بیت المقدس ‘ ایک لاکھ فلسطینیوں کی بی دخلی کا منصوبہ

148

مقبوضہ بیت المقدس (انٹرنیشنل ڈیسک) اسرائیل کی اہم سیاسی جماعت لیکوڈ نے مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے میں توسیع کا ایک شرمناک منصوبہ صہیونی پارلیمان میں پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت علاقے کے اصل اور دیرینہ باشندے کئی شہری حقوق سے محروم ہو جائیں گے۔صہیونی روزنامے یدیعوت احرونوت کے مطابق ’گریٹر سٹی‘ منصوبے کے تحت 5 بڑی یہودی بستیاں بیت المقدس کی حدود میں شامل کی جائیں، جب کہبیت المقدس میں شامل شفعاط مہاجر کیمپ،کفر عقب اور عناتا کے علاقے شہر کی حدود سے نکال دیے جائیں گے جس کی وجہ سے تقریباً ایک لاکھ فلسطینی بیت المقدس کے باسی نہیں رہیں گے۔ اخبار کے مطابق بیت المقدس گریٹر سٹی سے متعلق مسودہ قانون دراصل ’لیکوڈ‘ اور ’جوئش ہوم‘ جماعتوں کے دائیں بازو کی حمایت لینے کی کوششوں کا عکاس ہے۔جوئش ہوم سے تعلق رکھنے والے نفتالی بینٹ بیت المقدس کے بنیادی قانون میں تبدیلی چاہتے ہیں، تاکہ مستقبل میں بیت المقدس کے کسی حصے سے دست برداری ممکن نہ رہے،لیکوڈ پارٹی نے اس کوشش کو ناکام بنانے کے لیے پرائیویٹ قانون کا سہارا لیا ہے جس کے تحت بڑی یہودی آبادیوں کو بیت المقدس گریٹر سٹی میں شامل کیا جانا مقصود ہے۔عبرانی اخبار کے مطابق اسرائیلی وزیر یسرائیل کاٹس اور رکن پارلیمنٹ یوآب کیش پیر کے روز ایوان میں مجوزہ قانون کا مسودہ پیش کیا، جس کے تحت بیت المقدس کو بڑا شہر بنایا جائے گا اور اس میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ اسرائیلیوں کو شامل کر لیا جائے گا۔یہ اسرائیلی شہری غرب اردن کی 5 یہودی بستیوں معالیہ ادومیم،غبغات زیئف،غوش عتصیون،افرات اور بیتار عیلیت میں مقیم ہیں۔مجوزہ قانون کی زد میں آکر ایک لاکھ فلسطینی بیت المقدس میں شامل رہنے سے محروم ہو جائیں گے۔قانون میں یہ بات خصوصیت سے کہی گئی ہے کہ شفعاط مہاجر کیمپ،کفر عقب اور عناتا کے رہایشی بیت المقدس میونسپلٹی کی ذمے داری سے نکل جائیں گے اور ان کے معاملات خودمختار مقامی کونسلوں کے ذریعے چلائے جائیں گے۔اس پر عمل کی صورت میں ان علاقوں کے فلسطینی باسی بیت المقدس بلدیہ کے سربراہ کے لیے ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔مشرقی بیت المقدس کے اکثریتی عرب فی الحال اپنا یہ حق استعمال نہیں کرتے۔