کیا کہنا چاہیے تھا اور کیا کہا

136

میاں منیر احمد
جمہوریت اور سیاست لازم و ملزوم ہی سہی، یقینا دونوں کے لیے دائرہ کار اور کوئی طریق کار بھی طے شدہ اور تسلیم شدہ ہے، سازگار کاروباری ماحول بھی ان دونوں کے ساتھ جڑا ہوا ہے، حالات سازگار نہ رہیں تو کاروبار ترقی نہیں کرسکتا اور ملک کی معیشت بیٹھ جاتی ہے، سازشوں اور بے تکی مخالفتوں کا دائرہ پھیلتا اور کاروباری ماحول سکڑتا چلاجائے یہ کسی عام آدمی کی رائے نہیں بلکہ پاکستان کے صنعتی اور تجارتی چیمبرز کے عہدیداروں کی رائے ہے، جن کا خیال ہے کہ ملک میں سازگار ماحول کی اشد ضرورت ہے حکومت کی کاروباری پالیسیاں سیاست دانوں کی پیدا کردہ ہم آہنگی اور کاروباری طبقے کی یکسوئی اور محنت سے اقتصادی و معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں، برآمدات میں اضافہ اور روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔ سابق حکمرانوں نے ان تقاضوں کو در خور اعتنا نہیں سمجھا بجلی کا بحران ہر نئے سورج کے ساتھ شدید تر ہوتا رہا 2013ء کا الیکشن کاروباری طبقے اور عوام کی امیدوں کا پیغامبر بنا کہ کراچی میں امن قائم کیا گیا اور پاک فوجی آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑی تو بیرونی کاروباری طبقہ پاکستان میں آنے جانے لگا، کراچی پاکستان کی معاشی سرگرمیوں کے لیے شہہ رگ ہے۔ ’’را‘‘ کے ایجنٹوں نے شہہ رگ کو لہولہان کردیا تھا، لندن کے ایک اشارے پر مارکیٹوں کو بند اور سڑکوں کو معصوم خون سے رنگین کر دیا جاتا تھا کراچی کی رونقیں بحال ہوگئیں، اسٹاک مارکیٹ تیزی سے آگے بڑھنے لگی بدقسمتی سے سیاست دانوں کے متصادم رویوں اور منفی سرگرمیوں سے کاروباری ماحول کو شدید دھچکا لگا، اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب چکے ہیںگوادر بندرہ گاہ کو ناکام بنانے کے لیے مودی ملکوں ملکوں گیا لیکن اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ملک میں بعض سیاست دانوں کی سرگرمیاں شعوری یا لاشعوری طور پر مودی سرکاری کی آلہ کاری بنی ہوئی ہیں۔
امریکا کی بھارت نوازی ڈھکی چھپی نہیں ہے حالیہ دنوں میں ٹرمپ مودی جپھیاں پاکستان کے ہر فرد کے لیے تشویش کا باعث ہیں عقل وشعور سے دور ٹرمپ اور چالاک مودی کی ملاقاتیں اور جپھیاں کشمیر میں ہلاکتوں اور پاکستانی علاقوں میں فائرنگ کے واقعات میں اضافے کا باعث بن سکتی ہیں ہمارے سیاست دانوں کو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ خطرے کے بادل نظر نہیں آتے یا انہیں پروا نہیں۔ ملک کا کاروباری طبقہ سیاست دانوں سے درخواست کر رہا ہے کہ چارسال کافی ادھیڑ بن کرلی، مہینوں پر محیط اسلام آباد میں کنٹینر دھرنا دے لیا۔ وزیراعظم اور ان کے خاندان پر کافی لعن طعن کرلی، اب ملک کے استحکام کی فکرکریں، عوام کی روزی روٹی کی طرف دھیان دیں، کاروبار کے لیے حالات سازگار بنائیں، اہم اور بڑا سوال باقی ہے ہمارے لیے ہی نہیں ہر اس شخص کے لیے جس کے دل میں وطن کی محبت کا جذبہ موجود ہے۔ فی الحال ہمارا مسئلہ یہ نہیں کہ حکمرانوں نے کرپشن کی ہے یا نہیں۔ یہ مسئلہ ابھی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم یعنی جے آئی ٹی کو حل کرنا ہے اور اس کی رپورٹ کی روشنی میں اس پر عدالت عظمیٰ کو حتمی فیصلہ دینا ہے۔ کرپشن ثابت ہوگئی تو انہیں بھگتنا ہوگا یہ سب کچھ کرنے اور کرانے والے جان لیں کہ اوپر عرشِ بریں پر بیٹھی ہوئی ہستی دیکھ رہی ہے جس کی بادشاہی اصل بادشاہی ہے۔ آپ لوگ تو ایک چیونٹی کی حیثیت بھی نہیں رکھتے یہ مکمل فہرست نہیں ایک عام بحث یہ ہوئی ہے کہ 5جولائی کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر مریم نواز نے عملی سیاست کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے حالاںکہ انہیں ابھی بہت سے دریا عبور کرنے ہیں جن کے بغیر وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح محض اپنے والد کے سیاسی ورثے پر ہی اتراتی رہیں گی اور خود ان کا ووٹ بینک کبھی نہیں بن سکے گا۔ ایسی ہی ایک صورت حال سے ہمسایہ ملک بھارت میں راہول گاندھی بھی دوچار ہیں کہ ماں باپ کی میدان سیاست میں کمائی ان کے حصے میں آئی تو ہے لیکن وہ اس کلیم سے بڑھ کر ہندوستانی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں کیوںکہ انہوں نے عوام میں اپنے آپ کو ان کے حقوق کا چمپئن بن کر نہیں دکھایا ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی اپنی سیاست میں اگر دم خم ہوتا تو ان کا کفن میلا ہونے سے پہلے ہی پیپلز پارٹی کا جنازہ نہ نکلتا! اسی طرح مریم نواز شریف کو بھی اول تو اپنے ابو جان کی اوٹ سے اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کو کھری کھری نہیں سنانی چاہیے تھیں اور اگر ایسا کرلیا ہے تو اس کا اعادہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ جو کچھ انہوں نے کہا ہے اس کی قیمت ان کے والد کو ادا کرنا پڑے گی اگر ان کے والد نے انہیں ایسا کرنے کو کہا ہے تو انہیں بھی اپنی لڑائی اپنے بچوں کے ذریعے نہیں لڑنی چاہیے، وہ کون سا پہلی مرتبہ حکومت سے نکالے جا رہے ہیں اور کون سا آخری بار حکومت میں آرہے ہیں؟ اس کے باوجود… مریم نواز کو ایک کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے پاکستانی قوم کو اس بات پر آمادہ کرلیا ہے کہ وہ کھل کر اس معاملے پر بات کریں کہ پاناما کیس کے فیصلے سے قبل اس بات کا تعین کیا جائے کہ کون ہے جس نے کٹھ پتلیوں کاکھیل رچایا ہوا ہے۔