ریمنڈ ڈیوس اور دیت کا مسئلہ

162

۔27 جنوری 2011 کو لاہور میں دو نوجوانوں کو گولی مار کر ہلاک کرنے اور ایک تیسرے نوجوان کو کار سے روندنے والے CIA کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں دیت کی بنیاد پراپنی رہائی کے بارے میں جو انکشافات کیے ہیں ان پر دیت کے مسئلے پر بحث چھڑ گئی ہے۔ اس سلسلہ میں میری طرح اور بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دیت کی بنیاد پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی شریعت کے مطابق تھی یا دوسری مصلحتیں در پیش تھیں؟ میری طرح بہت سے لوگ یہ چاہیں گے کہ علمائے کرام اس مسئلے پر اپنی رائے دیں۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ دیت اور قصاص کے بارے میں قرآن پاک میں کیا احکامات ہیں۔ قصاص اور دیت کے بارے میں قران پاک کی دو آیات میں ذکر ہے۔ ایک سورۃ بقرہ میں اور دوسری سورۃ النساء میں۔ سورۃ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ اصول ارشاد فرمایا ہے قتل کا بدلہ قتل۔ اس آیت میں قتل کی تفصیل بیان نہیں کی گئی ہے، لیکن سورۃ النساء میں قتل کی تفصیل بیان کی گئی ہے اور قتل عمد اور قتل خطا میں فرق بیان کیا گیا ہے۔ قتل عمد کی سزا قتل ہے۔ یعنی خون کا بدلہ خون۔ قتل خطا میں البتہ دیت شامل ہے ۔ یہ بات واضح ہے کہ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں جن تین نوجوانوں کا قتل کیا تھا وہ بلا شبہ قتل عمد کے زمرے میں آتا ہے۔ علمائے کرام سے یہ سوال ہے کہ کیا قران پاک کی رو سے اس قتل عمد پر دیت کا اطلاق جائز تھا؟
قتل عمد کے بارے میں سورۃ بقرہ میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ ’’اے ایمان والوجو لوگ نا حق مارے جائیں ان کے بدلے میں تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم ہے‘‘
سورۃ النساء میں کہا گیا ہے کہ ’’ کسی مومن کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی مومن کو جان سے مار ڈالے مگر خطا سے جو شخص کسی مومن کو قتل کر ڈالے تو اس پر ایک ایمان دار غلام کو آزاد کرنا اور مقتول کے قرابت داروں کو خون بہا دینا لازم ہے، مگر جب وہ لوگ معاف کردیں تو پھر اگر مقتول ان لوگوں میں سے جو تمہارے دشمن ہیں اور خود قاتل مومن ہے تو صرف ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہو جن کا تم سے عہد و پیمان ہو چکا ہے تو قتل پر وارثان مقتول کو خون بہا دینا اور ایک بندہ مومن کو آزاد کرنا واجب ہے‘‘
اس آیت کی روشنی میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا ایک غیر مسلم کسی مومن مقتول کے قرابت داروں کو دیت کے تحت خون بہا دے سکتا ہے؟ سوال یہ ہے کیا ریمنڈ ڈیوس کو جس نے قتل عمد کیا ، دیت کے تحت رہائی کا بندوبست کرنے والوں نے دیت کے بارے میں قرآن پاک کے احکامات کی خلاف ورزی نہیں کی؟ امید ہے کہ علمائے کرام اس مسئلہ پر اپنی صائت رائے ظاہر کریں گے۔
اس ضمن میں میرے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ قتل عمد اور قتل خطا ، دونوں صورتوں میں کیا فیصلہ کا اختیار عدالت کو حاصل ہے یا مملکت کو؟ کیا یہ صحیح نہیں کہ قتل خطا میں دیت کی رقم کا تعین اور اس کی لین دین ، عدالت اور ورثاء کے بجائے حکومت کی معرفت ہونی چاہیے۔