پی ایس 114 کے الیکشن

196

حبیب الرحمن
صوبائی اسمبلی پی ایس 114 کا الیکشن اپنے اختتام کو پہنچا اور اس حلقہ میں کامیابی پی پی کے ہاتھ آئی۔ یہ کامیابی کوئی غیر متوقع نہیں تھی خاص طور سے اس صورت میں جب ایم کیو ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی تھی اور ایم کیو ایم کے بانی کی جانب سے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا جا چکا تھا۔ ایک اور بات جس پر لوگوں کی توجہ کم ہے وہ یہ ہے کہ2013 میں ہونے والے الیکشن یہاں سے ایم کیو ایم کامیاب ہی نہیں ہوئی تھی اور اس نشست کو مسلم لیگ ن کے عرفان مروت نے جیتا تھا۔
اس الیکشن میں کئی وہ بھی باتیں ہوئیں جو آج سے پہلے کبھی ہوئی نہیں تھیں جن میں قابل ذکر بات یہ تھی ایم کیو ایم (پاکستان) کا ساتھ ایسی ایسی شخصیات، گروپوں اور پارٹیوں نے بھی دیا جن سے ایم کیو ایم کا کوئی نظریاتی ربط ہی نہیں تھا اور نہ ہی ایم کیو ایم کی پوری سیاسی زندگی میں ان کا ساتھ دیا۔ ایسے افراد، گروہ اور پارٹیوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جن میں قابل ذکر ذوالفقار مرزا، پلیجو، جیسی شخصیات کی حمایت، لیاری گینگ وار کی حمایت، جے یو آئی اور ایم کیو ایم (حقیقی) کا ساتھ دینا اور درپردہ مسلم لیگ ن کا ایم کیو ایم کے امید وار کا ساتھ دینا جیسی انہونیاں ہونا شامل ہیں۔ جس پارٹی (ایم کیو ایم) کے پاس یہ سیٹ پہلے ہی نہیں تھی اس پارٹی کا اتنا پر امید ہونا کہ وہ اس حلقے سے جیت جائے گی، انہی سب سہاروں کی بنیاد پر تھا۔ وہ مسلم ن جس نے اس حلقے سے 2013 کے جنرل الیکشن میں37 ہزار ووٹ سے بھی زیادہ حاصل کیے تھے۔ جب کہ وفاق میں اس کی حکومت اور سندھ میں اس نے اپنا گورنر بٹھایا ہوا ہے جو ایک دن کے لیے بھی بیٹھا نظر نہیں آیا بلکہ نہایت متحرک اور چاق و چوبند ہو کر اپنے فرائض منصبی ادا کرتا ہوا نظر آیا۔ اس سب کے باوجود مسلم لیگ کے 37 ہزار ووٹ کا صرف 5 ہزار ووٹ تک محدود ہوجانا بہت معنی رکھتا ہے اور یہی وہ پہلو ہے جس کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم لیگ ن کے حامیوں کو اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ مسلم لیگ ن کے بجائے ایم کیو ایم کی حمایت کریں۔ اس بات کو یوں بھی تقویت ملتی ہے کہ کراچی کے میئر نے الیکشن سے کچھ دن قبل ہی واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ 2018 کے الیکشن مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر لڑیں گے، یہ اعلان کیے جانے کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ آپ پی ایس 114 میں ہمارا ساتھ دیں اور یہ ساتھ اس شکل میں سامنے آیا کہ مسلم لیک کے 37 ہزار ووٹ صرف 5 ہزار میں تبدیل ہو کر رہ گئے۔
ان سارے براہین کو سامنے رکھ کر یہ بات قطعیت سے کہی جاسکتی ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹر نے لندن والوں کے بائیکاٹ کی اپیل پر عمل کیا۔ ایم کیو ایم (پاکستان) کو جو بھی ووٹ ملے اس میں سے کم از کم 12 ہزار ووٹ مسلم لیگ ن کے تھے جن کو ایک خاص منصوبہ بندی کے ساتھ ایم کیو ایم (پاکستان) کو دلایا گیا۔ کوشش تو پوری کی پوری یہی تھی کہ 37 ہزار کے 37 ہزار ووٹ ایم کیو ایم کے کھاتے میں چلے جائیں لیکن ان میں سے کم از کم 20 ہزار ووٹ پی پی پی کے حق میں چلے گئے۔ اس بات کے تجزیہ کے لیے دو باتیں دلیل کے طور پر پیش کی جاسکتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ایم کیو ایم کو ایسے بہت سارے حلقوں سے ووٹ ملے جہاں یہ اپنا الیکشن کیمپ بھی نہیں لگا سکتے تھے بلکہ ایسے بیش تر حلقوں میں ان کے پاس اتنے افراد بھی میسر نہیں ہوتے تھے جو الیکشن ایجنٹ بھی بن سکیں۔ اسی طرح وہ پی پی پی جو 2013 کے الیکشن میں صرف 3 ہزار ووٹ حاصل کر سکی تھی اس الیکشن میں 23 ہزار سے زائد ووٹ لینے میں کامیاب ہو گئی۔ ہے نہ غور طلب بات؟
