انتخابات میں ٹرمپ کے ساتھ روسی تعاون کا مزید انکشاف

197

نیویارک (انٹرنیشنل ڈیسک) جنوری میں امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے والے ڈونلڈ ٹرمپ پر پہلے دن سے روس نوازی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی غیریقینی فتح کے بعد سے یہ الزامات سامنے آ رہے ہیں کہ ان انتخابات میں روس نے مداخلت اور اثرانداز ہونے کی کوشش کی تھی۔اگرچہ ٹرمپ اور روس ان الزامات کی تردید کرتے ہیں،تاہم اس حوالے سے امریکا میں اعلیٰ سطح کی تحقیقات جاری ہیں۔امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق گزشتہ برس جب موجودہ امریکی صدر ٹرمپ ابھی اپنی انتخابی مہم چلا رہے تھے،تو ایک روسی وکیل نے ٹرمپ کے بیٹے سے حریف صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن سے متعلق معلومات کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا۔ امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ نتالیا ویسلنتسکایا نامی روسی خاتون وکیل نے ٹرمپ جونیئر سے ملاقات میں یہ وعدہ کیا تھا کہ انہیں ٹرمپ سینئر کی حریف ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار اور سابق خاتون اول ہیلری کلنٹن کے بارے میں ایسی خفیہ معلومات فراہم کی جائیں گی،جن کو استعمال کر کے اس حریف خاتون سیاستدان کو سیاسی طور پر خاصا نقصان پہنچایا جا سکتا تھا۔ مختلف نیوز ایجنسیوں کے مطابق نیو یارک ٹائمز نے اپنی اس رپورٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہسلام دعا اور حال چال دریافت کرنے کے بعد اس خاتون نے کہا تھا کہ اس کے پاس ایسی معلومات موجود ہیں کہ روس سے تعلق رکھنے والی کئی شخصیات مبینہ طور پر ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی اور ہیلری کلنٹن کی حمایت کرتے ہوئے مالی وسائل مہیا کر رہی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز نے ٹرمپ جونیئر کے اسی بیان کے حوالے سے مزید لکھا کہ اس خاتون وکیل کے بیانات غیر واضح،مبہم اور قدرے لایعنی تھے۔ اس بارے میں اس نے نہ تو کوئی قابل اعتماد معلومات مہیا کی تھیں اور نہ ہی ان کی پیشکش کی تھی۔ اس لیے جلد ہی واضح ہو گیا تھا کہ اس خاتون کے پاس کوئی بامقصد معلومات تھیں ہی نہیں۔ اس ملاقات کے بارے میں اس اخبار نے مزید لکھا ہے کہ ان معلومات کی اس وقت وائٹ ہاؤس کے 3 مشیروں نے بھی تصدیق کر دی ہے۔اسی حوالے سے 3 روز قبل نیویارک ٹائمز نے اپنی پہلی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے ٹرمپ کی بہ طور صدارتی امیدوار نامزدگی کے کچھ ہی دیر بعد ٹرمپ کے بڑے بیٹے ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر،داماد جیراڈ کشنر اور انتخابی مہم کے نگران پال مینافورٹ نے ایک روسی وکیل سے ملاقات کی تھی،جو بہ ظاہر ٹرمپ کے اہم ساتھیوں کی ایک روسی سے ساتھ اولین ملاقات تھی۔نیویارک ٹائمز میں ہفتے کے روز شائع ہونے والی اس خبر کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر اور جیراڈ کشنر کے نمایندوں نے خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو تصدیق کی ہے کہ جون 2016ء میں ٹرمپ ٹاور میں ان تینوں کی ملاقات ایک روسی وکیل نتالیا ویسلنتسکایا سے ہوئی تھی۔ڈونلڈ ٹرمپ جونیئر نے اس ملاقات کو ایک ’مختصر تعارفی ملاقات‘ قرار دیا،تاہم ٹرمپ جونیئر کا کہنا تھا کہ ’یہ نہ تو انتخابی مہم سے متعلق ملاقات تھی اور نہ ہی اس پہلے سے ہوئی کسی ملاقات کی کڑی‘۔ذرائع ابلاغ میں ابھی یہ خبر گرم ہی تھی کہ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد وطن واپس لوٹنے والے امریکی صدر کے ایک بیان نے جلتی پر تیل کا کام کر دیا ہے۔ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ روس کے ساتھ تعمیری انداز میں کام کرنا وقت کا تقاضا ہے۔امریکی صدر نے یہ بات اتوار کے روز اپنے ٹرئٹس میں کہی۔تاہم ان ٹوئٹس میں صدر ٹرمپ نے واضح کیا کہ ملاقات میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے اپنی حکومت کی جانب سے امریکی صدارتی انتخابات میں مداخلت کے مبینہ الزامات کو تسلیم نہیں کیا اور اِس کی سخت تردید بھی کی۔ٹرمپ نے مزید لکھا کہ انہوں نے کم از کم دو مرتبہ صدر پیوٹن سے اس حوالے سے گفتگو کی اور ہر مرتبہ روسی صدر نے انکار کیا۔اسی ملاقات میں روسی اور امریکی صدور نے سائبر سیکورٹی یونٹ تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا۔ٹرمپ نے اس حوالے سے کہا کہ اس یونٹ کے قیام سے مستقبل میں انتخابات کو ہیکرز سے بچایا جا سکے گا۔اسی دوران امریکا میں خود کئی ریبپلکن سیاستدانوں نے بھی صدر ٹرمپ کے روسی امریکی سائبر سیکورٹی یونٹ سے متعلق ارادوں پر یہ کہتے ہوئے تنقید کی ہے کہ گزشتہ برس کے امریکی صدارتی الیکشن میں مبینہ روسی مداخلت کے بعد ماسکو پر ایسے کسی اشتراک عمل کے لیے دراصل اعتماد کیا ہی نہیں جا سکتا۔ادھر روس کے صدر نے امکان ظاہر کیا ہے کہ امریکا کے ساتھ تعاون میں اضافہ ممکن ہے۔ پیوٹن نے کہا کہ امریکی صدر ٹیلی وژن پر جو دکھائی دیتے ہیں،وہ حقیقت میں ایسے محسوس نہیں ہوتے۔ پیوٹن کے مطابق وہ انتہائی مختلف شخصیت کے حامل ہیں اور اس باعث امریکا کے ساتھ تعاون بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہیمبرگ سے اتوار کے روز روانہ ہوتے وقت ولادیمیر پیوٹن نے رپورٹرز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ کی سوجھ بوجھ غیرمعمولی ہے اور وہ سوالات کا فوری جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ روسی صدر نے ٹرمپ کے ساتھ ذاتی تعلقات کے استوار ہونے کی بات بھی کی۔ پیوٹن نے یہ بھی کہا کہ اب امریکا کے ساتھ تعاون اور رابطہ کاری میں اضافہ ممکن ہے اور یہ دونوں ملکوں کی ضرورت بھی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں ماسکو اور واشنگٹن کے تعلقات میں انتہائی سردمہری پیدا ہو گئی تھی۔اس سردمہری کا سرد جنگ کے دور سے تقابل کیا جانے لگا تھا۔