عرصۂ محشر

155

ناصر حسنی
کچھ عرصہ قبل واہ کینٹ تھانے کے اہلکار ایک 13 سالہ طالبہ کو کئی دن تک اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہوگئی، اس ظلم و ستم کے خلاف وہ بہت چیخی چلائی مگر کسی نے توجہ نہ دی، حتیٰ کہ لڑکی نے ایڈیشنل سیشن جج کی زنجیر عدل بھی ہلائی مگر قوم کے خادموں اور محافظوں کو ذرا غیرت نہ آئی، ذرا ٹس سے مس نہ ہوئے۔ سوال یہ ہے کہ جو قوم اپنی معصوم بچیوں کو اپنے ہی گھر میں تحفظ فراہم نہ کرسکے ان کا امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ کی خیرو خبر کے بارے میں متفکر ہونا بے معنی ہے، خود نمائی پر مبنی ہے۔ ایک پروفیسر نے اپنی طالبہ کو ہوش و حواس سے بیگانہ کرکے ابلیسیت کا مظاہرہ کیا۔ اپنی روحانی بیٹی کو بے آبرو کیا، کمینگیکی انتہا یہ ہے کہ رقص ابلیس کی وڈیو بھی بنائی اپنی روحانی بیٹی کو داشتہ بنانے اور اس کے والدین کو بلیک میل کرنے کی کراہیت آمیز حرکت کا مرتکب بھی ہوا مگر کوئی بھی اس مظلوم خاندان کی داد رسی نہ کرسکا۔ شاید ہم عرصہ محشر میں ہیں، سبھی کو اپنی اپنی پڑی ہے۔ ہر سمت نفسا نفسی کا عالم ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب پروفیسر کی کمینگی کے تمام ثبوت موجود ہیں معتبر اور معزز ذرائع اس کی گھٹیا ذہنیت کی تصدیق کرچکے ہیں تو اس کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا گیا۔ شنید ہے وہ مظلوم خاندان اپنا گھر بار چھوڑ کر کہیں اور جا بسا ہے، قوم کی ایک بیٹی کا مستقبل تباہ ہوگیا، ایک خاندان دربدر ہوگیا۔
یہ واقعات ہمیں بھارت کے ایک ترمیمی آرڈی ننس مجریہ 2017ء کے بارے میں پڑھ کر یاد آئے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق بھارتی سرکار نے آبرو ریزی کے خلاف نیا قانون نافذ کردیا ہے، فوجداری قانون کے ترمیمی آرڈی ننس مجریہ 2013 میں آبرو ریزی کے جرم میں ملوث فوجی اہلکاروں کو استثنا دے دیا گیا ہے۔ اب بھارتی فوجی کسی بھی بھارتی کنیا کی آبرو ریزی کے بعد کسی اور کنیا کی تلاش میں نکل پڑیں گے، اگر کسی بااثر شخص کی بیٹی بھارتی فوجی کا شکار بنی اور اس کے اثر رسوخ نے ایف آئی آر درج بھی کرادی تو ملزم کا وکیل ترمیمی آرڈی ننس کے حوالے سے استثنا کی بنیاد پر اپنے کلائنٹ کو باعزت بری کرالے گا۔
بھارتی سرکار کے اس فیصلے سے مقبوضہ کشمیر میں آبروریزی میں ملوث فوجیوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوسکے گی مگر یہ بھارتی سرکار کی خام خیالی ہے۔ ترمیمی آرڈی ننس مجریہ 2017ء کا اطلاق مقبوضہ کشمیر تک ہی محدود نہیں رہے گا۔ بھارتی فوج آبروریزی کو اپنا حق سمجھ لے گی اور پھر بھارتی فوج کے جوان رانڈ کے سانڈ بن کر ہر بھارتی کنیا کے لیے خطرہ بن جائیں گے۔
ہمارے پڑوسی کے ہاں دہلی سے ایک خاتون وکیل آئی تھیں، اس وقت کراچی کے لوگ سخت مشکل حالات سے گزر رہے تھے، کبھی پولیس، کبھی رینجرز، کبھی ملیشیا اور کبھی کسی اور ادارے کے اہل کار جب چاہتے کسی بھی گھر پر دھاوا بول کر تلاشی کے نام پر اہل خانہ کو اذیت میں مبتلا کردیا کرتے تھے ان حالات میں وہ مہمان خاتون وکیل سخت دل برداشتہ ہوئی اور چند دن کے بعد ہی واپس بھارت جانے کی تیاری شروع کردی۔ ہم نے اتنی جلدی جانے کی وجہ پوچھی تو کہا۔ بھارت کے بارے میں تم لوگوں کے خیالات بہت گمراہ کن ہیں وہاں پر تلاشی کے نام پر کسی کو اذیت نہیں دی جاتی۔ تلاشی کے احکامات کے بغیر کسی گھر پر دھاوا نہیں بولا جاتا۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ زنا بالجبر کے مقدمات میں 2 فوجی جوانوں کو سزا دلا چکی ہے۔ ممکن ہے وہ غلط بیانی سے کام نہ لے رہی ہو مگر ہمیں ابھی تک ایسی کوئی خبر نہیں ملی جس میں بھارت کی سول سوسائٹی اور وکلا برادری نے اس کالے قانون پر صدائے احتجاج بلند کی ہو۔