جے آئی ٹی رپورٹ، کیا نواز شریف اب مستعفی ہوجائیں گے؟

140

کراچی( تجزیہ: محمد انور ) جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔ اس رپورٹ پر عدالت جلد ہی فیصلہ سنائے گی۔ تاہم رپورٹ پر مسلم لیگی رہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ” ہم اس رپورٹ کو ردی قرار دے کر مسترد کرتے ہیں”۔ جبکہ بیرسٹر ظفراللہ کا کہنا تھا کہ “یہ جے آئی ٹی نہیں بلکہ پی ٹی آئی رپورٹ ہے”۔ ان دونوں رہنماؤں نے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو عمران نامہ اور پی ٹی آئی رپورٹ قرار دیا ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں مزید کیا کچھ ہے اس بارے میں تو فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن وفاقی وزرا اور نوازشریف کے رشتے داروں اور ساتھیوں کے ردعمل سے ایسا لگتا ہے کہ جے آئی ٹی نے حکمرانوں کی خواہشات کے بجائے قانون وانصاف کے تقاضوں کے مطابق ملک وقوم کے مفاد میں تحقیقات اور سفارشات پیش کی ہیں۔ قوم کو بھی یہی توقع تھی لیکن قوم کی توقعات کے خلاف اگر رپورٹ ہوتی تو اس کا مطلب تھا کہ یہ تحقیقاتی رپورٹ حکومت کے مفاد میں ہے لیکن چونکہ حکمرانوں نے اس رپورٹ کے سرکاری طور ہر منظر عام پر آنے سے قبل ہی اس پر اعتراض کر دیا اور اسے “عمران نامہ اور پی ٹی آئی رپورٹ” سے منسوب کرکے اس کی “شفافیت” کو آشکار کیا ہے اس لیے بہت احتیاط سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومتی وزرا اب اپنے دن انگلیوں پر نہیں بلکہ پوروں پر گن رہے ہیں۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش ہوتے ہی سوشل میڈیا پر یہ بھی بحث جاری ہے کہ کیا وزیراعظم نواز شریف کو استعفا دے دینا چاہیے؟ آزاد میڈیا پر لوگ وزیراعظم نواز کو ان کے ویڈیو کلپ کے ذریعے ان کے یہ الفاظ کہ “اگر کمیشن کی تحقیقات سے مجھ پر الزام ثابت ہوا تو ایک منٹ ضائع کیے بغیر استعفا دے دوں گا “بھی یاد دلارہے ہیں۔ قوم سوچ رہی ہے کہ نواز شریف کا ایک منٹ60 سیکنڈ کے مساوی ہے یا 60 دنوں کے” ۔ جب ملک میں الزامات پر شرمندہ ہونے کے بجائے اسے مسترد کرنے کی مضحکہ خیز روایت پروان چڑھ جائے تو عوام کے اس طرح کے تاثرات اور خدشات پیدا ہونا فطری بات ہوتی ہے۔ یاد رکھنے کی بات تو یہ ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے پاناما اسکینڈل سامنے آنے کے بعد 5 اپریل2016ء کو اس بارے میں تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن قائم کرنے کا خود اعلان کیا تھا اور سپریم کورٹ سے کہا تھا کہ عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔ یہ اور بات ہے کہ عدالتی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ سب سے پہلے تحریک انصاف کی جانب سے سامنے آیا تھا۔ عدالتی کمیشن کی رپورٹ میں2 جج صاحبان نے نوازشریف کے لیے یہ کہا تھا کہ وہ اب صادق وامین نہیں رہے جبکہ3 ججز نے کہا تھا کہ ان الزامات پر تحقیقات کرالی جائے۔ اب تحقیقات ہوگئی تو حکمرانوں نے رپورٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ عمل پوری تحقیقات اور سپریم کورٹ کے حکم پر قائم جے آئی ٹی کو متنازع بنانے کی کوشش کے مترادف ہے۔ لیکن حکمرانوں کے اس ردعمل سے یہ بھی ثابت ہو رہا ہے کہ تحقیقات معروف اصولوں اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق مکمل کی گئی ہے۔ عدالتی کمیشن کی رپورٹ کو اگر عدالت من وعن تسلیم کر کے فیصلہ سنائے تو یہ بات پوری قوم کے لیے خوش آئند ہوگی کہ ملک میں جمہوری اور قانونی تقاضوں کے مطابق وزیراعظم تک کا احتساب شروع ہوچکا ہے۔ اور اگر اس رپورٹ کی روشنی میں آنے والے فیصلے کے مطابق پوری حکومت تحلیل کی جاتی ہے تو یہ پہلی بار ہوگا کہ جمہوری حکومت جمہور کی آواز پر کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں اپنی مدت پوری کیے بغیر ختم ہوگئی۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جمہوریت کے چمپئین نواز شریف رپورٹ کے بعد عدالتی فیصلے سے قبل ازخود اسمبلیاں تحلیل کرنے کے لیے صدر کو سفارش بھیج کر خود مستعفی ہوتے ہیں یا نہیں؟ اگر عدالتی فیصلے سے قبل انہوں نے توقعات کے مطابق ایسا کر لیا تو وہ غیر مسلم لیگیوں میں بھی اپنی قدر بڑھا سکیں گے ورنہ اس کا نتیجہ الٹا نکلے گا۔