مقبوضہ کشمیر میں مظالم اور امریکی بے حسی

156

امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ امریکا کو کشمیر میں بھارتی مظالم نظر نہیں آتے، اقوام متحدہ اور عالمی برادری نے مسئلہ کشمیر پر اپنا وعدہ پورانہیں کیا۔ سراج الحق کا کہنا تھا کہ سید صلاح الدین دہشت گرد ہے تو جارج واشنگٹن اور نیلسن منڈیلا بھی دہشت گرد ہوں گے۔ جارج واشنگٹن نے امریکا کی آزادی کے لیے برطانیہ سے طویل جنگ لڑی اور نیلسن منڈیلا نے بھی اپنے ملک جنوبی افریقہ کو برطانوی قبضے سے چھڑانے کے لیے طویل جدوجہد کی اور جیل کاٹی۔ عجیب اتفاق ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھی برطانیہ کا پیدا کردہ ہے جو یہ تنازع اس لیے چھوڑ گیا کہ دونوں ممالک لڑتے رہیں چنانچہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت میں جنگیں ہوچکی ہیں۔ اب برطانیہ کی جانشینی امریکا نے سنبھال لی ہے لیکن اسے کشمیر میں بھارتی مظالم بھلا کیوں نظر آئیں گے کیوں کہ اب بھارت امریکا کی گود میں جا بیٹھا ہے اور امریکا نے پاکستان کی نہ صرف اپنی گود سے اتار پھینکا ہے بلکہ اپنے نئے اتحادی کی خاطر دھمکیاں بھی دے رہا ہے ۔ امریکی سینیٹر جان مکین کابل میں کہہ چکے ہیں کہ اگر پاکستان نے رویہ نہ بدلا تو پوری امریکی قوم پاکستان کے بارے میں اپنا رویہ تبدیل کرلے گی۔ امریکی حکمرانوں کا رویہ تو پہلے بھی پاکستان کے حق میں نہیں تھا بس خدمت کے عوض بھیک کے ٹکڑے پھینکتا رہا ہے جسے پاکستانی اپنی بڑی کامیابی قرار دیتے رہے ہیں ۔ اب پاکستان کو سزا دینے کے لیے امریکا کے دو ارکان اسمبلی ٹیڈپو اور نولان نے ایک بل پیش کیا ہے جو ’’ پونولان‘‘ بل کہلاتا ہے ۔ اس بل میں پاکستان کو نہ صرف سخت سزا دینے کامطالبہ کیا گیا ہے کہ بلکہ اسے غدار قرار دیتے ہوئے متعدد امریکیوں کی ہلاکت کا ذمے دار بھی قرار دیا گیا ہے لیکن امید نہیں کہ پاکستانی حکمرانوں کی آنکھیں کھل سکیں ۔ جن امریکیوں کی ہلاکت کا الزام پاکستان پر عاید کیا گیا ہے وہ افغانستان پر ناجائز قبضے کے دوران میں حریت پسند افغانوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے ہیں ۔ چنانچہ سوال یہ ہے کہ امریکی فوجی افغانستان میں کر کیا رہے ہیں اور کیا یہ ان ہی کا حق ہے کہ ایک آزاد ملک پر قبضہ کر کے مزاحمت کرنے والوں کو بے دریغ ہلاک کیا جاتا رہے؟ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے کہ پاکستان کا سابق ڈکٹیٹر اور پاک فوج کا سربراہ پرویز مشرف کہہ رہا ہے کہ امریکی فوج افغانستان سے نہ جائے ورنہ پھرطالبان کا غلبہ ہوجائے گا۔ کیا امریکا اب بھی پرویز مشرف کی ’’ خدمت ‘‘ کررہا ہے؟۔ اگر امریکی فوج کے نکلنے کے بعد خود افغان وہاں اپنی حکومت قائم کرلیتے ہیں تو اس سے پرویز مشرف کو کیا تکلیف ہے۔ کیا یہ افغانوں کا حق نہیں ۔ امریکی فوج تو عراق اور لیبیا میں بھی جم کر بیٹھی ہوئی ہے اور شام میں روس اور امریکا مل کر قتل و غارت گری میں مصروف ہیں ۔ امریکا کو افغانستان میں جمے رہنے کا مشورہ دینے والے پرویز مشرف کا تعلق کبھی پاکستان سے تھا اور وہ پاک فوج کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں ۔ ان کا سنگدلانہ مشورہ پوری قوم کے لیے باعث شرم ہے اور ستم یہ ہے کہ وہ راندہ درگاہ ہونے کے باوجود اب بھی پاکستان میں اقتدار کی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔ امریکا پرویز مشرف کے نادر مشورے کے بغیر بھی افغانستان سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ کچھ دن پہلے ہی افغان مجاہدین سے لڑنے کے لیے اس کی 600 جنگی گاڑیاں کراچی کے ساحل پر اتاری گئی ہیں جو افغانستان جائیں گی۔ افغان مجاہدین کو کچلنے کے لیے پاکستان نے امریکا کو اپنی سرزمین استعمال کرنے کا کھلے دل سے موقع دے رکھا ہے۔ امریکا مزید فوج بھی بھیج رہا ہے۔ پاکستان کی تمام خدمت گزاری اور اطاعت کے باوجود امریکا کی تمام عنایتیں بھارت پر ہیں تو کشمیر میں بھارتی مظالم کہاں نظر آئیں گے۔ بھارت نے امریکا کو بھی باور کرایا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا ذمے دار پاکستان ہے۔ لیکن جو لاشیں گررہی ہیں کیا وہ پاکستانی ہیں اور اسکولوں کی جو بچیاں بھارتی فوج کے سامنے ڈٹ گئی ہیں کیا وہ بھی پاکستانی ہیں ؟ اب تو ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اقوام متحدہ کے نام مراسلے میں کہا ہے کہ بھارت ایک دہشت گرد ملک ہے ۔ اس پر پابندی لگائی جائے، مقبوضہ کشمیر میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں ، 7ماہ میں کنٹرول لائن کی 37مرتبہ خلاف ورزی کی گئی اور آبادی پر گولہ باری سے 14شہری شہید ہوئے۔ لیکن امریکا کی آنکھیں بند ہیں اور اقوام متحدہ بھی اپنی ہی قرارداد پر عمل کرانے کے لیے تیار نہیں ۔اب تو خود مقبوضہ کشمیر پولیس کے سربراہ ایس پی وید نے گواہی دی ہے کہ بھارتی سیکورٹی فورسز مقبوضہ وادی میں معصوم شہریوں کے قتل عام میں ملوث ہیں ۔ پولیس سربراہ کا کہنا ہے کہ بھارتی فوجیوں کی زیادتیاں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ کشمیری پولیس سربراہ کا ضمیر جاگا تو ہے لیکن پوری طرح نہیں ۔ انہیں اپنی ملازمت کی فکر بھی ہوگی چنانچہ انہوں نے نوکری بچانے کے لیے یہ اضافہ کرنا ضروری سمجھا کہ سرحد پار سے سوشل میڈیا کے ذریعے اشتعال دلانے کے سبب کشمیری نوجوان بہک رہے ہیں اور کچھ عناصر ہیں جن کو بھڑکایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بھارتی فوج کو کون بھڑکارہا ہے جو معصوم شہریوں کا قتل عام کررہی ہے۔ پولیس کے سربراہ کو یہ تومعلوم ہوگا کہ سرحد پار سے سوشل میڈیا کے ذریعے بھڑکانے پر کوئی اپنی جان نہیں دیتا نہ خواتین اپنی عصمت قربان کرتی ہیں۔