خلیج بنگال میں سہ فریقی جنگی مشقوں کا آغاز

205

نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکا کے ایک جنگی طیارہ بردار بحری بیڑے نے بھارت کے ساتھ مل کر دونوں ملکوں کی تاریخ کی آج تک سب سے بڑی بحری جنگی مشقیں شروع کر دی ہیں۔ان سمندری جنگی مشقوں میں شامل تیسرا ملک جاپان ہے۔ نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق یہ 3 ملکی بحری جنگی مشقیں پیر کے روز سے شروع ہوئی ہیں اور ان کا مقصد واشنگٹن،ٹوکیو اور نئی دہلی کی یہ سوچ ہے کہ انہیں ایشیا بحرالکاہل کے علاقے میں پانے جانے والے خطرات کا مل کر مقابلہ کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔رائٹرز نے لکھا ہے کہ بھارت کے ساحلی علاقے کے قریب کی جانے والی ان جنگی مشقوں کو ’مالابار‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ واشنگٹن اور نئی دہلی کے بحری دستوں کی طرف سے آج تک مل کر کی جانے والی سب سے بڑی جنگی مشقیں ہیں۔واشنگٹن اور نئی دہلی نے ان مشترکہ بحری مشقوں کا آغاز 25 سال قبل 1992ء میں کیا تھااور اس عمل میں بعد میں جاپان کو بھی شامل کر لیا گیا تھا۔امریکی مسلح افواج کی بحرالکاہل کے خطے کے لیے اعلیٰ کمان کی طرف سے پیر کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مالابار 2017ء ان فوجی مشقوں کے سلسلے کی تازہ ترین کڑی ہے،جن کی اہمیت اور پیچیدگی میں گزشتہ کئی برسوں کے دوران واضح اضافہ ہوا ہے۔ان مشقوں کا مقصد ’انڈو ایشیا پیسیفک‘ کے سمندری علاقے میں سلامتی کے مشترکہ لیکن بڑے متنوع خطرات کے مقابلے کی اہلیت کو بڑھانا ہے۔ عسکری ذرائع کے مطابق ان سہ فریقی بحری مشقوں میں امریکی طیارہ بردار بحری بیڑے ’یو ایس ایس نیمٹز‘ اور بھارت کے واحد جنگی طیارہ بردار بیڑے ’وِکرم ادتیا‘ کے ساتھ ساتھ جاپانی نیوی کا سب سے بڑا جنگی بحری جہاز بھی حصہ لے رہا ہے۔جاپانی بحریہ کے سب سے بڑے جنگی جہاز کا نام ’ایزومو‘ ہے،جو ایک ہیلی کاپٹر بردار بحری بیڑا ہے اور رائٹرز کے مطابق ان مشترکہ بحری مشقوں کا مقصد ایشیا بحرالکاہل کے سمندری علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف توازن کو یقینی بنانا ہے۔ رائٹرز نے مزید لکھا ہے کہ امریکا،بھارت اور جاپان تینوں ممالک کو اس بارے میں شدید تشویش ہے کہ چین مسلسل اونچے ہوتے جا رہے لہجے کے ساتھ بحیرہ جنوبی چین کے پورے کے پورے علاقے پر اپنے دعوے جتا رہا ہے اور ساتھ ہی اس پورے سمندری علاقے میں اپنی فوجی موجودگی میں بھی اضافہ کرتا جا رہا ہے۔اس سے قبل چینی آبدوزیں حال ہی میں جنوبی ایشیائی ملک سری لنکا کی بندرگاہوں میں پہنچ گئی تھیں اور اس جزیرہ ریاست کے جنوبی بھارتی ساحلی علاقے کے بہت ہی قریب ہونے کی وجہ سے بھارت اس سمندری خطے کو تقریباً ’اپنے گھر کا پچھلا حصہ‘ سمجھتا ہے۔ایسے میں پیر کو شروع ہونے والی امریکی،بھارتی اور جاپانی بحری مشقیں اس وجہ سے بھی اہم ہیں کہ ہمالیہ کے دو حریف ہمسایہ ملکوں کے طور پر چین اور بھارت کے فوجی ان دونوں ممالک کے مابین متنازع سرحدی علاقے میں گزشتہ کئی دنوں سے تقریباً ایک دوسرے کے آمنے سامنے آ چکے ہیں۔ سرد جنگ کے دور میں امریکا اور بھارت عشروں تک ایک دوسرے کے مخالف رہے تھے، تاہم گزشتہ چند برسوں سے نئی دہلی اور واشنگٹن نہ صرف ایک دوسرے کے بہت قریب آ چکے ہیں، بلکہ دونوں ایک دوسرے کے اہم دفاعی پارٹنر بھی بن چکے ہیں۔چین کی طرف سے ماضی میں ایسی تمام مشترکہ بھارتی امریکی بحری مشقوں کو خطے میں عدم استحکام کا باعث قرار دیا جاتا رہا ہے۔