مسلم لیگ کے 37 ہزار سے زائد ووٹ جس بری طرح تقسیم کا شکار ہوئے وہ تو اپنی جگہ ایک بہت بڑا حادثہ ہی ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ 2013 کے الیکشن میں تحریک انصاف جس نے 14 ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے وہ محض 5 ہزار ووٹ ہی حاصل کر سکی۔ اس کے باقی 9 ہزار ووٹ کہاں گئے؟ ایم کیو ایم (لندن) کے علاوہ تو کسی نے بھی الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کیا تھا پھر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے ووٹوں کا بالکل ہی پر لگا کر اڑجانا عقل و سمجھ سے ماورا ہے اور اس کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے کہ کسی بھی جمہوری عمل میں غیر جمہوری طرز عمل اور غیر جمہوری اداروں کی مداخلت حالات کو کسی بھی خطر ناک موڑ کی جانب لیجا سکتی ہے۔ اس سے قبل کہ میں اس نقطے کی مزید وضاحت کروں 2013 میں پڑنے والے ووٹوں اور 2017 کے ضمنی الیکشن میں ڈالے جانے والے ووٹوں کو قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تاکہ اس بات کا اندازہ ہو سکے کہ حالیہ ضمنی الیکشن کا پلان کیا تھا اور کیوں تھا اور وہ قدرت نے کس طرح ناکام بنایا۔
20013 کے جنرل الیکشن میں مسلم لیگ ن نے اس نشست پر 38 ہزار کے قریب ووٹ حاصل کیے تھے، دوسرے نمبر پر ایم کیو ایم تھی جس نے 30 ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ لیے تھے۔ تیسرے نمبر کی جماعت اس وقت پی ٹی آئی تھی جس کے ووٹوں کی تعداد 14 ہزار کے قریب تھی اور چوتھے نمبر پر پی پی تھی جس کے ووٹ صرف 3800 تھے۔ اس طرح دیگر پارٹیوں کے دیگر ووٹ ملاکر کل پڑنے والے ووٹ 90 ہزار کے قریب تھے۔ صورت حال ضمنی الیکشن میں یکسر تبدیل ہوگئی اور وہ مسلم لیگ ن جس نے 38 ہزار ووٹ لے کر یہ نشست حاصل کی تھی وہ صرف 5 ہزار ووٹ لے سکی؟ ہے نہ انہونی جب کہ وہی ایک پارٹی ایسی ہے جو وفاق کے فنڈ سے اس شہر میں بڑے بڑے میگا پروجیکٹ چلا رہی ہے پھر بھی اس کے 32 ہزار ووٹ پر لگا کر اڑ گئے۔ دوسرے نمبر کی پارٹی پی ٹی آئی تھی جس نے 14 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے وہ اس الیکشن میں صرف 5 ہزار ووٹ لے سکی یہ بھی ایک انہونی ہوئی جب کہ وہ پارٹی جس کا 2013 کے الیکشن میں ووٹ بینک محض 3500 تھا وہ سب کو چیرتی پھاڑتی نمبر ون پر آگئی اور اس نے اپنے ووٹ بینک میں 20 ہزار ووٹ کا اضافہ کیا۔ 2017 کے ضمنی الیکشن میں کل ووٹ 53 ہزار ووٹ کے قریب پڑے جو 2018 کے الیکشن کے ووٹوں سے 37 ہزار ووٹوں سے کم تھے اور یہی وہ ووٹ ہیں جو ایم کیو ایم (لندن)کے بائیکاٹ کی وجہ سے کم ہوئے اس لیے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ایم کیو ایم (پاکستان) کو کہیں سے بھی ایم کیو ایم کے ووٹ نہیں پڑے اور اگر پڑے بھی ہیں تو وہ دو چار ہزار سے زیادہ نہیں۔
یہ کس کی انا تھی کہ ایم کیو ایم کو ہرایا جائے اس پر سے اگر پردہ اٹھا تو چالیس سال سے قبل کبھی نہیں اٹھ سکے گا اس لیے کہ پاکستان میں جب بھی کسی سچ بات پر سے پردہ سرک سکا ہے وہ اس مدت سے کم عرصے میں کبھی نہیں سرک سکا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو حقیقت ہوتی ہے وہ حقیقت ہی ہوتی ہے خواہ اس کو جھوٹ کے ہزاروں پردوں میں ہی ملفوف کرکے کیوں نہ پیش کیا جائے لہٰذا تمام ارباب عقل و دانش سے نہایت مؤدبانہ گزارش ہے کہ جمہورت کو یا تو خیر آباد کہہ دیا جائے یا پھر جمہوریت کو غیر جمہوری طرز عمل یا غیر جمہوری قوتوں کے ذریعے چلانے کی کوشش نہ کی جائے ورنہ اس ملک کو تباہی سے کوئی بھی نہیں بچا سکے گا۔