رقہ کو چھڑانے کیلیے کوشاں امریکا نواز جنگجو باہم لڑپڑے

177

دمشق (انٹرنیشنل ڈیسک) دہشت گرد تنظیم داعش سے شامی شہر رَقہ کا قبضہ چھڑانے کی لڑائی ہر سمت پھیل چکی ہے۔ امریکی حمایت یافتہ کْرد قیادت والی سیرئن ڈیموکریٹک فورسز شہر کے قدیم علاقے میں داخل ہوچکی ہیں،جہاں انہیں اس گروپ کے گڑھ کے ایک تہائی رقبے پر کنٹرول حاصل ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی اہل کاروں نے مزید بتایا کہ زیر قبضہ علاقے پر کنٹرول بحال رکھنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ ایس ڈی ایف اور فری سیرئن آرمی ملیشیاؤں کے آپسی تنازعات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں لیکن سب سے بڑا مشکل مرحلہ داعش کے جنگجوؤں کی جانب سے دفاع ہے،جو موصل میں عراقی افواج کے ساتھ شہری لڑائی کا پچھلے 9 ماہ کا تجربہ رکھتے ہیں،اور حربی میدان میں بپھرے ہوئے ہیں۔ داعش شہری آبادی کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ شدت پسند جنگجو تمام حربوں کا سہارا لے رہے ہیں۔ ایس ڈی ایف کی ملیشیا پر گولے برسانے کے لیے داعش کے شدت پسند ڈرونز کا بھی استعمال کر رہے ہیں۔انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ حملے کے پہلے مہینے کے دوران 650 ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جن میں سے 224 شہری تھے۔ سیرئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق اب تک کی لڑائی میں داعش کے 311 جنگجو اور امریکی لڑاکا فورس کے 106 فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ امریکا نے اتحادی قوتوں کی مدد سے شامی شہر رَقہ پر دہشت گرد تنظیم ’پی کے کے‘ کی ذیلی شاخ پی وائی ڈی کے ٹھکانوں پر حملہ کرتے ہوئے 40 دہشت گرد ہلاک کردیے۔ ترک خبر رساں ایجنسی اناطولیہ کے مطابق اتحادی طیاروں نے آقریشی نامی قصبے پر فضائی حملے کیے جس میں 40 دہشت گرد مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔ قصبے کے جوار میں داعش اور پی کے کے کے درمیان جھڑپیں ہونے کی بھی اطلاعات ملی ہیں جس پر اتحادی قوتوں نے داعش کے مختلف ٹھکانوں پر حملہ کیا۔ اس اثنا میں داعش نے اپنے علاقائی نیٹ ورک اور سوشل میڈیا کے ذریعے اعلان کیا ہے کہ اتحادی قوتوں نے 2 روز کے اندر حملے کرتے ہوئے 23 شہریوں کو ہلاک اور 46 کو زخمی کر دیا ہے۔ دریں اثنا شام میں اتوار کے روز شروع ہونے والی جزوی جنگ بندی بدستور جاری ہے۔ شامی صوبوں درعا، السویدا اور القنیطرہ میں ہونے والی جنگ بندی اس سمجھوتے کا حصہ ہے جس کی توثیق روسی اور امریکی صدور نے جی 20 کانفرنس کے موقع پر کی تھی۔ شامی مبصر برائے انسانی حقوق کے مطابق جنگ بندی کا آغاز اتوار کی دوپہر سے ہوا اور اس کے بعد سے مذکورہ علاقوں میں نہ تو جھڑپوں کی اطلاعات ہیں اور نہ ہی فضائی حملوں کی۔ روس اُردن کی سرحد کے قریب ان شامی صوبوں میں جنگ بندی پر نظر رکھنے کے لیے اپنی ملٹری پولیس کو وہاں تعینات کرے گا۔ اُدھر ایران نے کہا ہے کہ روس اور امریکا کے درمیان شام کے جنوب مغربی حصے میں جنگ بندی کے معاہدے کا اطلاق پورے ملک پر ہونا چاہیے۔ یہ بات ایرانی وزارت خارجہ کی طرف سے گزشتہ روز کہی گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن کے درمیان 7 جولائی کو ہیمبرگ میں ہونے والی ملاقات کے بعد روس،امریکا اور اُردن کے درمیان شام کے جنوب مغربی صوبوں میں جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کے مطابق اگر اس معاہدے کو شام کے تمام علاقوں میں لاگو کیا جائے تو یہ فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ترجمان کے مطابق جب تک زمینی حقائق کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا کوئی معاہدہ کامیاب نہیں ہو گا۔