جے آئی ٹی رپورٹ، کھیل ختم نہیں ہوا

110

آخر کار مشترکہ تحقیقاتی ٹیم، جے آئی ٹی نے محنت شاقہ کے بعد اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ کے سامنے پیش کردی ، رپورٹ طویل ہے لیکن اس کا لب لباب یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اپنے اثاثے چھپائے اور کئی معالات میں جھوٹ بولا ۔ چنانچہ صادق اور امین نہیں رہے ۔ یہی بات واضح طور پر عدالت عظمیٰ کے پانچ ججوں میں سے دو جج اپنے فیصلے میں کہہ چکے ہیں کہ نواز شریف نا اہل ہو گئے ۔ اس کے باوجود عدالت نے جے آئی ٹی بنا کر حکمرانوں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کیا ۔ لیکن ہوا یہ کہ حکمران ٹولا جے آئی ٹی ہی کے پیچھے پڑ گیا اور اسے متنازع بنانے کی بھر پور کوشش کی جب کہ سب کومعلوم ہے کہ جے آئی ٹی اور اس کے ارکان کا انتخاب عدالت عظمیٰ نے کیا تھا ۔ اس طرح وفاقی وزراء نے عدالت پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ۔ یہی نہیں ان وزراء نے آئی ایس آئی پر رکھ کر فوج کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ بار بار امپائر کی انگلی اُٹھنے کا اشارہ بھی فوج کی طرف ہے ۔ عمران خان نے اپنے دھرنے کے دوران میں فوج کو امپائر قرار دے کر اس کی انگلی اُٹھنے کا دعویٰ کیا تھا جو نہیں اُٹھی ۔ نواز شریف کے مزاحمتی ٹولے نے گزشتہ پیر کو جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ امپائر کی اُنگلی اٹھی تو وہ پاکستان کے خلاف ہو گی ۔ کیسی مضحکہ خیز سوچ ہے کہ نواز شریف کے درباری نواز شریف ہی کو پاکستان سمجھ بیٹھے ہیں ۔ یہ تک کہا گیا کہ نوز شریف کی حکومت نہ رہی تو پاکستان سے سیاست ختم ہو جائے گی ۔ کبھی جنرل ایوب خان کو طنزاً لائلپور(فیصل آباد) کا گھنٹہ گھر کہا جاتا تھا کہ جدھر سے دیکھو وہی نظر آتا ہے ، اب پاکستان کی سیاست میں ایک نیا گھنٹہ گھر تعمیر ہو گیا ہے جن کا وجود پاکستان کی بقا و سلامتی ، سیاست اور جمہوریت کے لیے لازمی ہے ۔ دنیا میں کہیں بھی قوموں اور ملکوں کا انحصار کسی ایک فرد پر نہیں ہوتا ۔ نواز شریف صاحب جنرل پرویز مشرف کو تحریری معافی نامہ دے کر دس سال کے لیے ملک بدر ہو گئے تھے تو کیا پاکستان قائم نہیں رہا تھا؟ اور سیاست جیسی کیسی بھی تھی چل رہی تھی ۔ کسی بھی شعبے میں کوئی شخص ناگزیر نہیں ہوتا۔ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں اور قافلہ آگے بڑھتا رہتا ہے ۔ پرویز مشرف بھی اپنے آپ کو پاکستان کے لیے ناگزیر قرار دیتے تھے اور ان کا دعویٰ تھا کہ سب سے اچھی جمہوریت تو انہوں نے دی ہے ۔وہ تو خیر ایک آمر تھے جو آئین اور جمہوریت کو نہیں اپنی وردی کو اپنی کھال کہتے تھے اور یہ کھال ایک دن اُتر گئی ۔آصف علی زرداری بھی کرپشن کے سنگین الزامات کے باوجود 5 سال حکومت کر گئے ۔ اب نواز شریف نے اقتدار میں ساڑھے چار سال گزار دیے ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے رہنما تہ خاک جا سوئے لیکن ان کے ملک چلتے رہے ، آگے بڑھتے رہے۔ ایک دن جانا تو سب کو ہے ۔ کون کس طرح گیا ، یہ دیکھنے والی بات ہے ۔ کیا تین بار وزیر اعظم بننے والا نا اہل قرار دیے جانے پر جائے گا یا احترام سے رخصت کیا جائے گا؟ وزیر اعظم کے مزاحمت کاروں نے تو جے آئی ٹی کی رپورٹ کو’’ردی‘‘ قرار دے دیا اور وزیر اعظم و کو استعفا نہ دینے کا مشورہ دیا ہے ۔ ان سے اسی بات کی توقع تھی جنہوں نے رپورٹ پیش ہونے سے پہلے ہی اسے مسترد کر دیا تھا۔ انہیں معلوم ہو گا کہ رپورٹ میں کیا آنے والا ہے اسی لیے چور مچائے شور کی کہاوت پر عمل کیا۔انہوں نے اس رپورٹ کو بھی عمران نامہ قرار دے دیا ہے ۔ لیکن کیا جے آئی ٹی عمران خان نے تشکیل دی تھی؟ حکمرانوں نے تو جے آئی ٹی رپورٹ مسترد کر دی ، اس کی توقع بھی تھی لیکن رپورٹ میں جو انکشافات کیے گئے ہیں عوام کی اکثریت ان پر یقین کرے گی ۔ رپورٹ میں مزید 3آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے جن میں سے ایک ’’کیپٹل ایف زیڈ ای ‘‘ نواز شریف کے نام پر ہے ۔ وزیر اعظم اس کے چیئر مین بھی تھے اور اس سے تنخواہ بھی لیتے رہے ہیں ۔ وفاقی وزراء اب بھی مصر ہیں کہ نواز شریف کے نام پر کوئی آف شور کمپنی نہیں جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق شریف خاندان کے اثاثے ان کی آمدن سے زیادہ ہیں ۔ آنکھ میں دھول جھونکنے کے لیے لندن کی خسارے میں چلنے والی 6 آف شور کمپنیوں کو مہنگی جائیدادیں خریدنے اور رقوم کی منتقلی کے لیے استعمال کیا ۔ کمپنیاں90-80 کی دہائیوں میں بنیں جب نواز شریف کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھااور اپنا پیسہ کم تھا ۔ ملکی اور غیر ملکی اداروں سے رقوم حاصل کی گئیں ۔ یہ کمپنیاں بند پڑی تھیں یا خسارے میں تھیں لیکن سونے کے انڈے دے رہی تھیں۔ گزشتہ 20 برسوں میں ان کمپنیوں کا کوئی منافع نہیں ہے ۔ نواز شریف ، حسین ، حسن اور مریم نواز کے اعلان کردہ اثاثوں اور اعلان کردہ ذرائع آمدن میں فرق ہے ۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں کمپنیوں سے نواز شریف ، مریم اور شریف خاندان کی کمپنیوں کو خلاف ضابطہ قرضوں اور تحائف کی شکل میں رقوم منتقل ہوتی رہیں ۔برطانیہ میں شریف خاندان کی 6 آف شور کمپنیوں سے پاکستان رقوم بھیجنے کی کوئی وجہ بھی نہیں بتائی گئی ۔ رپورٹ میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ نیلسن اور نیسکول کمپنیوں کی اصل مالک مریم نواز ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ ملک کے اندر یا ملک سے باہر ان کی کوئی جائداد نہیں ہے ۔ برٹش ورجن آئی لینڈز نے توثیق کی ہے کہ مریم نواز بینی فشل اونر ہیں یعنی وہ محض ٹرسٹی یا نگران نہیں بلکہ منافع وصول کرنے والی مالک ہیں ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ مریم نواز نے جے آئی ٹی میں جو دستاویزات پیش کی تھیں ان کا فارنسک جائزہ لے کر انہیں جعلی قرار دیا ۔ پہلے دن سے شریف خاندان کا اصرار رہا ہے کہ لندن کے مہنگے ترین علاقے میں موجود شریف خاندان کے فلیٹس حسین نواز کے ہیں اور مریم محض ٹرسٹی ہیں ۔ اب تک یہ دلیل پیش کی جاتی رہی ہے کہ پاناما پیپرز میں نواز شریف کا نام ہی نہیں ہے چنانچہ ان پر کوئی مقدمہ نہیں بنتا ۔ لیکن اب عقدے کھل رہے ہیں کہ ان کی بھی ایک کمپنی ہے ۔ نواز شریف کا موقف تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو خاندانی کاروبار سے الگ رکھا ہوا ہے اور ان کے پاس رسمی طور پر بھی کوئی عہدہ نہیں ہے لیکن اصل صورتحال یہ ہے کہ وہ اپنے خاندانی کاروبار کے تمام فوائد حاصل کر رہے ہیں اور اس کا منافع ان کے ذاتی اکائونٹ میں جمع ہو جاتا ہے ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں عاید کردہ الزامات میں سے کوئی ایک بھی ثابت ہو جاتا ہے تو میاں نواز شریف اور ان کے بچوں کا سیاسی مستقبل تباہ ہو جائے گا ۔ صرف نواز شریف ہی نہیں بلکہ مریم نواز بھی نا اہل ہو جائیں گی جن کو آئندہ کی قیادت کے لیے تیار کیا گیا ہے ۔ رہے حسین اور حسن نواز ، تو وہ غیر ملکی شہری ہیں ، نا اہل ہونے پر ان کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ویسے بھی وہ سیاست سے باہر ہیں ۔ ن لیگ کی طرف سے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو ردی قرار دینا’’ میں نہ مانوں‘‘ کی واضح مثال ہے ۔جے آئی ٹی کی زد میں وزیر خزانہ اسحق ڈار بھی آئے ہیں جو نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں ۔ وہ بار بار پسینہ پونچھتے ہوئے وضاحتیں پیش کر رہے تھے ۔ نواز شریف کے خلاف ماضی میں ان کے حلفیہ بیان کو جے آئی ٹی نے درست قرار دیا ہے لیکن اسحق ڈار اپنے حلف کی بھی تردید کرتے رہے ہیں ، بہر حال یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر عدالت عظمیٰ کا بینچ غور کرے گا اور فیصلہ عدالت ہی کرے گی ۔اس کے لیے عدالت نے17 جولائی کو فریقین کو طلب کر لیا ہے ۔ اب اس پر طویل بحثیں ہوں گی اور ممکن ہے کہ پھر نئے انتخابات سر پر آجائیں ۔ ن لیگ عدالت میں بھرپور مقابلہ کرے گی اور سعد رفیق نے اعلان کیا ہے کہ قانونی جنگ عدالت میں لڑیں گے ۔ اگلے دن منگل کو نواز شریف نے اپنے حواریوں کے ساتھ جوابی کارروائی کی تیاری کر لی ہے اور وہ استعفا دینے پر تیار نہیں ۔ یعنی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی ۔ دیکھنا ہے کہ اختتامیہ کون لکھتا ہے۔