یوکرائن میں خانہ جنگی کو 3 برس مکمل‘ 10ہزار ہلاکتیں

56

کیف (انٹرنیشنل ڈیسک) یوکرائن کی جانب سے مشرقی حصے میں روس کی پشت پناہی سے سرگرم باغیوں کے خلاف کارروائی کے آغاز کو 3 سال مکمل ہو رہے ہیں اور اس تنازع کے خاتمے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ 3 برسوں کے دوران یورپی براعظم پر جاری اس واحد جنگ میں 10 ہزار سے زاید افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ فروری 2014ء میں دارالحکومت کیف کی سڑکوں پر لوگ بڑی (باقی صفحہ 9 نمبر 10)
تعداد میں یورپی یونین کی حمایت میں نکل آئے تھے اور ماسکو نواز حکومت نے جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے روس میں جا کر پناہ لی تھی۔ جب روس نے بحیرہ اسود میں واقع یوکرائنی جزیرہ نما کریمیا میں اپنے دستے بھیج دیے تھے اور پھر مارچ 2014ء میں اسے جبراً روس میں شامل کر لیا تھا، تبھی سے اس بات کے واضح آثار نظر آنے لگے تھے کہ ماسکو حکومت یوکرائن کو اپنے دائرہ اثر سے نکل کر اتنی آسانی سے مغربی دْنیا کے حلقہ اثر میں شامل نہیں ہونے دے گی۔ اس جبری الحاق کے ایک ہی مہینے بعد یوکرائن کے مشرقی صنعتی علاقوں میں مسلح افراد نے جن کی وردیوں پر کوئی مخصوص نشان نہیں ہوتا تھا روس کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے حکومتی عمارات کو اپنے قبضے میں لینے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ روس ابتدا میں اس بات سے انکار کرتا رہا کہ اس نے کریمیا میں اپنے فوجی روانہ کیے۔ روس آج بھی وہاں کے علیحدگی پسند تنازع کو ایک ایسی خانہ جنگی قرار دیتا ہے، جس میں اس کا اپنا کوئی کردار نہیں تھا۔ دوسری طرف کیف حکومت اور مغربی دنیا دونوں کے مطابق اس بات کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں کہ ماسکو نے سرحد پار فوجی دستے اور ہتھیار بھیجے اور کامیابی کے ساتھ وہاں پائی جانے والی بے چینی کو ایک جنگ کی صورت دے ڈالی۔ اِدھر مغربی دْنیا بالخصوص یورپی ممالک نے اپنے بالکل ہی قریب جاری اس تنازع میں قیام امن کے لیے مذاکرات کی وساطت سے اب تک بہت سی کوششیں کی ہیں لیکن وقفے وقفے سے ہونے والی فائر بندی کے سوا کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوئے بلکہ ہر بار فائر بندی کے خاتمے کے بعد اور بھی زیادہ تشدد اور اموات دیکھنے میں آئی ہیں۔ یوکرائن پہلے بھی برسوں کی بدانتظامی اور کرپشن کی وجہ سے یورپ کے غریب ترین ممالک میں سے ایک تھا جب کہ جنگ نے اس ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے۔ اب وہاں کی فی کس آمدنی باقی یورپ کی اوسط آمدنی کا محض 20 فیصد رہ گئی ہے۔
یوکرائن ؍ خانہ جنگی