کیا یہ ممکن ہے؟

147

ممتاز احمد شیخ
عمران خان نے امریکی قاتل اور جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ’’دی کونٹریکٹر‘‘ کے بارے میں مشورہ دیا ہے کہ ہر پاکستانی کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے جس میں امریکی جاسوس اور پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کی شرمناک رہائی کا ایک جذباتی تاثر، داستان گوئی اور جھوٹ کی انتہا درجے کی آمیزش کے ساتھ موجود ہے۔ مجھے یہ کتاب پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ یہ کتاب اہلِ غیرت وعزت کی سوغات رکھنے والے باحمیت لوگوں کے لیے ہے۔ اور عمران خان سے اس بات پر اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ اْس وقت کی سیاسی قیادت نے جس طرح کمزوری دکھائی یقینا وہ ملکی مفادات کے مطابق نہیں تھی اور اسے نرم سے نرم الفاظ میں بے حمیتی ہی کہا جا سکتا ہے کہ کس طرح غیر ملکی جاسوس اس ملک میں دندناتے پھرتے رہے اور انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں تھا مگر انہوں نے اس پر روشنی نہیں ڈالی کہ کیا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی میں پاکستان کے سلامتی کے اداروں اور عدلیہ کا بھی کوئی تعلق رہا ہے اس پر بھی اگر وہ دو لفظ کہہ دیتے تو بات شاید زیادہ مناسب لگتی اور جچتی۔ انہوں نے اس وکیل اور سابق اٹارنی جنرل کا تذکرہ بھی نہیں کیا کہ جب پاکستان بھر سے ریمنڈ ڈیوس اور اس کے آقاؤں کو عدالت میں ضمانت کے لیے پیش ہونے کے لیے کوئی قابلِ ذکر وکیل نہیں مل رہا تھا تو مذکورہ وکیل نے ایک لاکھ ڈالر ریمنڈ ڈیوس کی وکالت کے نام پر کیسے ہڑپ کیے اور معزّز عدالت تو گویا دیت کے معاملات طے پانے کے انتظار ہی میں تھی سو ریمنڈ ڈیوس کو باعزت رہائی دلوا کر اسی شام ملک سے باعزت رخصت کر دیا گیا۔
ریمنڈ ڈیوس نے اپنی کتاب میں سوائے بڑھک مارنے اور پاکستانی قوم کی تذلیل کرنے کے ایسی کوئی نئی بات نہیں لکھی ہے جس سے ہر پاکستانی پہلے ہی سے آگاہ نہ ہو، مگر سوال اس بھاری بھرکم دیت کی رقم کا ہے جو مقتولین کے خاندان کو ادا کی گئی یہ رقم امریکا نے فراہم کی یا کسی پاکستانی ادارے نے دی، یہ ابھی تک سر بستہ راز ہے۔ ریمنڈ ڈیوس نے بہت سے معروف حقائق کی صرف تائید کی ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ مقتولین کے ورثا کو دیّت کا ڈراما رچانے سے دو دن پہلے ہی حکومت نے حفاظتی تحویل میں لے لیا تھا اور انہیں بتا دیا گیا کہ ان کے سامنے دیّت قبول کرنے کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں اور یقینا مقتولین کے لواحقین نے بھی اندازہ کر لیا ہوگا کہ انہیں دیّت قبول کر ہی لینی چاہیے اور زندگی پر آسائش طور پر گزارنے کا سنہری موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے کیوںکہ مرنے والے فہیم اور فیضان بھی ڈکیت اور اسٹریٹ جرائم کی درس گاہ میں پلے بڑھے تھے اور ان کے گھر والوں کے نان نفقے کا دارومدار بھی ان کی چھینا جھپٹی اور جرائم کی آمدنی پر تھی۔ مقتولین لاہور کے کئی تھانوں کے مطلوب اور چھٹے ہوئے بدمعاش تھے جنہیں ہم نے ریمنڈ ڈیوس کی برکت سے ہیرو بنا دیا مگر اس کا مطلب بھی نہیں کہ کسی غیر ملکی کو کسی پاکستانی کو یوں سرِ راہ قتل کرنے کا لائسنس دے دیا جائے۔ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب آنے سے یہ ضرور ہوا ہے کہ ہمارے زخم دوبارہ سے ہرے ہوگئے اور سوچنے سمجھنے والے پاکستانیوں کی پیشانی پر ندامت اور شرمندگی کے قطرے پسینے کی صورت میں دوبارہ نمودار ہونا شروع ہو ئے اور اس کتاب کو پڑھنے والے صاحبان حمیت محبِ وطن پاکستانیوں کے لیے ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے سو فی صد خطرات بھی موجود ہیں۔ مجھے یہ بات انتہائی گمراہ کن اور جھوٹ کا پلندہ لگتی ہے کہ دیّت کی ادائیگی اور ریمنڈ ڈیوس کی عدالت سے رہائی کے وقت جنرل پاشا عدالت میں بذاتِ خود موجود تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ جنرل پاشا نے فوج کے اجتماعی فیصلے کے علی الرغم اپنے طور پر کوئی فیصلہ کر لیا ہو فوج کا کوئی آفیسر انفرادی طور پر اتنا بڑا فیصلہ کرنے کا نہ مجاز ہے نہ ایسا فیصلہ کرنے کا سوچ سکتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے پہلے اس سے بھی سنجیدہ اور بڑے واقعات رونما ہوچکے تھے، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کو دن دیہاڑے یا رات کے کسی پہر ہماری ایجنسیوں کو اعتماد میں لیے بنا قتل کر دیا گیا اور ان کی لاش غائب کر دی گئی، ہم کسی بھی معاملے پر جذباتی ہوسکتے ہیں، ہم سڑک پر سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے ہاتھ میں پکڑ کر ہاوہو کر سکتے ہیں، بسوں اور کاروں کے شیشے توڑنے میں بھی ہمیں مہارت حاصل ہے۔ پارٹی ورکروں کو سڑکوں پر لا کر شہر بھر کے ٹائروں کو آگ لگوانا ہمارے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ جلاؤ گھراؤ، بارود کا طوفان جلانا ہماری قوم کے لیے معمولی کام ہے۔ ہم تو وہ لوگ ہیں جو ہنستے مسکراتے لوگوں کو ان کے دفاتر میں گھس کر فاسفورس پھینک کر زندہ جلا دینے میں ماہر ہیں بارہ مئی جیسے واقعات میں سیکڑوں شہریوں کو مروا دینا ہمارے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا، اس ملک میں ذاتی انا اور حکمرانوں سے ذاتی پرخاش کی تسلّی کے لیے کارگل جیسے معرکے لانے کی مہم جوئی بھی کی جاسکتی ہے۔ جامعہ حفصہ کی سیکٹروں معصوم بچیوں کو فاسفورس کے گولوں سے بھسم کیا جا سکتا ہے اس لحاظ سے تو یہ بہت ہی معمولی واقعہ ہے اس پر اتنی چیخ چیخاڑ کیوں۔ کمزور سیاسی قیادت اور ممالک کو کوئی فیصلے اپنی مرضی سے نہیں کرنے دیتا اور خصوصاً اس وقت جب سیاسی قیادت بھی کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت مسلط کی گئی ہو اور ان کی شہرت پر کرپشن کے گہرے داغ بھی موجود ہوں اور وہ ملک چلانے کے نام پر دنیا بھر سے بھیک مانگتے ہوں ایسی قیادت کو کوئی سخت اور خود مختار فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ عمران خان صاحب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں ہوتے تو وہ کیا کرتے ان کے پاس کیا حل موجود تھا کہ وہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا نہ ہونے دیتے اور سیسہ پگھلاتی دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے جب یہ سارے معاملات ہو رہے تھے تو اس وقت عمران خان کی غیرت و حمیت کہاں سوئی ہوئی تھی کہ انہوں نے زرداری دور میں ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے خلاف نہ کبھی دھرنا دیا نہ کبھی کوئی مظاہرہ کیا، نہ کسی قسم کی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد یہ بھی سیکھ لینا چاہیے کہ دنیائے موجود میں فیصلے قوت اور برتری کی بنیاد پر ہوتے ہیں جذبات سے نہیں۔
کالم نگار صحافی ہارون رشید نے لکھا کہ اپنے زمانے کے صدر زرداری صاحب اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکا کو ڈرون حملوں کی اجازت دیے رکھی اور جعلی احتجاج بھی کرتے رہے اور خود اس ملک کے محنت سے کمائے ہوئے سرمائے سے اپنے دورِ اقتدار کے پانچ سال میں 1200ارب کی کرپشن سے ہاتھ رنگے مگر وہ ایک زیرک آدمی ہیں انہوں نے اس رقم کی ہوا بھی نہیں لگنے دی کہ وہ کہاں اور کیسے بھیجی گئی۔ اگر یہ سچ ہے تو اس محترم صحافی کو اس کی تفصیلات قوم اور سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنی چاہییں اور یہ بھی بتانا چاہیے کہ جنرل کیانی کے پوچھنے پر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کی تمام تر ذمے داری صدر زرداری نے کیوں قبول کی اس کے بدلے انہوں نے امریکا سے ملک کے لیے کیا سہولتیں یا امداد حاصل کی۔ یہ ایسے جرائم ہیں کہ جس کی فوری انکوائری ہونی چاہیے تھی۔ اصل قومی جرائم تو یہی تھے کہ زرداری دور میں بلیک واٹر کے کارندے دندناتے رہے دبئی اور امریکا سے بلیک واٹر کے کارندوں کو ویزے جاری کیے جاتے رہے اور پورے پورے جہاز ملک کے ائر پورٹس پر لینڈ کرتے رہے اور نتیجتاً لوگ قتل ہوتے رہے، ڈرون حملوں میں پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے رہے، کیا اس پر کو ئی کمیشن نہیں بننا چاہیے تھا اور قومی مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں ملنی چاہیے تھی؟ اصل میں ملکی سلامتی پر ہونے والے ایسے حملوں پر جے آئی ٹی کی ویسی ہی تشکیل عمل میں آنی چاہیے تھی جیسی جے آئی ٹی آج کل نواز شریف اور ان کے خاندان کو رگڑا دے رہی ہے تاکہ پتا تو چلتا کہ ان قومی جرائم میں کون کون ملوث رہا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ محترم اور مجاز ادارے پاکستان کے بہترین مفاد میں ملک کی ستر سالہ تاریخ میں ہونے والی کرپشن، المیوں، سانحوں پر ایک ایسی گرینڈ جے آئی ٹی بنائیں جو حقائق سامنے لا سکے اور زندہ رہ جانے والے مجرموں کو کڑی سزا کا مستوجب ٹھیرائیں اور مرنے والوں کو بعد از مرگ سزا کا حق دار جانا جائے تاکہ آنے والی نسلیں ایک بہتر پاکستان میں رہ سکیں۔ کیا یہ ممکن ہے؟؟