میں بھی وانی ہوں

221

baba-alif

آٹھ جولائی کو اس جوان رعنا برھان مظفر وانی کی پہلی برسی تھی جس کی شہادت نے ثابت کردیا کہ باطل اپنی اصل میں کس قدرکمزور ہے۔ سرخ سپید چہرے اور چمکتی آنکھوں والے اس نوجوان کی شہادت نے روحوں کو بیدار کرنے والا وہ شور بلند کیاکہ اہل کشمیر ایک قوت بن کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ پاکستان کے لہراتے جھنڈے، آزادی کے نعروں کی گونج سے لرزاں وادی، جذبہ جنون اور 5لاکھ سے زائد افراد پر مشتمل وانی کا جنازہ وادی کے ایک ایک فرد کو آزادی کے رمز اور عظمت سے آشنا کرتا چلا گیا۔ 2010ء میں اپنے بڑے بھائی خالد کو بھارتی فوج کے درندوں کے ہاتھوں شدید ترین تشدد اور اذیت سے دو چار دیکھ کر وانی کے اندر بھیگی ہوئی لکڑیاں سنسنائیں، چٹخیں اور پھر ان سے گرم اور تند ہوا کی وہ لپٹیں پیدا ہوئیں جنہوں نے چھ سال تک وادی میں قابض بھارتی افواج کو حیران، پریشان اور صد موں میں جھونکے رکھا۔

وانی کی شہادت کے بعد گزشتہ ایک برس سے مقبوضہ وادی کے نوجوانوں نے بھارتی افواج کے خلاف نئے سرے سے صف بندی کی ہے۔ 70سال کے بعد اب اہل کشمیر کی تیسری نسل نے آزادی کا پرچم تھام رکھا ہے۔ اب کشمیر میں جو تحریک آزادی جاری ہے اس کی قیادت کشمیری نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہر نوجوان کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کمزور ہونے کے بجائے مضبوط ہوئی ہے۔ نوجوانوں اور عام لوگوں کی جانب سے اس پیمانے پر کسی جنگ اور تحریک میں شرکت کی مثال کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ بھارتی درندوں کے ظلم اور جبر کے ہر نئے حربے کی آزمائش کے بعد اہل کشمیر کے جوش اور جذبہ جہاد میں اضافہ ہوا ہے۔ تحریک حریت ایک نئے عزم سے آگے بڑھی ہے۔ مودی کی ہندوتوا سرکار اور فوج کے پاس موت بانٹنے کے سوا وادی کو کنٹرول کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں۔ بھارتی فورسز نے پیلٹ گنیں، پاواشیل اور دیگر مہلک ہتھیار استعمال کرکے دیکھ لیے لیکن وہ حیران ہیں کہ موت سے خوف زدہ ہونے کے بجائے کشمیری بزرگوں، جوانوں، نوجوانوں حتیٰ کہ بچوں اور بچیوں میں موت کی خواہش بڑھتی جارہی ہے۔ ہاتھوں میں پتھر لیے وہ جبر اور گھٹن پر موت کو ترجیح دے رہے ہیں۔ وہ طالبات جن کی کمر پر اسکول کے بستے ہوتے ہیں بھارتی درندوں پر اس طرح بے خوف ہوکر پتھرائو کرتی ہیں جیسے گھر کے صحن میں پہل دوج کھیل رہی ہوں۔ جس مقام پر وہ زخمی ہوتی ہیں ٹھیک ہونے کے بعد دوبارہ اسی مقام پر کھڑے ہوکر بھارتی سورمائوں کو سنگ باری کے ذریعے خاک چاٹنے پر مجبور کررہی ہوتی ہیں۔ مائیں روزانہ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاکر پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کررہی ہیں لیکن ان کا عزم ہے کہ کم ہونے کے بجائے بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سبز ہلالی پرچم کشمیر میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے چودہ اگست کے موقع پر پاکستان میں۔ بھارتی فوج کی سفاکانہ بے پروائی سے ظلم اور جبرکی تقسیم نے اہل کشمیر کو اس حد پر پہنچا دیا ہے کہ اب ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں سوائے بھارتی غلامی کی زنجیروں کے۔

