند دن پہلے گرمی کے آثار نمودار ہی ہوئے تھے کہ دوتین دن ایسی گرد آلود ہوائیں چلیں کہ معدہ ملتان ہوگیا۔ گرد کے ساتھ ساتھ ان ہواؤں میں ٹھنڈک بھی تھی۔ آج کل صبح اور رات میں ہلکی ہلکی سردی ہوتی ہے اور دوپہر میں تیزلُو۔ عصر مغرب تک جس کے اثرات رہتے ہیں۔ اس برس کہا جارہا ہے کہ کراچی میں گرمی خوب پڑے گی۔ وہ دن خیال وخواب ہوئے جب کراچی کا موسم معتدل ہوا کرتا تھا۔
حکمرانوں کی عنایت سے کراچی ابھی تک کھنڈر تو نہیں بنا لیکن کچرے اور اُڑتی دھول کا وہ سماں ہے کہ کراچی کے شہریوں کی چھاپ تلک سب ماند پڑتی جارہی ہے۔ کراچی میں جابہ جا ابلتے ہوئے گٹر، بہتا ہوا گندہ پانی، اور اس میں ڈوبے گڑھوں کو دیکھ کر یقین آجاتا ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے۔ کسی بھی دن کسی بھی گڑھے میں آسکتی ہے۔ جن چیزوں کا اب تک پتا نہیں چل سکا وہ کراچی کا کچرا ہے۔ اہل کراچی روزانہ کتنا کچرا کرتے ہیں اور اس کچرے کو کیسے تلف کیا جاسکتا ہے تاحال دریافت نہیں کیا جا سکا۔ جمہوریت کا حسن دیکھنا ہے تو کراچی کا کچرا دیکھ لیجیے۔
کلبہ افلاس میں دولت کے کاشانے میں کچرا
دشت ودر میں شہر میں گلشن میں ویرانے میں کچرا
کچرا ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوبتا جاتا ہے کراچی کچرے کی آغوش میں
گرمی اور کچرے کو سہ آتشہ لوڈشیڈنگ بناتی ہے۔وہی روز وشب پھر درپیش ہیں جب لوگ ایک دوسرے سے ملنے پر خیر خیریت پوچھنے کے بجائے گرمی اور لوڈشیڈنگ کا ذکر کریں گے۔ جن دنوں دہشت گردی کے ڈنکے بج رہے تھے کسی ستم ظریف نے پاکستان زندہ باد کا مطلب پاکستان سے زندہ بھاگ مراد لیا تھا۔ دہشت گردی کا وہ زور تواب نہیں لیکن لگتا ہے اس برس بھی بجلی کے تعطل اور لوڈ شیڈنگ کا حال پچھلے برسوں جیسا ہی رہے گا۔ مئی جون ابھی آیا نہیں لیکن بجلی کی قلت چار ہزار میگا واٹ سے تجاوز کرگئی اور لوڈشیڈنگ کا دورانیہ وہی، تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو، اٹھارہ گھنٹے۔
ایسی قوت جو کسی جسم میں حرارت، روشنی یا کوئی اور تبدیلی پیدا کردے بجلی کہلاتی ہے اور ایسی قوت جو مزاج میں اشتعال، منہ میں گالی اور عمل اور ردعمل میں جھگڑا پیدا کردے لوڈشیڈنگ کہلاتی ہے۔ بجلی آنکھ سے نظر نہیں آتی لیکن اس کے کام کرنے سے اس کے ہونے کا احساس ہوتا ہے۔ کسی بلب کے روشن ہونے، موٹر کے چلنے یا بجلی کے تار کے چھو جانے سے بجلی کا پتا چلتا ہے لوڈ شیڈنگ میں معاملے برعکس ہوتا ہے۔ ایک راہ گیر پر بجلی کے تار گر گئے، تڑپنے لگا، اسے یقین ہوگیا بجلی کا کرنٹ لگنے سے وہ مرنے والاہے۔ ذرا دیر بعد اسے احساس ہوا کہ ارد گردکھڑے لوگ اس پر ہنس رہے ہیں۔ ایک صاحب بولے ’’اوئے کھڑا ہو، پچھلے چار گھنٹے سے علاقے میں بجلی نہیں ہے۔ تجھے کرنٹ کس چیزسے لگ رہا ہے۔‘‘
2013 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن نے اقتدار ملنے کی صورت میں چھ مہینے میں بجلی کی قلت دور کرنے اور لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کاوعدہ کیا تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد حسب روایت یہ وعدے فراموش کردیے گئے۔ حکومت ایک ایک کرکے اپنے وعدوں اور اعلانات سے پیچھے ہٹتی گئی۔
