کراچی (اسٹاف رپورٹر )فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)نے اپنے آمدنی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے برآمد کنندگان کو ہدف بنالیا ہے، ایکسپورٹرز کے 10ماہ سے رکے ہوئے ریفنڈز کلیمز کی ادائیگیوں میں تاخیر کے لیے نت نئے منفی اور غیر قانونی ہتھکنڈے اختیار کیے جارہے ہیں اگر حکومت نے ایف بی آر کے طرز عمل کو صحیح نہیں کیا تو ہم احتجاج کریں گے، ایف بی آر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے ہم نے وکلاء سے مشاورت بھی شروع کردی ہے۔ یہ بات کونسل آف آل پاکستان ٹیکسٹائل ایسو سی ایشنز اور ویلیو ایڈیڈٹیکسٹائل ایسو سی ایشنز کے چیف کوآرڈینیٹراور چیئرمین پاکستان اپیرل فورم جاوید بلوانی، چیئرمین کیپٹا زبیر موتی والا اور ویلیو ایڈیڈٹیکسٹائل ایسو سی ایشنزکے دیگر رہنماؤں رفیق گوڈیل، چیئرمین پاکستان نٹ ویئر سویٹرز ایسو سی ایشن، عرفان باوانی،سینٹرل چیئرمین اور ریاض احمد چیئرمین، پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن،ہارون شمسی، چیئرمین ٹاول مینو فیکچررزایسو سی ایشن، خواجہ عثمان ، چیئرمین پاکستان کاٹن فیشن ایسو سی ایشن، امجد جلیل ، وائس چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسسنگ ملز ایسو سی ایشن،عرفان موٹن، پاکستان وونگ ایسو سی ایشن، اویس، ممبر پاکستان ریڈی میڈ گارمنٹس ایسو سی ایشن،کامران چاندنہ،خواجہ عثمان،سلیم پاریکھ،جاوید اختراور دیگر نے جمعرات کو مشترکہ ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہی۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں پیسے روکنے کی غرض سے ایف بی آر نے اسٹیک ہولڈر ایسو سی ایشنز کو اعتماد میں لیے بغیر تمام زیر التوا الیکٹرانک پیمنٹ ریلیز آرڈرز (ای آر پی اوز) کو رول بیک کر کے برآمد کنندگان کو شدید مالی بحران میں مبتلا کردیا ہے جس سے برآمدات میں مزید کمی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر نے ٹیکس آمدنی کے اہداف پورا کرنے کے جنون میں5 برآمدی زیروریٹڈ سیکٹرز کی برآمدات کو داؤپر لگادیا ہے۔ کراچی، فیصل آباد سمیت مختلف شہروں میں فیکٹریاں تیزی سے بند ہورہی ہیں۔ لومز سمیت ٹیکسٹائل مشینیں، اسکریپ میں فروخت ہورہی ہیں جس سے ہزاروں ہنرمند اور مزدور بے روزگار ہوگئے ہیں جو کسی بھی وقت سڑکوں پر آکر امن و امان کا مسئلہ کھڑا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ایف بی آر کے متعلقہ اعلیٰ افسران پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر کے 23ہزار نااہل اہلکار ٹیکس نیٹ میں اضافے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان کو نچوڑ رہے ہیں۔ ایف بی آر حکام ہر سال بجٹ سے دو تین ماہ قبل مختلف حربوں سے ریفنڈز روک کر ایڈوانس ٹیکس مانگناشروع کردیتے ہیں جن کی طویل عرصے تک ایڈجسٹمنٹ ہی نہیں ہوپاتی۔ آخریہ مکروہ روایت کب ختم ہوگی؟ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر حکام بزنس کمیونٹی کو چوراور خود کو پارسا کہتے ہیں اور برآمد کنندگان کے بینک کھاتوں سے خطیر رقوم نکال کر لے جاتے ہیں۔ اس غیر قانونی اور غیر اخلاقی طرزعمل سے ٹیکسٹائل برآمد کنندگان میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔
اور وہ آرڈرز لینے سے ہچکچا رہے ہیں جو بڑھتے ہوئے ہولناک تجارتی خسارے کے تناظر میں انتہائی تباہ کن رجحان ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ایکسپورٹس زیروریٹڈ ہے ، حکومت مہینوں، سالوں بعد ریفنڈز دے کراحسان جتاتی ہے کہ ہم برآمدکنندگان کی مدد کررہے ہیں، ہم لڑتے لڑتے تھک گئے ہیں۔ حکومت صاف طور پر بتادے تاکہ ہم ٹریڈنگ سمیت کوئی اور کاروبار کرلیں۔ ایف بی آر کا یہی طرز عمل رہا تو برآمدی صنعتیں دیوالیہ ہوجائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ برآمدات میں کمی سے 30جون تک تجارتی خسارہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ30ارب ڈالر ہوجائے گا، برآمدات میں اضافہ نہیں کیا جارہا اور درآمدات غیر معمولی طور پر بڑھ رہی ہیں جس کی ذمے داری نااہل ایف بی آر حکام پر عائد ہوتی ہے۔ اس سال پاکستان کی برآمدات بمشکل 20ارب ڈالر رہیں گی جبکہ بنگلا دیش کی صرف ٹیکسٹائل برآمدات28ارب ڈالر ہوں گی اور اگلے سال کے لیے اس کا 35 ارب ڈالر کا ہدف ہے۔ انہوں نے کہا کہ آٹھ حریف ممالک کے مقابلے میں پاکستان کی برآمدی مصنوعات کی پیداواری لاگت سب سے زیادہ ہے ، بنگلا دیش اور پاکستان کی پیداواری لاگت میں 15سے 22فیصد کا فرق ہے جبکہ حریف ممالک میں ریفنڈز کی 30سے 45دن میں یقینی ادائیگیوں کے ساتھ دیگر مراعات اور ترغیبات بھی فراہم کی جارہی ہیں، ان خراب حالات میں بھی پاکستانی برآمدکنندگان جدوجہد کررہے ہیں اور ایف بی آر ان کی محنت اور کوششوں پر پانی پھیر رہا ہے۔ حکومت نے بھی 180ارب روپے کے برآمدی مراعاتی پیکج پر عمل نہیں کیا ، وزراء ٹی وی پر آکر صرف دعوے کررہے ہیں۔ انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے اپیل کی کہ وہ تجارتی خسارے میں کمی اور ٹیکس آمدنی میں اضافے کے لیے ذاتی طور پر مداخلت کر کے روکے گئے سیلز ٹیکس ریفنڈز کلیمز بشمول ودھولڈنگ ٹیکس، کسٹمز ری بیٹ، ڈی ایل ٹی ایل کی فوری ادائیگیوں کے احکامات صادر کریں۔