بھارت کی مودی سرکار اس وقت طاقت کے نشے میں سرمست ہے۔ اس کے ایک طرف امریکا کھڑا ہے اور دوسری طرف اسرائیل۔ اس دنیا کو جہنم بنا دینے والے امریکا اور صہیونی وجود کو مسلمانوں کے خلاف ایک نیا پارٹنر مل گیا ہے۔ نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ بھارت اور اسرائیل نظریاتی ساتھی ہیں اور دونوں کا نکاح جنت میں ہوچکا ہے۔ نیتن یا ہو بھول گئے ہندئوں اور یہودیوں کو زیادہ سے زیادہ داخل کرنے کے لیے وہ جہنم ہے جس پر انہیں جنت لکھا نظر آرہا ہے۔ دورہ امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح کے کلمات بھارت کے متعلق ادا کیے وہ متوقع تھے۔ امریکا نے حزب المجاہدین کے کمانڈر شاہ صاحب (سید صلاح الدین) کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دے کر اپنے دوغلے پن کا عملی ثبوت دیا ہے۔ امریکا ایک طرف کشمیر کو متنازع علاقہ قرار دیتا ہے اور دوسری طرف وہاں اٹھنے والی آزادی کی تحریک کے ایک مجاہد کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔ لیکن بھارت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ بیرونی امداد اس جدوجہد آزادی کو کچلنے میں کچھ زیادہ کام نہیں آتی جس کا علم عوام نے اٹھا رکھا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وانی کی پہلی برسی پر بھارتی ریاست، وہاں کی حکمران اشرافیہ اور درندہ صفت افواج ڈری ہوئی اور خوف زدہ عفریت نظر آرہی تھیں۔ سات لاکھ بھارتی افواج کشمیر میں موجود ہیں جن میں اکیس ہزار کا مزید اضافہ کردیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے خوف کا یہ عالم تھا کہ وانی کی برسی سے ایک دن پہلے ہی سری نگر اور جنوبی کشمیر میں کرفیو اور دفعہ 144 کا اعلان کردیا گیا۔ کشمیری قیادت اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرلیا۔ انٹرنیٹ سروس معطل کردی گئی۔ تاہم پتھرائو کرتے لڑکوں اور لڑکیوں کے مقابل بھارتی افواج اور ریاست دیوار سے لگی نظر آتی ہے۔ امریکا اور اسرائیل کی آشیرباد کے بعد دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے جبر اور ظلم میں مزید اضافہ ہوجائے گا لیکن اس کے باوجود ایک اندھی کھائی اس کی آخری منزل ہوگی۔

دنیا بھر کے حقیقت پسند مبصرین تسلیم کرتے ہیں کہ کشمیرکی حالیہ تحریک آزادی وہاں کے اپنے لوگوں کی برپا کردہ ہے لیکن بھارت اور امریکا یہ ماننے کے لیے تیار نہیں۔ انہیں قدم قدم پر اس میں پاکستان کی دراندازی نظر آتی ہے۔ اسی طرح افغانستان میں کارروائیاں کرنے والے افغانستان میں بیٹھ کر ہی کارروائیاں کررہے ہیں لیکن ہمارے کسی سچ اور دلیل کو امریکا نے تسلیم نہیں کرنا۔ ٹرمپ کی قیادت میں معاملات اب پینٹاگون اور ہارڈ لائنر کے ہاتھوں میں ہیں جنہوں نے ہر حال میں پاکستان ہی کو مجرم قرار دینا ہے۔ لیکن اس کی بنیادی وجہ کچھ اور ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہماری سول اور فوجی قیادت کی یہ پا لیسی ہے کہ صبر اور تحمل ہی امن کا واحدراستہ ہے۔ خاموشی اختیار کرنے ہی میں عافیت ہے۔ امن کے لیے ظالم کے سامنے نہ صرف جھک جائو بلکہ خوب رگڑ رگڑ کے ماتھا ٹیکو۔ ہم ایک ایسی ایٹمی قوت ہیں جو ظالم کی مزید ظلم کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کررہی ہے۔ ہم یہ حقیقت فراموش کرچکے ہیں کہ ظالم اور ظلم کے سامنے جھکنے سے کبھی امن مقدر نہیں ہوتا۔ رسول کریم ؐ نے ایک ایسی حالت میں بھی جب آپ ؐ کو قریش کی طرف سے اذیتوں کا سامنا تھا، آپ ؐ نہتے تھے، کوئی مدگار نہیں تھا، کوئی لشکر نہیں تھا کوئی مادی ذرائع نہیں تھے آپ ؐ ایک چیلنج کے انداز میں ان کے بتوں کی اہانت کرتے، قریش اور ان کے بڑوں کو نشانہ بناتے اور ان کے طرز زندگی کی برائیاں گنواتے۔ اس کمزور حالت میں بھی آپ ؐ قریش سے مکمل طور پر متصادم تھے۔ ہمارا رویہ قرآن کی تعلیمات اور اس عمل کے برخلاف ہے جو اللہ کے رسولوں نے اختیار کیا۔ ظلم کے خاتمے کے لیے ہماری افواج اور حکومت کو قربانیوں، جہاد اور شہادت کی راہ پر آنا ہوگا۔ تب نہ صرف پاکستان، کشمیر، ہندوستان، افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے ہر گھر سے نوجوانوں کے قافلے ’میں بھی وانی ہوں‘ کہتے نکلیں گے اور اختتام تاریخ کی باتیںکرنے والوں کو جہاد کے وہ مظاہر دکھائیں گے جو ایک نئی دنیا کی نوید ہوں گے۔ وہ دنیا جو اسلام کی، مسلمانوںکی اور دنیا کے ہر مظلوم کی دنیا ہوگی۔

تالیف بابا الف کے قلم سے