تیرے وعدوں کی وفاچاہتا ہوں
میری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
ستم ہو کہ ہو وعدہ لوڈشیڈنگ
کوئی بات صبر آزما چاہتا ہوں
گزشتہ دنوں وزیر اعلی پنجاب نے پرزور اعلان کیا تھا کہ اس سال کے آخر تک ملک میں بجلی کی پیداوار اتنی ہوجائے گی کہ اپنی ضروریات پیدا کرنے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو بھی بجلی دی جاسکتی ہے۔ نہ جانے اس پر لوگ کیوں طعنہ زن ہیں۔ کیوں وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا مذاق اڑارہے ہیں۔ انہوں نے بھارت کو نہیں وزیر اعظم نریندر مودی کو بجلی فراہم کرنے کی بات کی تھی۔ سو وہ تو ہم آج بھی اس قابل ہیں کہ بھارتی وزیر اعظم ہا ؤس کو بجلی فراہم کرسکیں۔
علامہ اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ آج کل اس کی تضمین اس طرح کی جاسکتی ہے ’’وجود برق سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘۔ رنگ روشنی سب بجلی کی محتاج ہوکر رہ گئی ہیں۔ شہروں کو بھی عروس البلاد تب ہی کہا جاتا ہے جب وہ بجلیوں سے روشن ہوں۔شہر ہی نہیں دلہن بھی تب ہی دلہن لگتی ہے جب گھر میں بجلی ہو۔ ایک دلہن کمرہ عروس میں بھاری بھر کم جوڑے میں سکڑی سمٹی بیٹھی تھی۔ گھنٹہ بھر سے لائٹ گئی ہوئی تھی۔ گرمی اور پسینوں کی تاب نہ لاسکی بے ہوش ہوگئی۔ شوہر نے بغیر میک اپ کے دیکھا وہ بھی تاب نہ لاسکا، بے ہوش ہوگیا۔
ہمارے اہل سیاست تاحال عوام کو لاحق لوڈ شیڈنگ کے باب میں خاموش ہیں۔ پیپلز پارٹی حکمراں جماعت کے توسط سے اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے بدلے ڈاکٹر عاصم، ایان علی اور شرجیل میمن کی رہائی کا جشن منارہی ہے۔ مسلم لیگ ن شادکام ہے فوجی عدالتوں کی ازسر نو تشکیل کے حوالے سے اس پر جو دباؤ تھا وہ تحلیل ہوگیا۔ مخاصمت، مزاحمت اور جوشیلی بیان بازی کے پردے میں زرداری صاحب نے مفاہمت کا وہ کھیل کھیلا کہ کسی کو ہوا بھی نہ لگنے دی۔ رہی ایم کیو ایم تو الطاف بھائی کے بغیر کشش ثقل سے محروم اس کے ٹکڑے ادھر ادھر ڈولتے پھر رہے ہیں۔ رہی تحریک انصاف تو وہ آج کل نہ جانے کہاں ہے کیسی ہے۔ کچھ خبر نہیں۔ لیکن ایک بات ہے سب خبروں میں ان ہیں۔
کیا اہل ہنرکیا اہل شرف، سب ٹکڑے ردی کاغذ کے
اس دور میں ہے وہ شخص بڑا جو روز خبر میں رہتا ہے
کراچی میں نیپرا، کے الیکٹرک اور متعلقہ حکام کی ملی بھگت نے ایک طرف شہریوں کا جینا دو بھر کررکھا ہے تو دوسری طرف قومی معیشت کو ستر فی صد سے زیادہ محاصل دینے والے شہر میں صنعتی اور تجارتی سرگر میاں ماند پڑتی جارہی ہیں۔ کراچی کے عوام میں بجلی کے نرخوں، زائد بلوں اور لوٹ کھسوٹ کے خلاف شدید غم وغصہ پا یا جاتا ہے۔ جمعہ کو جماعت اسلامی نے شاہراہ فیصل پر عوام کے اس غم وغصے کے اظہار کے لیے دھرنے کا اعلان کیا تو پولیس عوام پر ٹوٹ پڑی۔ لاٹھی چارج، شیلنگ اور پکڑ دھکڑ کا وہ سلسلہ شروع کردیا کہ آئندہ کے لیے بھی لوگوں کو نصیحت ہوجائے۔ جماعت اسلامی کے اس احتجاج کی عوامی سطح پر پزیرائی سے اب پیپلز پارٹی بھی دھرنوں پر کمر باندھ رہی ہے۔ گرمی کے موسم میں دھرنوں کا موسم۔ دیکھیے اہل کراچی کہاں اور کب تک تاب لاتے ہیں۔