جے آئی ٹی نے شریف خاندان کو مجرم قرار دیدیا‘ نیب کے تحت کارروائی کی سفارش

192

اسلام آباد (نمائندہ جسارت) پاناما لیکس کے معاملے کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی نے شریف خاندان کو مجرم قرار دے کرنیب کے تحت کارروائی کی سفارش کردی ہے۔مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنی حتمی رپورٹ پیر کو عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف اور اْن کے بچوں کا رہن سہن معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتا‘ اس میں بہت فرق ہے۔اس ضمن میں وزیراعظم اور ان کے بچوں کو بلایا گیا جو تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔جے آئی ٹی نے اپنی حتمی رپورٹ میں کہا ہے کہ مدعا علیہان کی برطانوی کمپنیاں شدید نقصان میں ہونے کے باوجود بھاری رقم کی ترسیل میں ملوث تھیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس لیے استعمال ہو رہی تھیں تاکہ ایسا محسوس ہو کہ ان برطانوی کمپنیوں کے کاروبار سے حاصل ہونے والی رقم کی مدد سے برطانیہ میں مہنگی جائدادیں خریدی گئی ہیں۔ایسا کرنے کا مقصدآنکھوں میں دھول جھونکنا تھا۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ مدعا علیہان تحقیقاتی ٹیم کے سامنے رقم کی ترسیل کے ذرائع نہیں بتا سکے۔بھاری رقم کو قرض یا تحائف کی صورت میں دینے سے متعلق بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں۔نوازشریف اور حسین نواز فنڈز بطورتحفہ اور قرض وصول کرتے رہے ، جس کی وجوہات سے مطمئن نہیں کیا جاسکا۔حتمی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مریم نواز ہی نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی ٹرسٹی نہیں بلکہ مالکہ ہیں ، دوران تحقیقات شریف خاندان کی مزید 3آف شور کمپنیوں الاناسروسز‘ لینکن ایس اے اور ہلٹن انٹرنیشنل سروسز کا انکشاف ہوا جس میں سے ایک کمپنی نواز شریف کے نام پر ہے۔ گلف اسٹیل مل کی فروخت کا ریکارڈہی نہیں ملا ، متحدہ عرب امارات نے 12ملین درہم کی کوئی ٹرانزیکشن نہ ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ حتمی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نوازشریف نے اہلیہ،بیٹوں اوربیٹی کے نام پرشیئر رکھے، اس وقت یہ لوگ مالی طور پر خود مختار نہیں تھے، نوازشریف کا مقصد خاندانی کاروبارپر کنٹرول رکھتے ہوئے بھی کنٹرول ظاہرنہ کرناتھا۔جے آئی ٹی کے مطابق شریف فیملی کے اثاثوں میں بڑااضافہ 2007ء ،2008ء میں نوازشریف کی سیاست میں واپسی پرہوا۔ شریف خاندان کے برطانیہ،دبئی میں اثاثوں سے88کروڑ روپے تحفوں کے نام پرمنتقل کیے گئے، حسین نوازاورہل میٹل نے نوازشریف کے اکاونٹس میں تحفوں کے نام پربڑی رقم منتقل کی، رقم کی اس منتقلی سے بیرونی ترسیلات اور تحفوں پر ٹیکس کی چھوٹ کا فائدہ اٹھایا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جواب گزاران تحائف کی بنیادبننے والے ذرائع آمدن ثابت کرنے میں ناکام رہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شریف خاندان نے عدالت میں جعلی دستاویزات جمع کرائیں، جن پر حسین نواز‘ مریم نوازاور کیپٹن صفدر کے دستخط ہیں،ایسا کرنا بھی جرم ہے۔ یہ جعلی دستاویزات حقائق کو توڑنے مروڑنے کے لیے ہیں، حسن نواز نے بھی عدالت عظمیٰ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی اہم اضافی ثبوت ریکارڈ پر لائی ہے، حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس سے متعلق اضافی شواہد میں سعیداحمد کا اہم کردار سامنے آیا، حاصل کردہ اضافی شواہد اور گواہوں کے مطابق سعید احمد کا اہم کردار ہے۔جے آئی ٹی نے سفارش کی ہے کہ حاصل کردہ ثبوتوں کی بنیاد پر بند کیے گئے 3 کیس ری اوپن کیے جائیں۔تینوں کیس دوبارہ تفتیش اور ٹرائل کے لیے موزوں ہیں۔بینچ ملزمان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کا حکم دے سکتی ہے، ایسا ماضی میں نیب ریفرنس میں شناخت کیے گئے ملزمان کے خلاف کیا جاسکتا ہے، عدالت عظمیٰ اگر سمجھے تو اضافی شواہد پر کوئی اور مناسب حکم بھی دے سکتی ہے۔ جے آئی ٹی نے مزید سفارش کی ہے کہ ایف آئی اے میں درج مقدمات میں جاوید کیانی کا نام ملزمان کی فہرست میں ہونا چاہیے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کرپشن اور بدعنوانی کا یہ معاملہ نیب آرڈیننس سیکشن9 اے وی کے زمرے میں آتا ہے لہٰذا جے آئی ٹی مجبور ہے کہ معاملے کو نیب آرڈیننس کے تحت منتقل کردے۔2 بڑے ڈبوں میں بند دستاویزات جن پر ’’ایوڈینس‘‘ یعنی شواہد یا ثبوت درج تھا، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا اپنے ہمراہ گاڑیوں میں لائے تھے، جنہیں عدالتی حکام کے حوالے کر دیا گیا۔وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر اور ’جے آئی ٹی‘ کے سربراہ نے 3رکنی بینچ سے استدعا کی کہ جو رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی ہے اْس کی جلد نمبر 10 عام نہ کی جائے، جس پر عدالت نے اسے جاری نہ کرنے کا حکم دیا۔مقدمے کی سماعت 17 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے3 رکنی بینچ نے اپنے مختصر حکم نامے میں کہا ہے کہ فریقین مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ کی نقل عدالت عظمیٰ رجسٹرار کے دفتر سے حاصل کر سکتے ہیں اور آئندہ پیشی پر اس سے متعلق سماعت ہو گی۔عدالت کا کہنا تھا کہ آئندہ مقدمے کی سماعت کے دوران وہ دلائل دیے جائیں جن کے بارے میں اس سے قبل بحث نہیں ہوئی ہے۔بعد ازاں پاناما بینچ نے حکومت کو ہدایت کی کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے اراکین اور اْن کے اہل خانہ کو مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے اور اْن سے متعلق کوئی بھی انتظامی فیصلہ عدالت کے علم میں لائے بغیر نہ کیا جائے۔علاوہ ازیں پیر کو نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کا کہنا تھاکہ سچ تلاش کرنے میں کامیاب ہوگئے ، جے آئی ٹی ارکان کی صلاحیتوں کے بغیر ہدف کا حصول ناممکن تھا ۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کا سربراہ نامزد ہونا میرے لیے باعث فخر ہے ۔ اعتماد کرنے اور جے آئی ٹی کا سربراہ بنانے پر عدالت عظمیٰ کا شکرگزار ہوں۔